اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزارتِ داخلہ کو سانحہ کوئٹہ پر قائم کمیشن کی رپورٹ پر اپنے اعتراضات جمع کرانے کی اجازت دے دی۔

تاہم عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا گیا کہ وزارت کی نمائندگی علیحدہ کیوں کی جارہی ہے جبکہ یہ بھی وفاقی حکومت کا ہی ایک حصہ ہے۔

دوسری جانب بلوچستان حکومت نے بھی رپورٹ میں سامنے آنے والی کچھ معلومات پر اپنی تشویش کا اظہار کردیا ہے، تاہم عدالت کو اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے انکوائری کمیشن کی دی گئی تمام تجاویز پر عمل کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ 8 اگست کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے خودکش حملے کے نتیجے میں 74 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر وکلاء شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ پر چوہدری نثار کا رد عمل

جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے کوئٹہ کمیشن رپورٹ کی رپورٹ پر غور کیا جس میں 21 اکتوبر 2016 کو وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی 3 کالعدم تنظیموں کے سربراہ (سپاہ صحابہ پاکستان، ملتِ اسلامیہ اور اہل سنت والجماعت) مولانا محمد احمد لدھیانوی سے ملاقات اور ان کے مطالبات سننے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

یہ ملاقات اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع پنجاب ہاؤس میں کی گئی تھی۔

تحقیقاتی رپورٹ میں وزارت داخلہ کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ سانحہ کوئٹہ پر وفاقی و صوبائی وزراء داخلہ نے غلط بیانی کی، انسدادِ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کا اطلاق عوامی عہدیداران پر بھی ہوتا ہے اور انہیں کالعدم تنظیموں کے سربراہان سے اس طرح ملاقات نہیں کرنی چاہیئے۔

مزید پڑھیں: ’چوہدری نثار کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ چیلنج کرنے کیلئے تیار‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کو قومی سطح پر فعال بنانے کی ضرورت ہے اور حکومتی ملازمین کو بھی اس کی پاسداری کرنی چاہیئے، ورنہ انھیں نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل محمد وقار رانا نے عدالت کو بتایا کہ انہیں وفاقی حکومت سے ہدایت حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وزارتِ داخلہ کمیشن کی رپورٹ پر اپنے اعتراضات وکیل مخدوم علی خان کے ذریعے پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

تاہم عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وزارت داخلہ وفاقی حکومت کے وکیل اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے بجائے علیحدہ وکیل کی نمائندگی کیوں حاصل کررہی ہے۔

مزید پڑھیں: سانحہ کوئٹہ: 'وفاقی و صوبائی وزراء داخلہ نے غلط بیانی کی‘

دوسری جانب عدالت نے اٹارنی جنرل سے مطالبہ کیا کہ وہ 6 فروری تک کمیشن کی تجاویز پر عملدرآمد سے متعلق حکومتی ارادوں سے عدالت کو آگاہ کرے۔

بلوچستان کے انسپیکٹر جنرل احسن محبوب نے کمیشن کی جانب سے 8 گھنٹے کی کارروائی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی لیپس کی صورت میں صرف بلوچستان سے ہی سوال کیوں کیا جاتا ہے اور ملک کے دیگر صوبوں سے کیوں نہیں؟

احسن محبوب کا کہنا تھا کہ اگر ہم کوئٹہ کی اہم ترین رگ سریاب روڈ پر مکمل کرفیو لگادیں تب بھی ہم دہشت گردی پر مکمل قابو نہیں پاسکتے یہاں تک کہ صوبے بھر میں جاری صورتحال سے سیاسی طور پر نہیں نمٹا جاتا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان کی پولیس پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے جڑی سڑکوں کی سیکیورٹی پر مامور ہونے کے باعث کام کی زیادتی کا شکار ہے۔

انسپیکٹر جنرل بلوچستان کا عدالت کو یہ بھی بتانا تھا کہ اعلیٰ پولیس اہلکار، جن میں ایس ایس پی، ڈی ایس پی اور اے ایس پی شامل ہیں، 25 اکتوبر 2016 کو پولیس ٹریننگ سینٹر کوئٹہ میں ہونے والے حملے میں غفلت برتنے پر معطل ہیں جبکہ ان افراد کو عہدوں سے ہٹانے کے لیے وفاقی حکومت کو تجویز ارسال کی جاچکی ہے۔

دوسری جانب بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، جس کی نمائندگی حامد خان کررہے ہیں، کی جانب سے آئی جی بلوچستان کے بیان پر تضاد کا مظاہرہ کیا گیا، ایسوسی ایشن کے مطابق وہ کوئٹہ سانحے پر قائم کمیشن کی کارروائی کے گواہ ہیں اور دوران کارروائی آئی جی کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کا مکمل موقع فراہم کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ کوئٹہ کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن قائم

بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل خواجہ حارث کا عدالت کو بتانا تھا کہ صوبائی حکومت کو کمیشن کی رپورٹ کی کچھ معلومات پر اعتراض ہے کیونکہ اس رپورٹ کے کچھ پہلو صوبائی حکومت کو سیاسی طور پر مجروح کرتے ہیں۔

اس موقع پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے تاسف کا اظہار کیا کہ صوبائی حکومت اس معاملے کو سیاسی معاملے کے طور پر دیکھتی ہے۔

عدالت کے مطابق، وفاقی حکومت کو اس اہم معاملے کو سیاسی رنگ دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر رشید رضوی نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ کمیشن کی تجاوزات کو عدالتی حکم میں تبدیل کریں تاکہ اس پر عملدرآمد کیا جاسکے۔


یہ خبر 20 جنوری 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں