کراچی: پاناما پیپرز میں پاکستانیوں کی آف شور کمپنیوں کے انکشاف نے جہاں پاکستان میں ٹیکس کے مروجہ نظام پر سوال اٹھادیئے وہیں دوسری جانب پیشے کے لحاظ سے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور 2013 میں سندھ کے قائم مقام وزیر رہنے والے محمد شبر زیدی نے حبیب یونیورسٹی میں اپنے لیکچر کے دوران پاناما لیکس کی صورت میں سامنے آنے والے فوائد پر روشنی ڈالی۔

'پاناما لیکس، ایک درپردہ نعمت' کے نام سے ہونے والے مباحثے میں محمد شبر زیدی کی کتاب میں شامل اسباق پر بات چیت کی گئی، خیال رہے کہ ان کی اس کتاب میں بھی اس معاملے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کہ کیسے پاناما لیکس کے معاملے کو ہمیشہ منفی انداز میں پیش کیا جاتا رہا اور اس کے خفیہ فوائد کو یکسر نظرانداز کیا گیا۔

کراچی کی نجی جامعہ میں ہونے والی اس گفتگو کا مرکزی موضوع مقرر کا یہ بیان تھا کہ آف شور اثاثے رکھنا کوئی جرم نہیں اور یہ کہ کس طرح قواعد و ضوابط اور ٹیکس قوانین آف شور ملکیت رکھنے والے فریقین کو فوائد فراہم کررہے ہیں جس میں ریاستی اور جائیدادوں کے مالک بھی شامل ہیں۔

مباحثے کے دوران اس بات کا اظہار کیا گیا کہ تمام ٹیکس ادا کرنے والے پاکستانیوں کو دنیا بھر میں موجود اپنے اثاثوں کی معلومات منظرعام پر لانی چاہئیں، چاہے وہ ماضی میں ان اثاثوں سے متعلق بتا چکے ہوں یا نہیں، علاوہ ازیں اس حوالے سے اثاثوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جانا چاہیئے، یعنی وہ اثاثے جو گذشتہ 5 سال میں بنائے گئے اور وہ اثاثے جو 5 سال سے قبل بنائے گئے۔

محمد شبر زیدی کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ 5 سال سے قبل بنائے جانے والے اثاثہ جات پر ٹیکس عائد نہیں ہوتا جبکہ 5 سال کے دوران حاصل کیے گئے اثاثے اگر اُس آمدن سے بنائے گئے ہیں جس پر پاکستان میں ٹیکس عائد ہوتا ہے تو ایسے اثاثہ جات کو مستند سمجھا جائے گا جبکہ اس اثاثے کی موجودہ مالیت کا 10 فیصد 30 جون 2017 سے قبل ادا کردیا گیا ہو۔

ساتھ ہی انہوں نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ 111 کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ بیرون ملک موجود اثاثہ جات پر اس دفعہ کا اطلاق نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ان اثاثہ جات کو واپس پاکستان لانے کی کوئی ضرورت ہے۔

شبر زیدی کے مطابق پاکستانی شہریوں کو بیرون ملک اثاثے رکھنے کا حق حاصل ہے اگر وہ درآمدی کمیشن، برآمدی کمیشن، بیرون ملک کمائی گئی آمدن اور پاکستان سے منتقل شدہ فنڈز کے ذریعے اکھٹا کیے گئے ہوں۔

پاناما لیکس کو ایک 'نعمت' قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چونکہ اس کے ذریعے تمام اثاثے سامنے آچکے ہیں لہذا پاکستان اب اس بات سے واقف ہوچکا ہے کہ اس مسئلہ سے کیسے نمٹا جائے اور ریاست کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں جن کے باعث کمپنیاں ملک میں سرمایہ کاری کریں اور غیر رہائشی صورتحال سے بھی نمٹا جاسکے، جس کا فائدہ کئی کاروباری افراد اٹھاتے ہیں۔

نجی جامعہ میں ہونے والے اس مباحثے کی میزبانی کے فرائض حبیب یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فہد علی نے سرانجام دیئے۔

ڈاکٹر فہد علی نے پاکستان میں ٹیکس کے مقاصد اور زرمبادلہ کے قوانین سمیت پاکستان سے باہر موجود اثاثوں پر عائد ہونے والے انسداد منی لانڈرنگ قوانین کے حوالے سے بات کی۔


یہ خبر 16 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں