کراچی/ راولپنڈی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سیاست دانوں کے نام پر نجی بینک میں ہونے والی کروڑوں روپے کی منتقلی کے حوالے سے دستاویزات کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حقیقت میں اس قسم کی کوئی منتقلی نہیں ہوئی۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق، سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سمیت دیگر نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے نام پر جعلی بینک اکاؤنٹس کھلوائے گئے ہیں اور ان کے ذریعے کروڑوں روپے رقم کی منتقلی بھی کی گئی جبکہ اس حوالے سے انھیں بینک کی ٹی ڈی آر رپورٹ بھی بھجوائی گئی ہے۔

ان کے علاوہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمٰن بھی ان سیاست دانوں میں شامل ہیں جن کے نام پر جعلی بینک اکاؤنٹس کھلوا کر ان میں رقم کی منتقلی کے حوالے سے جعلی ٹی ڈی آر رپورٹ بھجوائیں گئیں تھیں۔

مذکورہ بینک اکاؤنٹس اور ان میں ہونے والی پُراسرار منتقلیوں کے حوالے سے اسٹیٹ بینک نے جمعرات کو اپنی ایک ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے بھیجی گئی شکایت کی بنیاد پر مرکزی بینک نے مذکورہ اکاؤنٹس اور ان منتقلیوں کی جانچ پڑتال کی ہے۔

مرکزی بینک نے ایک جاری بیان میں کہا کہ 'ابتدائی نتائج میں انکشاف ہوا ہے کہ ایس ایم ای بینک کی جانب سے اس قسم کی کوئی ٹی ڈی آر جاری نہیں کی گئی اور نہ ہی ان پارلیمانی رہنماؤں کے مذکورہ بینک میں اکاؤنٹس ہی موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: پارلیمانی رہنماؤں کے نام پر جعلی بینک اکاؤنٹس کی موجودگی؟

اسٹیٹ بینک کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ واضح کیا گیا ہے کہ بینک ان صارفین کو ٹی ڈی آر رپورٹ جاری کرتا ہے جن کے پہلے سے بینک میں اکاؤنٹ موجود ہوں'۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ 'ظاہر ہوتا ہے کہ پارلیمانی رہنماؤں کو بھیجی جانے والی ٹی ڈی آر رپورٹس ایس ایم ای بینک سے چوری کی جانے والی رسیدوں کے استعمال کے ذریعے بنائی گئی ہیں، جس کا مقصد پارلیمانی رہنماؤں کو بدنام کرنا تھا'۔

مرکزی بینک کا مزید کہنا تھا کہ 'ایس ایم ای بینک نے متعلقہ معاملے کی تحقیقات کے لیے خود سے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد کیلئے رابطہ بھی کیا ہے۔

ایف آئی اے نے تحقیقات کا آغاز کردیا

دریں اثنا وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کی شکایت پر تحقیقات کا آغاز کیا، انھیں بھی ایس ایم ای بینک سے کراچی کی رہائش گاہ پر ایک رسید موصول ہوئی تھی جس کے مطابق ان کے اکاؤنٹ میں 10 کروڑ روپے منتقل ہوئے ہیں۔

ایف آئی اے کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق ان کے محکمے نے اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں تحقیقات کا آغاز کردیا ہے، جیسا کہ ان تین شہروں میں پارلیمانی رہنماؤں کو بینک کی جعلی رسیدیں موصول ہوئیں تھیں۔

عہدیدار نے بتایا کہ ایف آئی اے ان معلومات کے حصول کی کوششیں کررہا ہے کہ یہ اکاؤنٹس کہا بنائے گئے ہیں جبکہ رسیدوں پر موجود انگلیوں کے نشان کی جانچ کا کام بھی جاری ہے۔

اس کے علاوہ اکاؤنٹ فارم پر موجود انگوٹھے کے نشان اور دستخط کی جانچ کا کام بھی کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بائیومیٹرک تصدیق کے نظام کی موجودگی میں یہ کسی بھی شخص کیلئے انتہائی مشکل ہے کہ وہ جعلی بینک اکاؤنٹ کھلوائے، اس نظام کے تحت بینک کسی کا بھی اکاؤنٹ کھولنے سے قبل کمپیوٹرائز قومی شناختی کارڈ اور دیگر معلومات کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر ایس ایم ای بینک میں اکاؤنٹ کھولنے کے طریقہ کار کی بھی جانچ کریں گے اور بینک کے منیجر اور متعلقہ اسٹاف سے سوالات بھی کیے جائیں گے۔

انھوں نے بتایا کہ ایف آئی اے کو ان پارلیمانی رہنماؤں سے تفتیش کی ضرورت نہیں ہے جنھوں نے شکایت درج کرائی ہے،'اگر ماضی میں کبھی ان میں سے کسی نے مذکورہ بینک اکاؤنٹس میں رقم منتقل کی ہوگی تو ان سے تحقیقات کی جائیں گی'۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ اگر اکاؤنٹ جعلی قرار پائے تو ان میں موجود رقم قومی خزانے میں منتقل کردی جائےگی۔

یہ رپورٹ 20 جنوری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں