واشنگٹن: کانگریس کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی ایک سماعت کے دوران امریکی قانون سازوں اور امریکی جرنیلوں نے اشارہ دیا ہے کہ امریکا پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے اور ان تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے واشنگٹن، اسلام آباد کو افغانستان سے متعلق اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے کی جانب راغب کرے گا۔

اگرچہ اس سماعت میں افغانستان پر توجہ مرکوز رکھی گئی، مگر اس طویل میٹنگ کے دوران پاکستان کا ذکر 73 مرتبہ کیا گیا، جب کہ افغان تنازع میں پاکستان کے بالواسطہ کردار پر درجنوں حوالے بھی دیئے گئے۔

سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان مکین نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے اپنے ابتدائی بیان میں کہا کہ افغانستان میں کامیابی کے لیے امریکا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کا شفاف جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

سماعت کے واحد گواہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے سربراہ جنرل جان نکولسن نے افغانستان میں استحکام لانے اور انتہاپسندی کو شکست دینے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی وکالت کی۔

بار بار پاکستانی امداد میں کمی سے متعلق پوچھے جانے پر انہوں نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا کہ امداد کی کمی پاکستان کو تعاون پر مجبور کرے گی، اس کے بجائے انہوں نے اسلام آباد سے سفارتی تعلقات پر زور دیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور امریکا کا خطے میں قیام امن کے عزم کا اعادہ

سینیٹر مک کین نے اس معاملے پر امریکی مشکلات پر زور دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں پاکستانیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا، لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’یہ بھی حقیقت ہے کہ اب بھی پاکستان سے دہشت گرد گروپ پڑوسی ممالک پرحملہ کرتے ہیں اور امریکی فورسز کو قتل کر رہے ہیں‘۔

گزشتہ برس شمالی وزیرستان کا دورہ کرنے والے سینیٹر مک کین نے علاقے میں کامیاب فوجی آپریشن کی تعریف بھی کی، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں امریکی فوج کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ’ سادہ الفاظ میں اصل بات یہ کہ افغانستان میں ہمارامشن حیران کن طور پر مشکل ہے، جبکہ ہمارے دشمنوں نے پاکستان میں موجود محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں، جن کا خاتمہ ضروری ہے‘۔

مزید پڑھیں: پاک امریکا تعلقات چیلنجز سے بھرپور

سینیٹر مک کین نے نئی امریکی انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ کانگریس کے ساتھ مل کر اس بات کا تعین کرے کہ ایسے کون سے اضافی اقدامات اٹھائے جائیں جن سے افغانستان جنگ میں ہمارے دشمن پاکستان یا کسی اور ملک میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل نہ کر پائیں۔

کمیٹی کے ڈیموکریٹک ممبر سینیٹر جیک ریڈ نے اس بات پر اصرار کیا کہ پاکستان مبینہ طور پر افغانستان میں انتہا پسند گروپوں کی مدد کر رہا ہے، ان کا کہنا تھا، ’ہمیں اپنی کامیابی اور افغانستان میں بہتر سیکیورٹی کے لیے ایسے اقدامات کو ختم کرنا پڑے گا'۔

انہوں نے ایک اور مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے جب وفاق کے زیر انتظام علاقے فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کیا تو وہاں سے دہشت گرد فرار ہوکر افغانستان آگئے، جن کا سامنا اب امریکی فوج کر رہی ہے۔

سینیٹر مک کین نے سوال کیا کہ ’ہمیں پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے حوالے سے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے’؟۔

سوال کا جواب دیتے ہوئے جنرل نکولسن نے سینیٹر مک کین کو ’سر‘ کہتے ہوئے بتایا کہ’ ایسی صورت حال کے دوران میدان جنگ میں کامیابی حاصل کرنا نا ممکن ہوتا ہے، جب آپ کے دشمنوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہوں اور انہیں بیرونی امداد حاصل ہو‘۔

انہوں نے کہا ان کے خیال میں ’ہمیں پاکستان کے ساتھ مسلسل کام کرتے رہنے کی ضرورت ہے‘۔

سینیٹر نے ایک اور سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ’ پاکستان نے شمالی وزیرستان میں کچھ اچھے کام کیے ہیں، کیا میں نے صحیح کہا؟۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا پاکستان سے پھر 'ڈو مور' کا مطالبہ

جنرل نکولسن نے جواب دیا، ’انہوں نے اچھے کام کیے ہیں اور ہم وزیرستان میں کیے گئے آپریشن کو بہت احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں‘۔

انہوں نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت بڑا اور مشکل آپریشن تھا، جس میں پاکستان کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا‘۔

سینیٹر مک کین نے مزید سوال کیا کہ’ مگر مسئلہ حقانی نیٹ ورک کا ہے، خصوصی طور پر کوئٹہ میں موجود ان کے مقامات، کیا میں درست کہہ رہا ہوں‘؟

جنرل نکولسن نے جواب دیا ’ سر یہ درست ہے، اب بھی کوئٹہ جیسے مقامات پر دشمنوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں، جس علاقے کا ذکر آپ نے کیا وہاں طالبان کی قیادت جب کہ قبائلی علاقے حقانی نیٹ ورک کی قیادت کے لیے محفوظ ہیں‘۔

سینیٹر جیک ریڈ نے سوال کیا کہ ’ کیا آپ نے پاکستان کے نئے فوجی سربراہ سے کچھ معاملات طے کیے ہیں‘، اگر آپ نے وہاں کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کے ساتھ کوئی ڈیل کی ہے تو مجھے اس کا علم نہیں، لیکن ایسی کوششیں پاکستان کے اندر موجود ذیلی عناصر کو محدود کرنے کے ہمارے اقدامات کو ظاہر کرتی ہیں‘؟۔

جیک ریڈ کا جواب دیتے ہوئے جنرل نکولسن کا کہنا تھا کہ’ وہ پاکستانی فوج اور اس کی قیادت کی بہت عزت کرتے ہیں، وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کی ٹیم سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ وہ اس میں کامیابی حاصل کریں گے، ہمیں فاٹا میں کی گئی پاک فوج کی کارروائیوں کا احترام ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ’ دہشت گردی کی لعنت سے پاکستانی عوام کو بھی نقصان اٹھانا پڑا ہے اور ہم خلوص کے ساتھ ان عناصر کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو پاکستانی معاشرے پر حملہ کرتے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان پر پابندیوں کی تجویز زیرِ غور نہیں، امریکا

پاکستان پر دہشت گروں کے خلاف دباؤ بڑھانے پر زور

اجلاس کے دوران جنرل نکولسن نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ کس طرح امریکی فوج نے دہشت گردوں کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان کی مدد کی۔

انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں امریکی انسداد دہشت گردی فورس نے پشاور آمی پبلک اسکول( اے پی ایس) پر ہولناک حملے کی تیاریوں میں ملوث طارق غدر گروپ کے عمر خلیفہ کو ہلاک کیا،اس حملے میں 130 بچے ہلاک ہوئے تھے۔

ان کے مطابق گزشتہ برس مشرقی افغانستان میں کارروائی کرکے پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدرگیلانی کو بھی بازیاب کرایا گیا۔

جنرل جوہن نکولسن نے پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کی بہتری پر زور دیتے تجویز پیش کی کہ حقانی گروپ اور طالبان پر پاکستانی سرحد کی جانب سے دباؤ بڑھایا جائے۔

آزاد قانونسازسینیٹر اینگس کنگ نے جنرل نکولسن سے سوال کیا کہ’اگر پاکستان کی امداد میں کٹوتی کی جائے تو ہم پاکستان کو فاٹا میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کے لیے قائل کر سکیں گے‘؟َ

جنرل نکولسن نے سینیٹر کے جواب میں تجویز پیش کی کہ دونوں ممالک کے تعلقات کا جامع جائزہ لیتے ہوئے، پاکستانی سربراہوں کے ساتھ مل کر دوبارہ پالیسی مرتب کی جائے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کو امریکی سیکیورٹی امداد میں 73 فیصد کمی

انہوں نے کہا کہ ایسے بہت سے معاملات ہیں، جن میں ہم اپنے مشترکہ مفادات کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں،اور ان کے خیال میں یہی مستقبل کی کامیابی ہوگی۔

انہوں نے کمیٹی کو آگا ہ کیا کہ وہ اس حوالے سے ذاتی طور پر کام کر رہے ہیں،وہ اپنے پاکستانی ہم منصب سے رابطے میں ہیں،اوراس حوالے سے ان کی اپنی اعلیٰ قیادت سے بھی ابتدائی بات چیت ہوچکی ہے،اور یہ ہم سب کے لیے نہایت ہی اہم ہے۔

جنرل نکولسن سے امید ظاہر کی کے نئی امریکی انتظامیہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کا دوبارہ جامع جائزہ لے گی۔

ریپلکن سینیٹر ڈیوڈ پروڈو نے جب امریکی امداد کو پاکستان کے لیے استعمال کرنے کی تجویز پیش کی تو جنرل نکولسن کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک گروپ اور طالبان سمیت دیگر گروپوں کے ٹھکانے ختم کرنے اور انہیں محدود کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈیموکریٹک سینیٹررچرڈ بلومینتھل نے سوال کیا کہ’ہمیں پاکستان کی جانب سے کس طرح کے تعاون کی ضرورت ہے‘؟َ،جس کے جواب میں جنرل نکولسن نے کہا کہ’ہمیں زیادہ سے زیادہ مدد کی ضرورت ہے‘۔

سینیٹر نے پھر سوال کرتے ہوئے ہوچھا کہ’خصوصی طور پر ہمیں کہاں مدد کی ضرورت ہے‘؟َ

جنرل نکولسن نے جواب دیتے ہوئے کہا’خصوصی طور پر پاکستان میں حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی کے حوالے سے ہمیں مدد کی ضرورت ہے‘۔

محفوظ ٹھکانوں والے علاقوں کے نام پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں جنرل نکولسن نے’فاٹا سمیت وزیرستان اور کوئٹہ کے گرد و نواح کے علاقوں کے نام بتائے۔

افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ ان علاقوں میں موجود ہیں اور یہ علاقے سالوں سے امریکی فوج کے لیے مشکل بنے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی سینیٹ کی پاکستانی امداد پر پابندیاں عائد

سینیٹر نے رچرڈ بلومینتھل نے مزید پوچھا کہ’کیا ہماری جانب سے پاکستانی حکومت پر مزید جارحانہ اور متواتر اقدامات اٹھانے کا دباؤ صحیح رہے گا‘؟۔ جس پر جنرل نکولسن نے ایک بار پھر وہی جامع جائزہ لینے والی بات دہراتے ہوئے کہا کہ کئی ایسے معاملات ہیں جہاں ہم مشترکہ طور اپنے اپنے مفادات کے تحت کام کر سکتے ہیں۔

جنرل نکولسن کا سینیٹر کو مزید کہنا تھا کہ’آپ صحیح کہہ رہے ہیں کہ مشکلات موجود ہیں، مگر ہم ان علاقوں میں کامیابی چاہتے ہیں‘۔

جنرل نکولسن نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ ہمیں طالبان پر فوجی دباؤ برقرار رکھنے سمیت پاکستان کو اپنی سرحد کی جانب سے دباؤ بڑھانے کے لیے سفارتی ذرائع کے ذریعے قائل کرنا ہوگا۔

انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یقینا اس میں کچھ سال لگیں گے، لیکن اس کے بعد ایک مفاہمتی ماحول بن جائے گا۔


یہ خبر 11 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں