یہ 2002 کے اوائل کی بات ہے جب میں نے مشہور مذہبی رہنما ڈاکٹر اسرار احمد کے ہاتھ بیعت کی، اور اسلامی انقلاب کی جدوجہد کو اپنی سب سے اولین ذمہ داری سمجھنے اور ماننے لگا۔

ستمبر 2002 میں میرا گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں ایم ایس سی سائیکولوجی میں داخلہ ہو گیا۔ میرا تعلق جنوبی پنجاب کے شہر ملتان سے تھا۔ ایک پسماندہ علاقے سے آنے والے کسی بھی طالبِ علم کی طرح میں بھی شروع شروع میں اپنے اندر کئی طرح کے خوف اور 'کمپلیکس' لیے ہوا تھا۔

میری سلمان حیدر سے پہلی ملاقات (جو بعد میں ایک گہرے تعلق میں بدل گئی) گورنمنٹ کالج یونیوسٹی میں ہی ہوئی۔ سلمان سائیکولوجی ڈیپارٹمنٹ میں میرا سینئر تھا۔ بلا کا ذہین تھا اور ڈیپارٹمنٹ کے قابل اور ہونہار طالبعلموں میں شمار ہوتا تھا۔ نصابی سرگرمیوں میں امتیازی مقام رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ یونیورسٹی کے ڈرامیٹکس کلب اور ڈیبیٹنگ کلب کا بھی سرگرم رکن تھا۔

اپنی اِن ہم نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کی وجہ سے وہ پوری یونیوسٹی میں کافی مقبول و مشہور تھا۔ وہ کئی قومی سطح کے تقریری مقابلوں میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے لیے بہت سے اعزازات بھی جیت کر لایا۔ اپنی سماجی و نجی زندگی میں بہت ملنسار، کھُلا ڈُلا، بےباک اور انسان دوست شخص تھا۔

ایک پسماندہ علاقے سے آئے ہوئے طالبِ علم کی حیثیت سے جو اجتناب اور خوف مجھے لاحق تھے، انہیں دور کرنے اور میرے اُس نئے ماحول میں گھل مل جانے میں سب سے کلیدی کردار سلمان نے ادا کیا۔ سلمان ایک لبرل سوچ کا حامی تھا لیکن میرے مذہبی رجحان کو کبھی بھی اُس نے اپنے اور میرے درمیان تعصب یا رکاوٹ نہیں بننے دیا۔

وہ بِلا خوف و خطر اُسی وارفتگی سے مجھ سے میل جول رکھتا تھا جیسے اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ رکھتا تھا۔ میرے مذہبی رجحان کو دیکھ کر وہ اکثر مزاح میں کہا کرتا تھا کہ عمران کی تو روح پر بھی داڑھی ہے۔

گورنمنٹ کالج یونیوسٹی سے ایم ایس سی کرنے کے بعد سلمان نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اسکالرشپ کے لیے کوالیفائی کیا اور پی ایچ ڈی کرنے قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد چلا گیا۔

جب میں نے اپنی ایم ایس سی مکمل کی تو یہ سلمان ہی تھا جس کی تحریک پر میں نے بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی اسکالرشپ کے لیے کوالیفائی کیا اور سلمان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد پی ایچ ڈی کرنے پہنچ گیا۔ سلمان نے وہاں ہاسٹل میں اپنے ہی ساتھ مجھے اپنے کمرے میں ایڈجسٹ کروایا۔

قائدِ اعظم یونیورسٹی کے ہوسٹل نمبر 2 کے کمرہ نمبر 58 کے 2 مکین تھے، سلمان اور شہادت۔ ستمبر 2006 میں جب میرا ایم فل سائیکولوجی میں داخلہ ہوا تو مجھے ہوسٹل میں رہنے کے لیے کمرہ الاٹ نہیں ہو رہا تھا۔ سلمان اور شہادت نے اُس مشکل گھڑی میں مجھے اپنے کمرے میں تیسرے روم میٹ کے طور پر ایڈجسٹ کیا.

پڑھیے: غیر ارضی مخلوق کا نیا شکار

اُس وقت اُس کمرے میں 2 سنگل بیڈ تھے جو اُن دونوں نے کمرے سے نکلوا کر زمینی بستر کا اہتمام کیا کیوں کہ 2 بیڈز پر ہم تین لوگوں کے لیے ایڈجسٹ ہونا ممکن نہیں تھا۔

اب صورتِ حال یوں تھی کہ دروازے کے بالکل سامنے زمین پر ہم تینوں کے بستر لگے تھے اور دروازے سے بستر کے درمیان کی تھوڑی سی خالی بچ جانے والی زمین ہمارے جوتوں کے لیے مختص تھی۔

ہمارے بستر پنکھے کے عین نیچے بِچھے ہوتے لیکن گرمی کی شدت اتنی جان لیوا ہوا کرتی تھی کہ ہمیں ہر 2 گھنٹے بعد اپنے بستروں کو پانی سے بھگونا پڑتا تھا۔

گرمیوں کے ایسے ہی ایک دن ملتان سے میرے 2 دوست اچانک پیشگی مطلع کیے بغیر آن وارد ہوئے۔ خیال یہ تھا کہ رات تک وہ واپس چلے جائیں گے لیکن رات ہونے پر انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ وہ تو رات ہمارے پاس ہی قیام کرنے کا ارادہ لیے ہوئے ہیں۔

یہ صورتِ حال میرے لیے کافی پریشان کُن تھی کہ ہم تین بھی بڑی مشکل سے اُس چھوٹے سے کمرے میں اپنے قیام کا بندوبست کیے ہوے تھے۔ اگر ہم خود کو بہت زیادہ بھی تنگ کر لیتے تو اپنے ایستادہ بستروں میں صرف ایک ہی بندے کو ایڈجسٹ کر سکتے تھے۔

سلمان میرے چہرے کی اکتاہٹ اور پریشانی کو بھانپ گیا۔ اُس نے چادر اُٹھائی اور دروازے سے بستر کے درمیان جوتوں کے لیے مختص جگہ پر چادر بِچھا کر لیٹ گیا اور اپنا بستر میرے اُن مہمانوں کے حوالے کر دیا۔

میں اُس غریب سے اصرار کرتا رہا کہ تم بستر پر آ جاؤ، میں وہاں جوتوں کی جگہ لیٹ جاتا ہوں کیوں کہ بالآخر مہمان میرے تھے، لیکن وہ یہ کہہ کر آنکھیں موند کر لیٹ گیا کہ میں بہت تھکا ہوا ہوں تو مجھے یہاں سخت زمین پر یا بستر پر سونے سے کوئی فرق نہیں پڑنا۔

جیسا کہ میں آغاز میں ہی بتا چکا ہوں کہ میں 2002 میں ڈاکٹر اسرار احمد کے ہاتھ پر بیعت ہو گیا تھا اور آج بھی خود کو اُنہی کی فکر پر عمل پیرا پاتا ہوں، اتنے عرصے میں میرے مذہبی افکار اور رجحانات میں وسعت تو ضرور پیدا ہوئی ہے لیکن کمی نہیں ہوئی۔

آج کل سوشل میڈیا پر کچھ لوگ جب اپنے مذموم مقاصد کی خاطر سلمان کی کردار کشی کر رہے ہیں تو میں نے یہ ضروری جانا کہ سلمان کا اصل رُخ لوگوں کے سامنے لایا جائے۔ سلمان میں مذہب بیزاری یا مذہب دشمنی مجھے تو اپنی 14 سال کی رفاقت میں کبھی نظر نہیں آئی۔ ہاں وہ بیزار تھا جہالت سے، وہ بے زار تھا فکر اور سوچ کی گُھٹن سے، وہ بے زار تھا سیاسی، سماجی اور معاشی جبر سے، چاہے یہ جہالت، گُھٹن اور جبر روا رکھنے والی قوت کوئی بھی ہو۔

سلمان عقل اور دلیل کا بندہ ہے، اسے جبر اور جہالت کے پیمانوں پر نا پرکھا جائے۔ ایسی خداداد صلاحیتوں کے حامل افراد معاشروں کا اثاثہ ہوا کرتے ہیں۔ میں نے اپنی اِس 14 سالہ رفاقت میں سلمان کو بنیادی انسانی قدروں میں بہت سے مذہبی ٹھیکے داروں سے ہزار ہا درجے بلند پایا ہے۔

سلمان اور میرے درمیان فکر و عمل کے تضاد کے باوجود مجھے یہ سچ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ دونوں کی باہم دوستی اور قربت میں بنیادی کردار سلمان کی وسعتِ نظری اور وسعتِ قلبی کا رہا ہے۔

سلمان کی یہ خوبی تھی کہ وہ اختلافِ رائے کو (اگر عقلی بنیادوں پر ہو) بخوشی قبول اور تسلیم کر لیتا تھا۔ وہ کسی بھی نقطہِ نظر کا تنقیدی جائزہ عقلی بنیادوں پر کیا کرتا تھا۔ بارہا ایسا بھی ہوا کہ میں نے اُسے اپنے ہی مکتبہٴ فکر کے افراد پر بھی تنقید کرتے ہوئے پایا۔ وہ ایک کھُلے دل کا انسان تھا جو حق بات کو تسلیم کرنے میں ذرہ برابر بھی دیر نہیں کرتا تھا۔

مزید پڑھیے: سلمان حیدر بھی 'وہی فائل' بن گئے

اُس کی تنقید افکار سے زیادہ اُن افکار کی بنیاد پر ظلم اور استحصال کرنے والوں پر ہوتی تھی۔ یہ بات غلط ہے کہ سلمان مذہب کے خلاف تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اُس کی تنقید مذہب میں موجود تفریق اور مختلف غیر منطقی و غیر عقلی دلائل و نظریات پر ہوا کرتی تھی۔

یہی ہمارا پہلا مشترکہ دکھ تھا کہ مذہب کو امن کا گہوارہ کہنے والے خود کسی ایسے مشترکہ نظریہ پر کیوں نہیں پہنچ سکتے جو امن کا باعث بن سکے۔

ہمارا دوسرا مشترکہ دکھ ریاست کے کردار سے متعلق تھا۔ ہمارا یہ عقیدہ و نظریہ ہے کہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ اپنے شہریوں کے حقوق اور فلاح کا بندوبست اور حفاظت کرے۔ گویا ہم دونوں ایک فلاحی ریاست کے پرچارک ہیں۔

ہم دونوں اِس بات پر کُڑھتے تھے کہ یہ ملک (جسے بناتے وقت اِس کے بانیان نے ایک فلاحی ریاست کا خواب لوگوں کو دکھایا تھا) اپنے مقصدِ وجود کو کھو بیٹھا ہے۔

آج اس ملک میں طاقت، اقتدار اور دولت چند مخصوص ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئے ہیں، اور ظلم کی چکی میں پِسنے والی مظلوم عوام اگر اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں تو اُن پر غدار، دین دشمن یا ایجنٹ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔

ایسی ہی ایک آواز سلمان حیدر کی تھی اور حسبِ روایت اب اُس کے لیے بھی دین دشمن اور غدار کے القابات صادر فرمائے جا رہے ہیں۔

سلمان کا اصلی جرم یہ ہے کہ اُس نے جانوروں کی طرح محض اپنی جبلتوں تک محدود رہ کر زندگی گزارنے سے انکار کیا۔ وہ یونیورسٹی کا پروفیسر تھا اور اس کی تنخواہ اس کی ضروریات سے کہیں زیادہ تھی۔

اُس کا جرم یہ تھا کہ اُس نے اپنے نہیں بلکہ دوسروں کے حقوق اور بنیادی ضروریات کے لیے آواز اٹھائی۔ اُس کا جرم یہ تھا کہ وہ انسان تھا، جس نے حیوان بننے سے انکار کیا۔

یہ 2007 کی گرمیوں کے وہ دن تھے جب پرویز مشرف کی طرف سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کیے جانے کے بعد وکلا تحریک اپنے عروج پر تھی۔ شارعِ دستور پر منعقد ہر مظاہرے کی روحِ رواں ہوا کرتا تھا سلمان۔

ایک روز خود پر لاٹھی چارج کرنے والے پولیس کانسٹیبل کی لاٹھی بھی چھِین لایا تھا ساتھ۔ روز صبح اُٹھتا اور آمریت کی سیاہ رات کو ہٹا کر جمہوریت کی صبحِ نو کے سورج کو طلوع کرنے کی جدوجہد میں جُت جاتا۔ اِسی مسلسل جدوجہد کی تھکاوٹ تھی جس نے اُس آزاد منش آدمی کو نرم بستر کو چھوڑ کے فرش پر سونے میں بھی کوئی عار اور تکلیف محسوس نہیں ہونے دی۔

ایسے آزاد منش، محب الوطن، انسان دوست، ایثار اور قربانی کے پیکر شخص کو کوئی ہمارے دلوں سے کیسے نکال سکتا ہے؟

کیا سلمان حیدر کا جرم یہ ہے کہ وہ جاگتی آنکھوں خواب دیکھتا تھا؟ سانس لینے کی آزادی، سوچنے کی آزادی، بات کرنے کی آزادی، فکری گھُٹن سےآزادی، اپنی سوچ کے مطابق جینے کی آزادی کے خواب؟

بہت تکلیف دہ تھا وہ وقت جب اپنے اُس عزیز گمشدہ دوست کی بازیابی کے لیے ہم مظاہرہ کر رہے تھے جو کبھی خود دوسرے گمشدہ افراد کے لیے مظاہرے کیا کرتا تھا۔ آج وہ شخص خود اپنی آزادی کے لیے سراپا منتظر ہے جو کبھی دوسروں کو آزادی کے خواب دِکھانے کی جدوجہد کیا کرتا تھا۔

تبصرے (27) بند ہیں

Sohail Kashif Jan 16, 2017 03:53pm
Dear Mr. Imran Bukhari I respect your views abt ur fellow as ur bonding with him was much stronger and may be u know him better than others but the news circulating in media abt the controversial pages and their admins views are also disturbing for a common man like me. I do agree that freedom of speech is right of every individual but that should not cross a thin line which may lead to any disintegration within the country or any section.
KMARN Jan 16, 2017 04:20pm
Thanks for Your article , You showed different picture to us
shahid Jan 16, 2017 04:40pm
@Sohail Kashif, first study his admin views yourself and think logically then write about him. Do not rely on the others propaganda, please. Agree with Imran Bukhari and much thanks for his facts.
Raja Bilal Jan 16, 2017 04:56pm
Nahi to social media par jo issay badnaam kia hoa hai aisse hi kia hoa hai???
ahmak adamı Jan 16, 2017 05:47pm
If you want to criticise camel owners, you must have an equal strength. If you do not bear an equal strength, then first desrve then desire. Otherwise you will get stroke.
Ahsan Jan 16, 2017 06:21pm
Bro! Could you please justify about the blasphemious material published on the pages run by him? Freedom of speech doesnt mean to hurt other's believes and sentiments. There is no any justification for making fun of islamic believes and prophet and Allah! Their post were an attempt of mocking about islam and you are trying to defend it. How could you do this? Even if his good pious or gentle with you this cant be tolrated. Justice should have prevail he has to be answer this and should be produced to court and executed
Tahir qazi Jan 16, 2017 07:08pm
@Sohail Kashif Dear Sohail Kashif Sb .... I may be wrong but your "Freedom of Speech" views need a tune up, if not a complete overhaul. You used the word "controversial"; its precisely this where you learn the virtue of Freedom of Speech. The freedom of speech principle, in the real world, applies to the very speech that we hate. Hope its instructive and regards. ps: Please contact me in case you need a detailed exposition of the Freedom of Speech concept.
KALIm ULLAh Jan 16, 2017 07:15pm
So inshort if a guy was good to you. Means he is good to other people too. The hostel and helping others isn't the thing only he done. Me and my roommates in 4 years done the same thing. From financial support to even giving blood. This is part of student life. Which would be told by every 3/5 students. So instead of giving him moral certificate. It would be better you condemn his posts too because thats the other dark side of him. Its not about freedom of speech it about law of country he living in. If the law prohibits you to not say anti Islam and anti Pakistan. Then you obey because thats the majority call. If you voilate then you are outlaw criminal and it would be better to discourage their actions. Not issuing good moral certificates to them.
Imran bukhari Jan 16, 2017 08:58pm
@Sohail Kashif Issue at hand is that only one sided malicious campaign is being launched with any evidence for link of Salman haider with any of those pages. If there is any concrete evidence then he should be brought to court along with those evidences. Make anyone disappear is not acceptable in any civilized society
Imran bukhari Jan 16, 2017 09:05pm
@Raja Bilal For Salman I can say yes. For others I don't know
Imran bukhari Jan 16, 2017 09:05pm
@Ahsan Any evidence for the bunch of lies against Salman?
Imran bukhari Jan 16, 2017 09:13pm
@KALIm ULLAh Dear You have raised two different issues. 1. I have tried to communicate to people what kind of person he is because I know him more than those so-called protectors of Islam. It is very unholy and against Islamic values to malign anybody without any evidence. Can you call it evidence that if agencies have abducted him then there must be something fishy in it? We don't know who abducted him but people on social media are floating such assumptions as evidence
Imran bukhari Jan 16, 2017 09:18pm
@KALIm ULLAh 2nd issue is regarding Islamic and Un-Islamic. Who will decide what is Islamic and what is against Islam? Definitely state and the state law. Then let the state decide whether they did something against Islam or not. Bring them to court plz
Imran bukhari Jan 16, 2017 09:29pm
@Sohail Kashif Issue at hand is that only one sided malicious campaign is being launched without any evidence for link of Salman haider with any of those pages. If there is any concrete evidence then he should be brought to court along with those evidences. Make anyone disappear is not acceptable in any civilized society
Israr Muhammad Khan Jan 17, 2017 12:02am
حکومت سے مطالبہ ھے کہ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے اگر ان لوگوں نے کوئی جرم کیا ھے تو ایف ائی کاٹ کر انکو گرفتار کیا جائے اور عدالت کے سامنے پیش کیا جائے بزدلوں کی طرح اٹھانے کی کیا ضرورت ھوتی ھے اگر سلمان حیدر یا دوسرے لاپتہ افراد نے کوئی قانون توڑا ھے تو عدالت میں لایا جائے اگر ریاست کے کسی بالادست ادارے کو انکے حیالات اچھے نہیں لگتے تو نہ لگے اٹھانا لاپتہ کرنا بزدلانہ حرکت ھے اسکے علاوہ میری سوشل میڈیا اور نیشنل میڈیا سے التجا ھے لیکن لاپتہ افراد کے زہریلا اور شرانگیز پروپیگنڈہ بند کردیا جائے اگر اسطرح انکے حلاف پروپیگنڈہ چلتا ریا تو انکے واپس انے کے بعد انکے جینا مشکل ھوجائیگا
Anonymous Jan 17, 2017 01:42am
@Imran bukhari 100% agree with you sir.
RIZ Jan 17, 2017 09:17am
@Israr Muhammad Khan cant agree more,, force disappearance is not acceptable... shame for any society,, no one can win by this, only society at large will lose,,
Laiq Ahmad Jan 17, 2017 09:23am
مکرم و محترم بخاری صاحب خوش رہیں، خوشخبری ملے۔ آپکی تحریر پڑھ کر صرف یہ زبان سے نکلتا ہے اُن لوگوں کے لیے جو بغیر علم اور مکمل واقفیت کے دوسروں پر بہتان لگانا شروع کر دیتے ہیں ، وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ اور ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ (افواہ) سنی تھی تو کہہ دیتے کہ ہمارے لئے زیبا نہیں ہے کہ یہ بات منہ سے نکالیں۔ سبحان اللہ! یہ تو بڑا بہتان ہے۔ اپنے ایک سچے اور وفا دار انسان محسوس ہوے ہیں، آپ نے اس وقت اواز حق بلند کی جب اکژ سچ کو بھی بھی دبا جاتے ہیں، اخر میں ایک مودبانہ گرزارش ہے کہ آپ نے بار ، بار لکھا "کھُلے دل کا انسان تھا" ۔"خوشی قبول اور تسلیم کر لیتا تھا" پلیز اس " تھا" کو " ہے" میں بدلیے۔ اور انشاء اللہ وتعالیٰ وہ ہے اور اللہ اسے لمبی عمر و صحت دے۔ اپکا لکھا پڑھ کر دل خوش ہوا۔ ورنہ ہم نے تو یہ نام بھی چند ہفتے قبل پہلی دفعہ سنا ہے۔ آپکا شکریہ چوہدری لییق احمد سڈنی ۔ آسٹریلیاء
MALEC Jan 17, 2017 09:55am
If social media blasphemous stuff is propaganda than maybe this is also a propaganda that Salaman is picked up by agencies. Why there was no action by government or any other authorities when there were several reporting to PTA about FB pages BHENSA and ROSHNI etc?? The reaction of mob can be controlled by governments only.
Raja Bilal Jan 17, 2017 10:44am
@IMRAN BUKHARI maine kal raat main hi aik clip dekha hai iss ka koi known person bhi yehi keh rha tha k iss aadmi ne BHENSA naami page par kuch ghalat post kiye hain even maine bhi dekha tha ye to as I am also a facebook user!
Sohail Kashif Jan 17, 2017 11:25am
@shahid Like most of us I do rely on media reports which u called propaganda, just try to think that y suddenly all media starts talking abt only four missing bloggers. Media showing lots of things shared on controversial pages which can spark anger within the country. Constructive or positive debat or dilouge should be welcomed but making mockery of Islamic values can be heartbreaking for many. As a Pakistani we all know our nation's tolerance level abt religion. So one must be careful with his words.
Sohail Kashif Jan 17, 2017 11:39am
@Tahir qazi Thanks for the description. Offcourse I am not perfect and always consider myself as student and always ready to learn more. Your description was intresting and I will be oblidged if you elobrate it more for me at [email protected]
Mansoor haider raja Jan 17, 2017 11:38am
Mansour Haidar Raja with Siddiqui Hussaini and 10 others. 56 mins · مذھبی حوالوں سے جو افراد سوشل میڈیا سے منسلک ہیں وہ ‘‘ بھینسا ‘‘ نامی پیج کی گستاخیوں سے یقینا ً واقف ھوں گے ! حال ہی میں لاپتہ ھونے والے دیگر بلاگرز کے بارے میں تو مجھے کچھ علم نہیں مگر سلمان حیدر کے متعلق سوشل میڈیا کے حوالے سے میں جانتا ہوں اور ان کی فیس بک فایل اس چیز کی گواہی دے رہی ہے کہ ان کا نظریاتی اور عملی تعلق ‘‘ اہل تشیع ‘‘ سے ھے اور یہ کہ یہ شیعہ ہیں ۔ اب آپ ذرا اپنے ذہن کے دریچوں میں جھانکیں تو آپ کو کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا کویی بھی شخص چاھے وہ سُنّی ہے وھابی ہے یا شیعہ ھے َ کبھی ملحد ۔ بے دین اور منکر قرآن و رسالت نہیں ملے گا ۔ پروپیگنڈا کی طاقت سے کسی کو انکار نہیں مگر تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل سے مجدد الف ثانی تک بے شمار صلحاۓ اُمت کو اپنے اپنے وقت میں سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ۔ بھینسا نامی پیج کا ایڈمن کون تھا َ اس معمہ کی نکتہ کشایی بھی وقت پر سامنے آ ہی جاۓ گی ، مگر فی الحال اسے سلمان حیدر سمجھنا یا جاننا قرین انصاف نہیں ۔
Sohail Kashif Jan 17, 2017 12:18pm
@Imran bukhari I agree with you for the point that he should be brought to court but as per ur statment "a malicious one sided capaign is being launched" now the question arises y media suddenly starts talking abt only four persons, what makes them starts a "MALICIOUS CAMPAIGN" agaisnt four persons from a population of 20 Cr. people. What those pages where meant to and what was the link of those missing persons with those pages so all these questions need to be answered.
Laiq Ahmad Jan 17, 2017 01:14pm
@Mansoor haider raja bl بلکل درست فرمایا آپ نے ! جب تک درست معلومات اور ثبوت نہ ہوں اس وقت تک کسی پر الزام لگانا بھی بہت بڑا گناہ ہے
عائشہ Jan 17, 2017 02:11pm
پاکستان میں ایک مشکل یہ بھی ہے ۔ کہ اصل سوال کو ہی غائب کردیا جاتاہے ۔ سلمان صاحب یا دیگر افراد مجرم ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے ۔ اصل سوال یہ ہے کہ ایک شہری کو بغیر کسی مقدمہ کے غائب کیوں کیا گیا اور کس نے کیا ۔ اگر ریاست اسلام آباد سے ایک غائب استاد کو تلاش نہیں کرسکتی ۔ تو یہ ایک افسوس ناک عمل ہے ۔
Zackaryaa Mohiuddin Jan 18, 2017 02:12pm
Dear Writer of this piece. I don't know if Salman Haider was the man behind the page "BHENSA" or not but if he was then he never accepted a "DEBATE" on his views which he used to post. I have challenged him several times on his post to discuss without meeting may be at the same post as comments but he always refrained. Is this you call a liberal mind set? that you are not ready to debate or listen?