نئی دہلی: بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے اپنی تقریر میں پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) نام لیے بغیر اسے بھارت کی علاقائی خودمختاری کی 'خلاف ورزی' قرار دینے پر چین نے منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے اسے علاقائی امن اور ترقی کا منصوبہ قرار دے دیا۔

نئی دہلی میں رئیسینا ڈائیلاگ ( Raisina Dialogue) کی افتتاحی تقریب کے دوران گفتگو کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’خودمختاری کی تعظیم علاقائی تعلقات کے لیے نہایت ضروری ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ دو اہم پڑوسی ممالک (جیسے چین اور بھارت) میں تضادات ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں، ’تعلقات کو برقرار رکھنے، خطے میں امن اور خوشحالی کے لیے دونوں ممالک کو حساسیت اور ایک دوسرے کے مفاد و ترجیحات کو اہمیت دینا ضروری ہے‘۔

دوسری جانب چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چونینگ سے جب نریندر مودی کے ان خیالات سے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’سی پیک مختلف شعبوں میں ترقی اور تعاون کا ایک طویل المعیاد منصوبہ ہے اور اس کا مقصد علاقائی امن اور ترقی کو فروغ دینا ہے‘۔

بھارتی اخبار ’انڈیا ٹوڈے‘ نے چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان کے اس بیان کو ان الفاظ میں نقل کیا کہ ’سی پیک کسی تیسرے ملک کو نشانہ نہیں بناتا اور اس سے چین کی کشمیر کے معاملے پر پوزیشن متاثر نہیں ہو گی‘۔

تاہم چینی وزارتِ خارجہ کے اس مبہم بیان پر بھارتی سیکریٹری خارجہ ایس جے شنکر چپ نہ رہ سکے اور اگلے ہی روز اس منصوبے کو زیر بحث لاتے ہوئے اس بات کا دعویٰ کیا کہ سی پیک منصوبہ بھارتی علاقے سے گزرتا ہے۔

جے شنکر کا دعویٰ تھا کہ ’سی پیک اُس علاقے سے گزرتا ہے جسے ہم اپنے علاقے کے طور پر دیکھتے ہیں، لوگ بھارتی ردعمل کو ضرور سمجھیں گے اور اس بات پر غور کیے جانے کی ضرورت ہے، مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اس کے آثار پہلے محسوس نہیں کیے‘۔

واضح رہے کہ چین اور پاکستان سی پیک کے ترقیاتی کاموں کو تیز کرچکے ہیں، اس منصوبے کا ایک بڑا حصہ آزاد کشمیر سے بھی گزرتا ہے جس پر بھارت اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔

سی پیک منصوبے کی تکمیل کے بعد چین کو خلیجی ممالک تک کا آسان راستہ حاصل ہوجائے گا، رپورٹس کے مطابق سی پیک کے انٹری پوائنٹ قرار دیئے جانے والے بلوچستان کے گوادر پورٹ پر پاک چین نیول تعاون کے قیام کے بعد انڈیا کی تشویش میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

بھارتی سیکریٹری خارجہ ایس جے شنکر کا خیال ہے کہ ’چین کے ساتھ تمام تعلقات میں وسعت، بالخصوص کاروبار اور لوگوں میں تعلقات، چند سیاسی معاملات میں تضادات کے زیراثر آگئے ہیں تاہم دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ باہمی روابط کی حکمت عملی کو نظرانداز نہ کریں'۔

رپورٹس کے مطابق جے شنکر کا سیاسی معاملات اور سی پیک سے متعلق بیان چین اور بھارت دونوں کے لیے خاصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ گزشتہ کئی ماہ سے دونوں ممالک تضادات سے نمٹ رہے ہیں، جبکہ بھارت چین کی جانب سے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) میں اس کی رکنیت کی راہ میں حائل اقدامات سے نالاں ہے۔


یہ خبر 19 جنوری 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں