کلاسیکی موسیقی میں خیال گائیکی ادراک اور شعور کا سب سے بلند ترین درجہ ہے۔ اس مرحلے پر حروف بھی پیچھے رہ جاتے ہیں، صرف خیال بولتا ہے، جس پر آواز کی پرچھائی رقص کناں ہوتی ہے۔ اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے گائیک کو پوری زندگی صرف کرنا پڑتی ہے، تب کہیں جا کر منزلِ مراد ملتی ہے، کبھی کبھی پھر بھی نہیں ملتی۔

یہ اتنا کٹھن راستہ ہے، جس میں ریاضت ہے، مسافت ہے، قسمت ہے یا نہیں، خبر نہیں۔ ایسے راستے کے مسافر استاد فتح علی خان تھے، جن کی آواز میں برصغیر پاک و ہند کی تہذیب کلام کرتی تھی۔ ہند و پاک موسیقی کی کہانی میں اب کے ہم سے ایک بڑا کلاکار بچھڑ گیا۔

استاد فتح علی خان کا تعلق پٹیالہ گھرانے سے تھا۔ وہ کرنل فتح علی خان کے پڑپوتے، جرنل علی بخش کے پوتے، استاد اختر حسین کے صاحب زادے، استاد امانت علی خان اور استاد حامد علی خان کے بھائی، شفقت امانت علی کے چچا اور رستم فتح علی خان کے والد تھے۔

دائیں سے بائیں: حامد علی خان، استاد فتح علی خان، اسد امانت علی خان، امجد امانت علی خان۔— فوٹو بشکریہ آفیشل فیس بک پیج۔
دائیں سے بائیں: حامد علی خان، استاد فتح علی خان، اسد امانت علی خان، امجد امانت علی خان۔— فوٹو بشکریہ آفیشل فیس بک پیج۔

برِصغیر میں مغل دور سے ان کا گھرانہ کلاسیکی موسیقی میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ استاد فتح علی خان اپنے گھرانے کی پیڑھی میں، آٹھویں نسل سے تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے انہوں نے اپنے بھائی استاد امانت علی کے ہمراہ والد سے فنی تربیت حاصل کی۔

کلاسیکی موسیقی کی خدمات کے طور پر استاد فتح علی خان کے بزرگوں کو ریاست پٹیالہ کی طرف سے بیش بہا تحائف کے علاوہ کئی نادر القابات سے نوازا گیا، جن میں کرنل اور جرنل جیسے منصب شامل ہیں۔ اس دور میں سوائے سربراہ ریاست کے، کسی اور کو سونا پہننے کی اجازت نہیں ہوتی تھی مگر پٹیالہ گھرانہ وہ گھرانہ ہے جس کو یہ خصوصی اجازت بھی ملی۔

استاد فتح علی خان نے والد سے تربیت حاصل کرنے کے بعد اپنے بھائی استاد امانت علی خان کی سنگت میں گائیکی کی ابتدا کی۔ دونوں آوازوں کی آمیزش نے سماعتوں میں رس گھولنے کا کام کیا۔ پاکستان میں 1974 تک اس جوڑی نے شائقین موسیقی کے دل گرمائے رکھے۔

استاد امانت علی خان کے انتقال پر یہ جوڑی ٹوٹی تو استاد فتح علی خان کی آواز تنہا رہ گئی، جس طرح ڈار سے کونج بچھڑجائے، یہی کیفیت ان کی آواز میں بھی در آئی۔

اس کے بعد انہوں نے استاد حامد علی خان، امجد امانت علی خان اور پھر رستم فتح علی خان کے ساتھ اس ہجر کے خانے کو پُر کرنے کی کوشش کی، مگر اس سعی میں درد اور منتشر ہوگیا۔ یہ آواز استاد امانت علی خان سے بچھڑ کر بے چین رہی تھی، اور اب خاموش ہی ہوگئی۔

استاد فتح علی خان (بائیں) اپنے بھائی استاد امانت علی خان (دائیں) کے ساتھ۔ — فوٹو بشکریہ آفیشل فیس بک پیج۔
استاد فتح علی خان (بائیں) اپنے بھائی استاد امانت علی خان (دائیں) کے ساتھ۔ — فوٹو بشکریہ آفیشل فیس بک پیج۔

انہوں نے 1945 میں پہلی مرتبہ لاہور کی ایک محفل میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ آل انڈیا ریڈیوسے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان کے لیے طویل عرصے تک اپنی آواز سے فن کی خدمت کرتے رہے۔ دنیا بھر میں گائیکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، انہیں سب سے زیادہ لطف افغانستان میں آیا، جب وہاں ظاہر شاہ کی بادشاہت تھی اور فنِ موسیقی کا فہم رکھنے والے اکثریت میں تھے۔

ماضی کے اوراق پلٹیں تو 80 کی دہائی میں استاد فتح علی خان نے ناروے میں کچھ غیر ملکیوں کے ساتھ روایتی اور جدید موسیقی کے امتزاج سے کچھ نئے تجربات کیے، جن کو وہ ’’راگاز اینڈ ساگاز‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ اس موسیقی کو ناروے کے بادشاہ نے بھی سماعت کیا۔ اس کانسرٹ کی کیسٹ بھی ناروے سے ریلیز ہوئی۔

ایک ہفتے تک ناروے میں دورانِ قیام استاد نے اپنے ان تجربات میں ریاضت کا عرق انڈیل کر کلاسیکی موسیقی سے نت نئے راستے نکالنے کی تراکیب لڑائیں، جس میں بقول ان کے وہ "کسی حد تک کامیاب رہے، مگر یہ الگ بات ہے، اس تجربے کا چرچا نہ ہوسکا۔ ہمیں کیا پتہ تھا، آگے چل کر یہ فیوژن میوزک کہلائے گا۔‘‘ استاد فتح علی خان نے راقم کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ تمام تفصیلات بتائیں۔ یہ بھی بتایا کہ ’’پاکستان میں فیوژن میوزک کا میں موجد ہوں اور استاد نصرت فتح علی خان نے بھی میری ناروے والی پرفارمنس کے بعد اس بات کااعتراف کیا تھا۔‘‘

استاد فتح علی خان راگ درباری گاتے ہوئے۔

2008 میں انڈس ویلی اسکول آف آرٹ کراچی میں "کل پاکستان موسیقی کانفرنس" میں استاد فتح علی خان اپنے بیٹے استاد رستم فتح علی خان کے ہمراہ تشریف لائے۔ اس میں ’’راگ باگیشری‘‘ گایا اور کچھ ٹھمریاں بھی حاضرین کے لیے پیش کیں۔

میں نے ان کو پاکستان ٹیلی وژن کے پروگرام ’’راگ رنگ‘‘ سے لے کر اس عرصے میں متعدد بار ریڈیو اور ٹیلی وژن پر سنا تھا، مگر ان کو سامنے بیٹھ کر سننے کا تجربہ پہلی مرتبہ ہوا۔

اس رات ایسا لگتا تھا کہ خان صاحب بھی بہت اچھے موڈ میں تھے۔ سنہرا کرتا پہنے، انہوں نے پورے ماحول کو سنہری رنگ میں بدل دیا۔ اس رات دیر تک خان صاحب نے اپنی گائیکی سے ثابت کرکے دکھایا کہ وہ جب چاہیں، سماع باندھ سکتے ہیں۔

اس محفل کے بعد میں نے استاد سے مکالمہ کیا، جو میری کتاب ’’سُرمایا‘‘ کا حصہ بھی بنا۔ استاد سے بے حد شفقت ملی اور ان سے دوستانہ مراسم ہوگئے۔ میں نے ان کے گھرانے پٹیالہ کے تناظر میں جب بھی لکھنا چاہا، وہ نہایت شفقت کے ساھت پیش آتے اور ہر طرح کی معاونت کرتے۔

ایک مرتبہ ان کے گھرانے اور بڑے بھائی استاد امانت علی خان کے سلسلے میں مجھے کچھ خصوصی طور پر تحریر کرنا تھا۔ اس حوالے سے میں نے استاد فتح علی خان کی اجازت سے ان کی بہنوں سے بھی گفتگو کی۔ شاید یہ پہلی مرتبہ تھا کہ ان کے خاندان کی خواتین نے، اپنے بزرگوں اور عزیزوں کے پیشے اور فن کے متعلق اظہارِ خیال کیا تھا۔

یہ انتہائی کٹھن کام تھا، جس میں استاد کی شفقت کام آئی، انہوں نے اس میں ذاتی دلچسپی لی اور بڑا بھائی ہونے ناطے اجازت بھی دلوائی۔

پاکستان کے معروف گلوکار شفقت امانت علی سے بھی تعارف کا ذریعہ استاد ہی بنے۔ کراچی میں ان کی بہن کے گھر ہونے والی ملاقات بہت یادگار رہی، جس میں استاد کئی گھنٹے تک اپنے گھرانے کی تاریخ اور گائیکی کے مختلف پہلوؤں اور نمایاں شخصیت کے فنی رموز پر اظہار خیال کرتے رہے۔ وہ ایک مشفق انسان، سریلے گلوکار اور دوست صفت رکھنے والے فنکار تھے۔

برصغیر پاک و ہند میں کلاسیکی موسیقی کو سیکھنے کی غرض ہو یا صرف سماعت کرنے کی لگن، پٹیالہ گھرانہ اور استاد فتح علی خان کو نظر انداز کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ استاد کو بچپن میں جس فن سے والد کے ڈر نے جوڑا تھا، وہ فن ان کے اندر جب سرایت کرگیا، تو پھر محبت کے فن میں بدل گیا۔

وہ تمام زندگی محبت کے سریلے راگ گاتے رہے۔ ان کا شمار ان چند منتخب گلوکاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے عوامی اجتماعات میں بھی گائیکی کو پیش کرتے وقت اس کا ادراک بھی دیا، اس کے بارے میں باریکیوں پر بات کی، کیا گا رہے ہیں، اس کی تشریح بھی کی، صرف اس مقصد سے تاکہ آنے والی نسلوں کا ناطہ اس فن سے برقرار رہے۔

استاد فتح علی خان کی ریاضت ان کی آواز کی صورت میں پاکستان کی تاریخ میں محفوظ ہے۔ ان کی گائیکی اور شفقت بھرا لہجہ، سماعتوں اور شائقین کے دل میں پنہاں ہے۔ ان کے گائے ہوئے راگ، پیش کی ہوئی خیال گائیکی سے بندھی ہوئی یادوں کی ایک کونج ہے، جس کو ہم خود سے بچھڑنے نہیں دیں گے، ان کی آواز سے لگے سارے سچے سُر، آنے والی نسلوں تک سماعتوں کو سیراب کرتے رہیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں