کراچی: یونیورسٹی روڈ پر بس سے گر کر شدید زخمی ہونے والی طالبہ ہنزہ نو دن زیر علاج رہنے کے بعد دم توڑ گئی۔

نارتھ کراچی کی رہائشی اور وفاقی اردو یونیورسٹی کی طالبہ ہنزہ 9 روز سے لیاقت نیشنل ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر زندگی اور موت کی جنگ لڑنے میں مصروف تھی۔

دوسری جانب ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے علاقے پٹیل پاڑہ کی سڑک پر موجود گڑھوں کی وجہ سے تیز رفتار بس پر لٹکتا طالب علم توازن برقرار نہ رکھ سکا اور بس سے گر پڑا جبکہ بس کے پچھلے ٹائر کی زد میں آ کر موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا۔

حادثے کے بعد ڈرائیور فرار ہوگیا جبکہ پولیس نے کنڈیکٹر کو گرفتار کر کے بس کو تھانے منتقل کردیا۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز بھی کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں تیز رفتار بس ڈرائیور سے بے قابو ہوکر بیت المکرم مسجد کے قریب بس اسٹاپ پر کھڑے لوگوں پر چڑھ گئی تھی جس کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک اور 11 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: کراچی:مسافر بس الٹنے سے 4 افراد جاں بحق

ہلاک ہونے والی 3 خواتین میں سے دو وفاقی اردو یونیورسٹی کی طالبات تھیں، جاں بحق ہونے والی خواتین کی شناخت رابعہ حسین، کرن ظفر اور آمنہ بتول کے نام سے ہوئی تھی۔

جاں بحق طالبہ کرن ظفر کی نماز جنازہ بھی محمود آباد میں ادا کردی گئی۔

واضح رہے کہ یونیورسٹی روڈ پر ترقیاتی کام جاری ہے جس کی وجہ سے اس مصروف ترین شاہراہ پر ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے۔

وزیر ٹرانسپورٹ سندھ کے مطابق دو سے تین ماہ میں شہر بھر میں نئی بسیں چلنا شروع ہو جائیں گی۔

ڈان نیوز سے گفتگو میں وزیر ٹرانسپورٹ سندھ ناصر حسین شاہ نے بہتر ٹرانسپورٹ سروس فراہم نہ کرنے پر حکومتی کوتاہی کا اعتراف بھی کیا۔

وزیر ٹرانسپورٹ کا امداد کا اعلان

جامعہ اردو کے طلبہ و طالبات نے کراچی میں حادثات کے دوران ہلاک ہونے والے اپنے ساتھیوں کی جانوں کے ضیاع پراحتجاج کیا۔

مظاہرہ کرنے والے طالب علموں نے گذشتہ روز ٹریفک حادثے میں ہلاک ہونے والے طلبہ کی نماز جنازہ سڑک پر صفیں بنا کر ادا کی۔

یونیورسٹی روڈ پر جاری اس احتجاج کو رکوانے کے لیے ڈپٹی میئر کراچی ارشد وہرہ اور وزیر ٹرانسپورٹ سندھ ناصر حسین شاہ طلبہ سے مذاکرات کے لیے جامعہ اردو پہنچے۔

اس موقع پر وزیرٹرانسپورٹ سندھ ناصر حسین شاہ نے جاں بحق طلبہ کے لواحقین کے لیے فی کس پانچ لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا جبکہ احتجاج کرنے والے طلبہ کے تمام مطالبات پورے کرنے کا وعدہ کیا۔

واضح رہے کہ کراچی میں ٹریفک حادثات کے حوالے سے گزشتہ برس ایک رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جس کے مطابق 2016 کے ابتدائی 4 مہینوں میں جنوری سے اپریل کے دوران ہر2 دن میں 5 جان لیوا حادثات ہوتے رہے۔

اس رپورٹ کو پیش کرتے ہوئے ڈی آئی جی ٹریفک ڈاکٹر عام شیخ نے بتایا تھا کہ کراچی میں ہر سال 30 ہزار حادثات رپورٹ ہوتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 90 فیصد حادثات میں ہلاکتیں ہوتی ہیں جبکہ قصورواروں کو کوئی سزا نہیں مل پاتی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کا قاتل ٹریفک جام

انہوں نے تیز رفتاری کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ انتباہ جاری کرنے کے باوجود لوگ تیز رفتاری بہت پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔

ڈی آئی جی نے ان حادثات کے 3 بڑے عوامل بتائے تھے جن میں ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر ناتجربہ کار ڈرائیورز کا گا ڑیاں چلانا، تیز رفتاری اور بغیر اشارہ دیئے اوورٹیکنگ کرنا شامل ہیں۔

خیال رہے کہ شہر میں کئی مقامات پر مرکز شاہراہوں کو ایک ساتھ ہی دوبارہ سے تعمیر کرنا شروع کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے حادثات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جبکہ شہر کے کئی علاقوں میں سڑکیں انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں۔

دوسری جانباعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کے 60 فیصد ڈرائیورز کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہے، اسی وجہ سے ٹریفک کے کنٹرول کے ساتھ ساتھ 'لاپرواہ ڈرائیورز' کو قابو کرنے میں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔

ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ شاہراہوں پر قائم مختلف چوراہوں پر 38 لاکھ گاڑیوں کی نقل و حرکت کو سنبھالنے کے لیے صرف 3 ہزار 200 ٹریفک پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی ٹرانسپورٹ میں یومیہ 908 گاڑیوں کا اضافہ ہوتا ہے۔

شہر میں اوسطاً ایک ٹریفک پولیس اہلکار کو 1031 گاڑیوں کو سنبھالنا ہوتا ہے، جن میں سے 54.87 فیصد موٹر سائیکلیں ، گاڑیاں 32.6 فیصد اور رکشہ 5.5 فیصد ہوتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں