پاکستانی فلم 'بالو ماہی' میں دو افراد کے درمیان اچانک پیار ہوجانے کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔

بالو (عثمان خالد بٹ) کسی غلط شادی کی تقریب میں پہنچ کر کسی اور دلہن سے اپنے پیار کا اظہار کر بیٹھتے ہیں، جو کہ ماہی (عینی جعفری) ہیں، اس دوران دلہن کا چہرہ گھونگٹ سے ڈھکا ہوتا ہے، ماہی بھی اس شادی پر خوش نہیں تھی، اور اس سے بچنے کے لیے وہ بالو کا سہارا لے کر وہاں سے فرار ہوجاتی ہے۔

اور یہاں سے بالو ماہی کے ایڈونچر کا آغاز ہوا، جس میں پُرانے لاہور کو پیش کیا گیا، جس دوران ماہی کے گھر والے ان کے پیچھے تھے، ماہی اپنی روایتی فیملی کی شرائط کے بجائے اپنی زندگی اپنے طریقے سے جینا چاہتی ہے، اور اس دوران بالو اس کے ساتھ ہی تھا کیوں کہ وہ ماہی کی حفاظت کا ذمہ دار خود کو سمجھتا ہے، اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بالو کو ماہی کی وجہ سے اپنے دکھ کا کم احساس ہوتا۔

ان کا یہ سفر تین گھنٹے تک جاری رہے گا، جس کے دوران ہمیں کچھ گانے اور ڈانس دیکھنے کو ملے گا، ساتھ ساتھ کئی مزاحیہ لمحات بھی ہوں گے، اور پاکستان کے خوبصورت مناظر بھی پیش کیے جائیں گے، تاہم اس پورے عرصے میں اسکرپٹ کے مطابق خواتین کے حقوق کو بھی وقفے وقفے سے ہیش کیا گیا۔

اس فلم میں بالو ماہی کے کرداروں کو متوازن رکھنے کے لیے کئی لمحات کو پیش کیا گیا، ان میں چند نے متاثر کیا، تاہم چند مایوس کن رہے، جن کا صاف اندازہ ہورہا تھا۔

اچھا کیا تھا

بالو ماہی کے کردار فلم کی بہترین بات رہے

جو بات صاف نظر آئی وہ یہ تھی کہ فلم بالو ماہی کی کامیابی اس کی اچھی کاسٹ پر منحصر ہے۔

عثمان اور عینی دونوں نے ہی اپنے اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف کیا، یہ دونوں نہایت اچھے نظر آئے، انہوں نے کافی متاثر کن ڈانس کیا، اور اپنے کرداروں کو نہایت سچائی سے نبھایا، ان کی جوڑی کو دیکھ کر اس بات کی خوشی ہوئی کہ فلم سازوں نے دو ایسے اداکاروں کی جوڑی پیش کی جو اب تک ساتھ نظر نہیں آئی تھی۔

لیکن کچھ سینز میں عثمان خالد اور عینی جعفری اپنے غیر فطری ڈائیلاگز کے باعث محصور ہوئے جس کا اثر ان کی پرفارمنس پر بھی ہوا۔

اس کا صاف اندازہ آپ کو بالو کے آخری ڈائیلاگ کو سُن کر ہوا، جہاں وہ خواتین کے حقوق کی بات کرتے نظر آئے، یہ ایسا پیغام تھا جسے بہتر دکھایا جاسکتا تھا، اس سین سے قبل فلم مناسب پرفارم کررہی تھی، تاہم اس کے بعد فلم نصیحت دینے کا عمل لگی، جسے دیکھ کر پہلے کا مزہ کرکرا ہوگیا۔

عثمان خالد بٹ اس سین میں ویسے نظر آئے جیسے وہ ہمیں ڈراموں میں لگتے ہیں، ہم جانتے ہیں وہ ایک بہترین اداکار ہیں، لیکن جب اسکرپٹ ایسا ہو تو اداکار کیا کرسکتا ہے۔

عینی جعفری نے اپنے ماہی کے کردار کو کافی بہترین انداز میں ہیش کیا، لیکن اگر ان کے کردار میں وہ جذبات زیادہ پیش کیے جاتے جو ایک گھر سے بھاگ جانے والی دلہن کے ہوتے ہیں تو شاید یہ کردار زیادہ ہم ربط نظر آتا۔

کئی افراد کی توجہ پاکستان کی کامیاب ماڈل صدف کنول پر بھی مرکوز تھی جنہوں نے شرمین نامی کردار کے ساتھ بہترین ڈیبیو کیا، ان کی اداکاری کافی یکساں رہی، جنہوں نے ہمیں فلم کے کئی عجیب لمحات سے محفوظ رکھا۔

ساونڈ ٹریک کی اچھائیاں اور کمزوریاں

فلم کے ٹائٹل سانگ میں کافی بہترین پرفارمنس پیش کی گئی، اس کے علاوہ راحت فتح علی خان کی قوالی بھی کافی شاندار ہے۔

البتہ چند گانے وہی بولی وڈ انداز کی عکاسی کرتے رہے، جن میں ایک 'بے چینیاں' گانا شامل ہے۔

فلم کی خرابی

فلم بالو ماہی دراصل ایک رومانوی کامیڈی فلم ہے جس کی کہانی کافی ڈرامائی ہے، تاہم بہتر ہے کہ اسے تصوراتی فلم سمجھا جائے۔

میں ایسا اس لیے کہہ رہی ہوں کیوں کہ ہدایت کار حثیم حسین اور لکھاری سعد اظہر نے اپنی فلم میں کچھ تو ایسا پیش کیا جسے قبول کیا جاسکتا ہے، لیکن کئی ایونٹس ایسے بھی دکھائے جن پر یقین کرنا بےحد مشکل تھا۔

زیادہ تر کسی رومانوی کامیڈی فلم میں حقیقت کو بہت زیادہ پیش نہیں کیا جاتا، لیکن ایسے معاملے میں ناظرین کو حقیقت دکھانے پر مجبور بھی نہیں کرنا چاہیے لیکن اس بات کو پھر واضح بھی کردینا بہتر ہے، کیوں کہ ناظرین اب بیوقوف نہیں ہیں۔

شادی کا لازمی ہونا

ہم جانتے ہیں کہ ناظرین کو فلموں کااچھا اختتام دیکھنا پسند کرتے ہیں، اور پاکستانی سوچ کے حساب سے یہ اچھا اختتام بغیر شوہر یا بیوی کے نہیں ہوسکتا، اور یہی ہوا فلم بالو ماہی کے آخر میں، جس کا انجام قابل پیش گوئی تھا، جہاں پیار اور شادی کو ہی پیش کیا گیا، اور بتانے کی ضرورت تو نہیں ہے کہ آخر میں خوشی حاصل کرنے والا جوڑا کون ہے۔

ہم اس کا ذمہ فلم ساز کو نہیں دے سکتے کیوں کہ وہ وہی دکھائیں گے جو ناظرین دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن ہم سوال تو کرسکتے ہیں کہ کیا پاکستان میں بغیر شادی کی کہانیاں نہیں ہوسکتی؟ آخر ہر رومانوی کہانی میں شادی ہی کیوں پیش کی جاتی ہے؟

اور فلم بالو ماہی کو لے کر ایسے سوال اس لیے ذہن میں زیادہ آرہے ہیں کیوں کہ ماہی پوری فلم میں یہ صاف بتاتی نظر آئیں کہ وہ شادی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، اور وہ کسی دن اپنی مرضی سے اپنی شرائط پر شادی کریں گی، تاہم اس کا یہ ارادہ کافی جلدی تبدیل ہوگیا۔

ویسے تو یہ کہنا بہت جلد ہوگا، لیکن کیا ہماری انڈسٹری میں ایسی کہانیاں سامنے آسکتی ہیں جن میں ہیرو اور ہیروئن ایک دوسرے سے پیار نہ کریں؟ یا ان کا آخر شادی نہ ہو، ایسا لگتا ہے کہ ابھی یہ رسک لینے میں ہمارے سینما کو کافی وقت ہے۔

آپ کو فلم 'بالو ماہی' کتنی پسند آئی؟ ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

rashid Feb 16, 2017 09:54pm
بہتر تبصرہ ہے مجموعی طور پر کچھ خامیوں کے ساتھ یہ ایک اچھی کاوش ہے
Hanif Feb 17, 2017 11:47am
Qyamat say Qyaamt tak!!