افغانستان: اماراتی سفیر پر حملے کی تحقیقات شروع

اپ ڈیٹ 11 جنوری 2017
سرکاری عمارات کی سیکیورٹی عموماََ کافی سخت رکھی جاتی ہے—فوٹو: اے ایف پی
سرکاری عمارات کی سیکیورٹی عموماََ کافی سخت رکھی جاتی ہے—فوٹو: اے ایف پی

کابل : افغانستان میں گورنر ہاؤس میں صوفے کے اندر چھپائے گئے بم سے دھماکے کے ذریعے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے سفیر کو نشانہ بنانے کے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل اور جنوبی صوبے قندھار میں بم دھماکوں میں 56 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 5 متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے شہری بھی شامل تھے، جن کی تصدیق سرکاری طور پر بھی کر دی گئی۔

رپورٹس کے مطابق ہلاک ہونے والے اماراتی افراد ان 13 افراد میں شامل تھے جو جنونی قندھار میں گورنر کمپاؤنڈ میں صوفے میں چھپائے گئے بارود کے پھٹنے سے ہلاک ہوئے جبکہ افغانستان میں موجود متحدہ عرب امارات کے سفیر بھی دھماکے میں زخمی ہوئے۔

اس دھماکے سے چند گھنٹے قبل ہی کابل میں طالبان کے دو دھماکوں کے نتیجے میں پارلیمنٹ کی انیکسی سے باہر آنے والے ملازمین کو نشانہ بنایا گیا تھا ، جس میں 36 افراد ہلاک اور 80 زخمی ہوئے تھے۔

اس سے قبل بھی طالبان کے خودکش بمبار نے لشکر گاہ میں 7 افراد کو ہلاک کیا تھا۔

امریکی فوج کی معاونت سے افغان فورسز کی جانب سے طالبان، القاعدہ اور داعش کے جنگجوؤں کے خلاف جاری جنگ میں خون ریزی افغانستان کی فضا میں عدم تحفظ میں اضافے کا سبب بنی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: متعدد دھماکوں میں 39 افراد ہلاک،اماراتی سفیر زخمی

دھماکے کے وقت جائے حادثہ پر موجود صوبائی پولیس چیف عبدالرازق کا بتانا تھا کہ قندھار کے گورنر ہمایوں عزیزی اور اماراتی سفیر جمعہ محمد عبداللہ الکعبی دھماکے کے اثرات سے زخمی ہوئے لیکن کئی افراد ایسے تھے جو اس قدر جھلس گئے کہ ان کی شناخت کرنا بھی ممکن نہ ہو سکی۔

متحدہ عرب امارات کے خبر رساں اداے کے مطابق ہلاک ہونے والے اماراتی افسر انسان دوستی، تعلیمی اور ترقیاتی منصوبوں کا مشن لے کر افغانستان پہنچے تھے۔

دھماکوں کی تحقیقات کا حکم جاری کرتے ہوئے افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ واقعے سے افغانستان اور متحدہ عرب امارات کے تعلق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

واضح رہے کہ طالبان کی جانب سے قندھار حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا گیا تھا جبکہ انہوں نے کابل میں ہونے والے دھماکوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔

—فوٹو: اے ایف پی
—فوٹو: اے ایف پی

رپورٹس کے مطابق کابل میں ہونے والے پہلے حملے میں خودکش حملہ آور نے حکومتی ملازمین کو لے جانے والی منی بس کو نشانہ بنایا تھا، پہلے دھماکے کے بعد جیسے ہی ریسکیو اہلکار موقع پر پہنچے کار میں نصب بارودی مواد کو دھماکے سے اڑادیا گیا۔

ان دونوں دھماکوں میں ہلاک ہونے والے 36 افراد میں 4 پولیس اہلکار بھی شامل تھے جو دوسرے دھماکے کی زد میں آئے تھے۔

وزارتِ صحت کے ترجمان وحید مجروح کی جانب سے خبردار کیا گیا تھا کہ ہسپتال میں موجود زخمیوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ موجود ہے۔

امریکا میں صدر کی تبدیلی سے جنگ پر اثرات

کابل اور قندھار میں ہونے والے وحشیانہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اشرف غنی نے شہریوں کو نشانہ بنائے جانے ہر طالبان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق کابل میں ہونے والے دھماکوں میں شہریوں کی ہلاکت سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ طالبان تشدد کی ایک بہیمانہ مہم شروع کرچکے ہیں جس میں شہریوں کی جان کو بھی نہیں بخشا جارہا، متاثرین اور ان کے اہل خانہ کو انصاف دلانے کے لیے ضروری ہے کہ کہ فوری، غیر جانبدار اور خودمختار تفتیش کا آغاز کیا جائے۔

واضح رہے کہ منگل (10 جنوری) کو ہونے والے یہ دھماکے امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے صرف دس روز پہلے سامنے آئے ہیں۔

افغانستان کی صورتحال کو حل کرنا نومنتخب صدر کے لیے ایک اہم معاملہ ہوگا، گو کہ امریکا کی اس طویل جنگ کا امریکی صدارتی مہم میں کوئی خاص ذکر دیکھنے میں نہیں آیا تھا اور ٹرمپ نے اپنی خارجہ پالیسی میں افغانستان میں جاری جنگ کی صرف مختصر معلومات کا ذکر کیا تھا۔

یاد رہے کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی متعدد کوششیں ناکام ہوچکی ہیں، گذشتہ ہفتے افغانستان کی جانب سے پینٹاگون کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا گیا تھا کہ 300 امریکی مرینز کو ہیلمنڈ میں تعینات کیا جائے جہاں امریکی فورسز 2014 سے قبل جنگ میں مصروف تھیں۔

ان میرینز کو بعد ازاں افغانستان کے صوبے میں نیٹو کے مشن میں معاونت کے لیے بھیجا جانا تھا تاکہ افغان فورسز کو تربیت فراہم کی جاسکے۔

واضح رہے کہ نیٹو کی جانب سے دسمبر 2014 میں مشن کے اختتام کا اعلان کردیا گیا تھا تاہم امریکی فورسز کو گذشتہ سال جون میں باغیوں پر حملوں کے لیے اختیارات میں اضافہ فراہم کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں