پشاور: ایک سیکیورٹی تجزیہ کار کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق فاٹا کی ایجنسی شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے آپریشن ضربِ عضب میں 1 ارب 90 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے۔

پشاور یونیورسٹی میں منعقدہ فاٹا میں معاشی ترقی پر ہونے والی دوسری نیشنل کانفرنس کے دوران بات کرتے ہوئے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی استاد ماریہ سیف الدین آفندی کا کہنا تھا کہ پاک فوج دوران آپریشن کئی ٹن بارودی مواد برآمد کرنے میں کامیاب ہوئی۔

ماریہ سیف الدین کے مطابق 1 ارب 90 کروڑ ڈالر خرچ کرکے سیکیورٹی فورسز نے کئی بم بنانے کی فیکٹریوں اور 500 سے زائد دہشت گردوں کا صفایا کیا۔

تجزیہ کار کا مزید کہنا تھا کہ فاٹا میں امن کے قیام کے لیے غیر مقامی اور غیر ملکی افراد کے بجائے مقامی افراد کو شامل کیا جانا چاہیئے۔

واضح رہے کہ پاک فوج کے مطابق جون 2014 میں شروع کیے گئے آپریشن ضرب عضب کے دوران 3 ہزار سے زائد دہشت گردوں کا خاتمہ کیا گیا تھا۔

یونیورسٹی آف پشاور میں سیل آف فاٹا اسٹڈیز کی جانب سے منعقدہ ایونٹ میں وائس چانسلر محمد رسول جان کا کہنا تھا کہ فاٹا ایک قومی مسئلہ ہے اور مقامی آبادی اور قومی مفاد کے لیے اس کا فوری فیصلہ کیا جانا ضروری ہے۔

ماریہ سیف الدین کے مطابق پاکستان میں امن اُسی وقت ممکن ہے جب ہمارے پڑوسی ممالک خصوصاً افغانستان میں امن قائم ہو۔

اس موقع پر سینئر پولیس افسر سید اختر علی شاہ نے فاٹا کی سماجی و معاشی صورتحال پر دہشت گردی کے اثرات کو واضح کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں کو ’کھولنے‘ کے لیے یہ وقت اہم ہے۔

سینئر پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ نائن الیون حملوں کے بعد سے فاٹا میں سیکیورٹی کی صورتحال متاثر ہے، ایک سروے کے مطابق فاٹا کے 60 فیصد لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ علاقہ امریکا کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گرد حملوں سے پہلے پرامن تھا۔

سید اختر علی کا یہ بھی کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد سے یہ علاقہ منشیات کی اسمگلنگ اور غیرقانونی اسلحے کی تجارت کا مرکز بن چکا ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ اس علاقے کے لیے دہری حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے یہاں کے مقامی افراد کو ترقیاتی کاموں میں شامل بھی کیا جاسکے اور مقامی افراد اور صنعتوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جاسکیں۔

پشاور یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے استاد ڈاکٹر نور شاہ جہاں نے پاکستانی خارجہ پالیسی کی روشنی میں فاٹا میں معاشی ترقی پر بات کی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر اور افغانستان کی طرف خارجہ پالیسی کو بہتر بنانے کے لیے مقامی طالبان کو غیر ریاستی اداکاروں کے طور پر استعمال کیا گیا۔

انہوں نے تجویز دی کہ پالیسی تیار کرنے والوں کو فاٹا میں جغرافیائی سیاست کے بجائے جغرافیائی معیشت پر توجہ دینی چاہیئے۔

تقریب کے ایک اور مقرر نعیم طاہر کا کہنا تھا کہ پاک فوج کو قبائلی علاقوں میں انفراسٹرکچر کی تعمیر نو اور بحالی کا کام سرانجام دینا چاہیئے۔

تجزیہ کار نعیم طاہر کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج اس علاقے میں موجود ہے اور یہاں پر جی ڈی پی اور معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ دیگر چیزوں پر بھی توجہ دی جانی ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقوں اور فاٹا کو یکجا کیا جانا فاٹا کے لوگوں اور پاکستان میں اتحاد قائم کرنے کے لیے اچھا اقدام ہوگا۔

شعبہ صحافت و ابلاغ عامہ کے چیئرمین ڈاکٹر الطاف اللہ خان نے اپنی تقریر میں فاٹا میں شخصی تصویر پیش کرنے میں میڈیا کے کردار پر بات کی۔

ڈاکٹر الطاف کے مطابق اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ فاٹا کے لوگوں کو میڈیا مسائل کا شکار ہونے کے حوالے میں پیش نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں علاقے سے سنسی خیز شہ سرخیوں کی صورت میں میڈیا پر سامنے لایا جاتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میڈیا لوگوں تک فاٹا کی مناسب کوریج فراہم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے اور جب تک صحافت میں اس بات کو واضح نہیں کیا جاتا کہ اس علاقے میں درحقیقت کیا ہورہا ہے تب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

انہوں نے فاٹا کی تفصیلات اور مسائل کے حل کو سامنے لانے کے لیے صحافیوں کی تعداد میں اضافے کی بھی تجویز دی۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا فاٹا کو ایک باہری مقام کے بجائے ملک کے ایک حصے کے طور پر دکھائے۔

غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ میں شعبہ مینیجمنٹ سائنسز کے چیئرمین ڈاکٹر صابر آفریدی، سینئر ریسرچ اکنامسٹ ڈاکٹر محمد ناصر اور سابق چیف سیکریٹری خالد عزیز نے بھی تقریب سے خطاب کیا۔


یہ خبر 18 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (1) بند ہیں

RIZ Jan 18, 2017 05:56pm
nice to see universities are conducting seminars on such issues.. our universities must take lead and give academic studies to politicians and decision makers,,, these will eventually turn them as small think tanks,,, this is what we need,, our problems are indigenous so do we need indigenous solutions.