حیدرآباد سے 45 منٹ کی دوری پر ایک شہر ٹنڈو آدم واقع ہے۔ سندھ کے دیگر شہروں کی طرح یہاں بھی حکومتی نااہلی کے ثبوت ہمیں جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ تیل کی دولت سے مالا مال اس شہر میں جہاں ہرے بھرے کھیت ہیں، وہاں مختلف پھلوں کے باغات بھی ہیں۔ ہر جانب آپ کو سبزہ ہی سبزہ دکھائی دیتا ہے۔

مگر شہر میں داخل ہونے والی سڑک برسوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، جہاں سے روزانہ کئی گاڑیوں کا گزر ہوتا ہے۔ اس اکھڑی ہوئی سڑک کا حال دیکھ کر ہی باقی شہر کی حالت کا اندازہ باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔

مجھے اس شہر میں وہ جگہ کھینچ لائی جو کئی دہائیوں سے مذہبی رواداری کی مثال بنی ہوئی ہے۔ ٹنڈو آدم کے مرکزی چوراہے سے تھوڑے فاصلے پر سنت ٹیئوں رام کا آشرم قائم ہے۔ جن کے عقیدتمندوں میں ہندو بھی شامل ہیں اور مسلمان بھی۔

سنت ٹیئوں رام آشرم کا مرکزی دروازہ — تصویر اختر حفیظ
سنت ٹیئوں رام آشرم کا مرکزی دروازہ — تصویر اختر حفیظ

آشرم کے اندر موجود گنبد والی عمارت— تصویر اختر حفیظ
آشرم کے اندر موجود گنبد والی عمارت— تصویر اختر حفیظ

آشرم کا چھوٹا دروازہ — تصویر اختر حفیظ
آشرم کا چھوٹا دروازہ — تصویر اختر حفیظ

آشرم کا اندرونی منظر — تصویر اختر حفیظ
آشرم کا اندرونی منظر — تصویر اختر حفیظ

اس آشرم کو امراپور دربار کہا جاتا ہے۔ یہ آشرم سنت ٹیئوں رام نے تعمیر کروایا تھا، جن کا جنم 1887 میں شہر ہالا میں ہوا تھا۔ سنت ٹیئوں رام کے والد بھی صوفی مزاج رکھنے والے انسان تھے، اس لیے ان کے ہاں لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ انہی کی صحبت میں رہ کر وہ انسانی خدمت کے قائل ہوئے۔ جب وہ 16 برس کے ہی تھے کہ مذہبی رواداری اور انسانی خدمت کے لیے پرچار کرنے لگے۔

کہا جاتا ہے کہ سنت ٹیئوں رام ایک مرتبہ مینگھورام کا میلہ گھومنے بیرانی گئے تھے۔ میلے میں تین دن گزار کر وہ ٹنڈو آدم لوٹ آئے۔ ان دنوں بڑی گرمی تھی، وہ شام کو کھلی اور تازہ ہوا کھانے کی غرض سے باہر نکلے اور ایک چھوٹے سے ٹیلے پر چڑھ گئے اور آس پاس دیکھنے لگے۔

یہاں کی آب و ہوا انہیں راس آ گئی اور وہیں پر بیٹھ گئے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد سادھوؤں نے انہیں کہا کہ اب سورج ڈھل چکا ہے واپس چلتے ہیں۔ مگر انہوں نے کہا کہ یہ بہت ہی اچھی جگہ ہے، ہم کچھ وقت یہاں ٹھہریں گے آپ لوگ تب تک بستر اور یکتارے (ساز) لے کر آئیں۔

سنت ٹیئوں رام کی تصویر — تصویر اختر حفیظ
سنت ٹیئوں رام کی تصویر — تصویر اختر حفیظ

سنت ٹیئوں رام سے لوگ گہری عقیدت کا اظہار کرتے ہیں— تصویر اختر حفیظ
سنت ٹیئوں رام سے لوگ گہری عقیدت کا اظہار کرتے ہیں— تصویر اختر حفیظ

سنت ٹیئوں رام آشرم — تصویر اختر حفیظ
سنت ٹیئوں رام آشرم — تصویر اختر حفیظ

آشرم میں موجود آرتی کی تھالی — تصویر اختر حفیظ
آشرم میں موجود آرتی کی تھالی — تصویر اختر حفیظ

انہوں نے اسی جگہ پر ایک جھونپڑی بنائی اور ایک کنواں بھی کھودا گیا جس کا پانی بہت ہی میٹھا تھا۔ اسی طرح ان کا یہ استھان (آستان) قائم ہوا۔ وہاں راگ رنگ کی محافل منعقد ہوتیں اور امن و محبت کے اسباق دیے جانے لگے۔ تب سے لوگوں کا یہاں تانتا بندھا رہتا تھا۔

یہ عمل اس وقت کے چند عناصر سے برداشت نہ ہوا کہ ایک سنت جو کہ کسی بھی قسم کی مذہبی تفریق نہیں کرتا، وہ اس قدر مقبول ہونے لگا ہے۔ انہیں اپنی عزت و وقار خطرے میں محسوس ہوا۔ لہٰذا ان لوگوں کی جانب سے کہا گیا یہ جو شخص بھی سنت ٹیئوں رام کے پاس جائے گا، اس کا حقہ پانی بند کر دیا جائے گا.

ان کے بارے میں یہ افواہ پھلائی گئی کہ یہ سادھ (پرہیزگار) نہیں بلکہ چور ہے۔ اسی زمانے میں ٹنڈو آدم کے امیر لوگ اور دیگر مذہبی پنڈتوں نے نواب شاہ کے کلیکٹر کو یہ شکایت کی کہ یہ نوجوان دن کو نیک بن کر بیٹھتے ہیں اور رات کو ڈاکے ڈالتے ہیں۔

آشرم کا پرانا کنواں جو اب ناقابل استعمال ہے— تصویر اختر حفیظ
آشرم کا پرانا کنواں جو اب ناقابل استعمال ہے— تصویر اختر حفیظ

آشرم کے اندر موجود ایک پرانا دروازہ — تصویر اختر حفیظ
آشرم کے اندر موجود ایک پرانا دروازہ — تصویر اختر حفیظ

آشرم کے اندر موجود عمارت کا گنبد — تصویر اختر حفیظ
آشرم کے اندر موجود عمارت کا گنبد — تصویر اختر حفیظ

گنبد کا اندرونی منظر— تصویر اختر حفیظ
گنبد کا اندرونی منظر— تصویر اختر حفیظ

ٹیئوں رام جب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ شہر سے باہر گئے تو کلیکٹر کے احکامات کے مطابق ان کے آستانے کو تہس نہس کر دیا گیا۔ مگر بعد میں جب انہیں کسی شہری کے توسط سے یہ پتہ چلا کہ یہ سب جھوٹ تھا تو سنت کو سات ایکڑ زمین معافی کے طور عنایت کی۔

زمین ملنے کے بعد یہاں پر اس آستانے کے تعمیراتی کام کا آغاز کیا گیا۔ اسی آشرم میں پھر میلے کا انتظام کیا گیا۔ راگ رنگ اور بھگتی کی محفلیں منعقد ہونے لگیں۔ سنت ٹیئوں رام خود بھی ایک صوفی فنکار تھے۔ ان کے راگ کا موازنہ کنور بھگت کے راگ کے مزاج سے کیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ بھگت کنور بھی ایک اسے صوفی فنکار رہے ہیں جنہوں نے اپنے راگ کی مدد سے پورے سندھ بلکہ برصغیر میں امن کی تبلیغ کی۔ آج بھی انہیں ایک صوفی کے طور پہ یاد کیا جاتا ہے۔

آشرم کا ایک بیرونی منظر— تصویر اختر حفیظ
آشرم کا ایک بیرونی منظر— تصویر اختر حفیظ

آشرم کے مرکزی دروازے پر سندھی اور ہندی میں آشرم کا نام لکھا ہے— تصویر اختر حفیظ
آشرم کے مرکزی دروازے پر سندھی اور ہندی میں آشرم کا نام لکھا ہے— تصویر اختر حفیظ

اس آشرم کی چند بہترین روایتوں میں سے ایک روایت یہ بھی رہی ہے کہ کسی بھی زائر کو بنا کھانا کھلائے نہیں چھوڑا جاتا تھا۔ صبح ناشتے، دن کے کھانے اور رات کے کھانے کا بندوبست بھی اسی آشرم کے ذمے ہوتا تھا۔ سادہ سا کھانا کھانے کے لیے لوگ دور دور سے یہاں آتے تھے۔

ماضی میں سنت ٹیئوں رام کا آشرم کئی ایکڑ پر محیط تھا۔ مجھے جب یہ آشرم دیکھنے کا موقع ملا تو میرے ذہن میں جو ایک خاکہ بنا تھا وہاں ماحول اس کے بالکل برعکس تھا۔ اب نہ تو یہ آشرم اپنی سابقہ حالت میں برقرار ہے اور نہ ہی اس کا رقبہ اتنا وسیع رہا ہے۔

آپ جیسے ہی آشرم کو جانے والی گلی میں داخل ہوتے ہیں تو ایک بہت بڑا سا دروازہ سامنے نظر آتا ہے۔ جسے بہت کاریگری سے تیار کیا گیا ہے۔ وہ اس آشرم کا مرکزی دروازہ ہے مگر جب یہاں فسادات کی آگ بھڑکی تھی تب اسے بند کر دیا گیا۔ اب وہاں پر ایک سرکاری اسکول قائم ہے۔ اور باقی حصہ بھی قبضہ مافیا کے قبضے میں ہے۔

مرکزی دروازے پر ہندی اور سندھی میں زبان میں عبارتیں تحریر ہیں۔ ہمیں اسی دروازے کے عقب میں موجود ایک چھوٹے سے دروازے سے اندر داخل ہونا پڑا۔ اندر داخل ہونے کے ساتھ ہی زائرین کی رہائش کے لیے وہ کمرے شروع ہو جاتے ہیں جو ہندوستان اور ملک کے دیگر علاقوں سے آنے والے یاتریوں کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔

آشرم کی راہداری— تصویر اختر حفیظ
آشرم کی راہداری— تصویر اختر حفیظ

آشرم میں موجود زائرین کی رہائش کے لیے کمرے — اختر حفیظ
آشرم میں موجود زائرین کی رہائش کے لیے کمرے — اختر حفیظ

چھوٹی سے راہداری سے چلنے کے بعد سنت ٹیئوں رام کے آستانے کا وہ حصہ آتا ہے جہاں وہ راگ رنگ اور درس دیا کرتے تھے۔ وہ کنواں جس کا پانی عقیدتمند بڑی چاہ سے پیا کرتے تھے، آج وہ کانٹوں سے ڈھکا ہوا ہے اور اس کا پانی متعفن ہے۔

اندر ایک گنبد والا چھوٹا سا احاطہ ہے جس میں لکڑی کے تین دروازے نصب ہیں اور اسی مقام پر سنت ٹیئوں رام کی تصاویر بھی آویزاں ہیں۔ دروازوں پر لگی جالیوں سے روشنی کچھ دیر کے لیے اس گنبد کو روشن کر دیتی ہے۔

مذہبی رواداری کے ایسے مقامات پر پہنچ کر آپ کا دل نہ صرف سکون پاتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کے لیے دل میں عزت اور بھی بڑھ جاتی ہے جو انسانیت کو کسی بھی مذہب سے بالاتر سمجھ کر ان کے دکھوں کا مداوا کرتے ہیں۔

سنت ٹیئوں رام نے ہندی اور سندھی میں بھجن، کافی، بیت اور شلوک کہے ہیں۔ جے پور ہندوستان میں امرا پور وانی، نامی سوانح اور شاعری کا ایک مجموعہ چھپ چکا ہے۔ ان کی یادگاریں ہندوستان سمیت دیگر ممالک میں قائم کی گئی ہیں اور آج بھی ان کی یاد میں راگ اور بھگتی کا سلسلا جاری و ساری ہے۔

وہ مقام جہاں سنت ٹیئوں رام کے جسد خاکی رکھا گیا تھا، آج وہاں ایک پارک موجود ہے— تصویر اختر حفیظ
وہ مقام جہاں سنت ٹیئوں رام کے جسد خاکی رکھا گیا تھا، آج وہاں ایک پارک موجود ہے— تصویر اختر حفیظ

وہ مقام جہاں سنت ٹیئوں رام کے جسد خاکی رکھا گیا تھا، آج وہاں ایک پارک موجود ہے— تصویر اختر حفیظ
وہ مقام جہاں سنت ٹیئوں رام کے جسد خاکی رکھا گیا تھا، آج وہاں ایک پارک موجود ہے— تصویر اختر حفیظ

سنت ٹیئوں رام اپنے پیروکاروں کے ہمراہ پریم پرکاش آشرم حیدرآباد بھی گئے جہاں 1943 میں وہ وفات پا گئے۔ جب ان کے جسد خاکی کو ٹنڈو آدم لایا گیا تو تین روز تک لوگ ان کا دیدار کرتے رہے۔ جس جگہ پر ان کی میت رکھی گئی تھی، آج وہاں پر ایک چھوٹا سا پارک قائم ہے۔

ٹیئوں رام کا اپنا مذہب جو بھی رہا ہو مگر انہوں نے دنیا میں بسنے والے لوگوں کو یہ ضرور بتایا کہ انسان کے اندر کو تب ہی سکون مل سکتا ہے، جب وہ بنا تفریق انسانیت کی خدمت کرے۔ ایسے کردار انسانیت کی حقیقی خدمت کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ یہی وہ نکتہ تھا جس کی وجہ سے انہوں نے ایک ایسا آشرم تعمیر کیا جو کہ سندھ میں مذہبی رواداری کی ایک بہترین مثال ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں