مقابلے کے امتحان میں بیٹھنا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے ہر طالب علم کا خواب ہوتا ہے۔ ہمیں بھی عہدِ جوانی میں مقابلے کے امتحان سے واسطہ پڑا.

منیر نیازی کی نظم کی طرح ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں، یہ فیصلہ بھی دیر سے کیا کہ مقابلے کا امتحان دیا جائے۔ ایم فل کے بعد پہلی نوکری کو ٹھکرا کر سی ایس ایس کی تیاری شروع کر دی۔ آپ اسے زندگی کی عملی مشقت سے ایک فرار سے بھی تشبیہہ دے سکتے ہیں۔

قائداعظم لائیبریری لاہور میں مقابلے کی تیاری کرنے والوں کے گروہ جوق در جوق آتے ہیں اور بمشکل چند ایک ہی اس میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ ہم نے بھی قائد اعظم لائیبریری لاہور کی ممبر شپ حاصل کر لی اور باغِ جناح کی دیوار سے باہر پٹیالہ ہاؤس میں ایک کرائے کے کمرے میں حصہ دار ہو گئے۔

ایسی جگہوں پر رہنا تو ہم کئی برسوں میں سیکھ چکے تھے، بس ایک کام جو زندگی بھر نہ سیکھا وہ تھا دل لگا کر پڑھنا، خیر ہمت مرداں مدد خدا، سی ایس ایس کے لیے کمر کس لی گئی۔

پڑھیے: سی ایس ایس میں انگلش 'لازمی' ہے ہی کیوں؟

لازمی مضامین کے علاوہ اردو کو اختیاری مضمون میں جگہ دی اور عمومی خیال بھی یہی ہوتا ہے کہ اردو بہت زیادہ نمبر نہیں دلواتی، لیکن تین سال کے مسلسل امتحانوں میں اردو ہی ایسا واحد مضمون تھا جس میں میرے نمبر دو سو میں سے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ آتے رہے، کیونکہ نصاب میں شامل ساری کتابیں میں بہت پہلے ہی پڑھ چکا تھا۔

دو چار چیزیں ہی نئی تھیں جو اپنے شوق کی بنا پر کچھ عرصے میں ہی حفظ ہو گئیں۔ میں نے سی ایس ایس کے امتحانوں کے تینوں اٹیمپٹس میں بیٹھا اور تینوں بار ناکام ہوا، اور تینوں بار ایک ہی مضمون میں فیل ہوا وہ تھا انگلش کمپوزیشن۔

پہلی دفعہ 36 نمبر لے کر فیل ہوا، دوسری دفعہ 30 نمبر لے کر اور تیسری بار 34 نمبر لے کر، پہلی کوشش میں لگا تھا کہ کوئی بات نہیں اگلی دفعہ تو پاس ہو ہی جاؤں گا اور اگلی دفعہ فیل ہوا تو تیسری اور آخری دفعہ کا تو پورا یقین تھا، مگر انگلش کمپوزیشن میرے لیے ایکلیز کی ایڑی ثابت ہوئی۔

امتحان کی پہلی کوشش میں ہی میرے روم میٹ جو اب پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ایس پی کے عہدے پر تعینات ہیں، انگلش میں 41 نمبر لے کر پاس ہوئے تھے لیکن ان کی اوور آل پوزیشن پہلے پچاس میں آئی تھی۔

ایسے ہی اگر میرے انگلش کمپوزیشن کے نمبر 40 آتے، جو کہ پاسنگ مارکس تھے، ان کو پاس شدہ امتحان کے نتائج میں شامل کیا جائے تو میں بھی پورے پاکستان میں پوزیشن ہولڈرز کے آس پاس ہوتا، اتنے قریب سے فیل ہونے کا دکھ بس جس پر گذرے وہی جانتا ہے۔

اس ہفتے لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے سی ایس ایس 2018 کا امتحان اردو میں لیے جانے کا حکم مجھ جیسے طالب علموں کے لیے مژدہ جانفزا سے کم نہیں، کہ جنہیں ساری عمر بدیسی زبان پر دسترس حاصل نہیں ہوتی اور اپنی قومی زبان میں مہارت ان کے کسی کام نہیں آتی۔

پڑھیے: کیا سی ایس ایس صرف 'تابعداری' کا امتحان ہے؟

ہمارے ہاں انگلش کو بقول انور مسعود 'فیل ہونے کو بھی کوئی مضمون ہونا چاہیے' کی طرز پر شامل کیا جاتا ہے۔ ایسی مشکل اصطلاحات اور جملے امتحان کا حصہ بنائے جاتے ہیں جن کا واحد مقصد طالب علم کے حافظے کا امتحان مقصود ہوتا ہے۔

ایسے بھاری بھرکم الفاظ میں نے آج تک انگریزی اخبارات یا عمومی گفتگو میں اب تک بھی نہیں سنے جو ان امتحانوں میں شامل کیے جاتے ہیں۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اچھے رٹے باز آگے نکل جاتے ہیں اور عبارت کے مفاہیم میں گم کہیں راستے میں گم ہو جاتے ہیں۔

اردو میں مقابلے کا امتحان کا فیصلہ شاید بہت پہلے کر دیا جانا چاہیے تھا، کیوں کہ اس وقت تک ہماری زیادہ تر تعلیم اردو میں ہی تھی، جیسے میں نے سن 1995 میں میٹرک پاس کیا اور انگلش صرف ایک مضمون کی حیثیت سے نصاب میں شامل تھی، اس کے علاوہ دیگر سارا نصاب اردو میں تھا اور یہ انگلش بھی پانچویں جماعت کے بعد مضامین کا حصہ بنتی تھی یعنی اسکول کے پہلے پانچ سال میں اے بی سی بھی ہمیں نہ آتی تھی۔

لیکن وقت کے ساتھ ہمارے نصاب اور نظام مکتب میں جو تبدیلی رونما ہوئی ہے اس میں انگریزی کو ایک بنیادی مضمون کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ نرسری اور پریپ سے ہی انگریزی نصاب کا ایک اہم حصہ بن گئی اور میٹرک تک جاتے جاتے بہت سے مضامین انگریزی میں پڑھائے جانے لگے۔

جانیے: سی ایس ایس رٹا کلچر کو کیسے فروغ دیتا ہے؟

انگلش میڈیم اسکولوں کے روائج میں بھی انگریزی کسی نہ کسی طرح رائج ہوتی چلی گئی اور اب عالم یہ ہے کہ ہمارے دوست ریاض شاہد صاحب کا کہنا ہے کہ میرے بچے اردو سے زیادہ اچھی انگریزی بولتے ہیں۔

ایسے وقت میں ایک مروجہ امتحان کی تبدیلی بہت سے لوگوں کے لیے نئی مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے، یعنی وہ والدین جنہوں نے سالہا سال کی مشقت سے بچوں کی انگریزی بہتر کرنے کی جستجو کی تھی انہیں واپس اردو پر توجہ دینی پڑ جائے گی۔

اردو زبان کی اہمیت سے انکار نہیں، پچھلے کچھ عرصہ میں عدالت عالیہ کی طرف سے اردو کی ترویج کی کوششوں کو ضرور سراہا جانا چاہیے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سبھی ترقی یافتہ قومیں اپنی زبان میں بات کرنے کو قابلِ فخر سمجھتی ہیں، جبکہ ہمارے ہاں ہی بقول انور مسعود صاحب

لاگا چسکا موہے انگریجی کا

میں تو انگلس میں لب کھولوں رے

لا کے من موج رہے اس بھاشا سے

توسے اردو میں، میں نہیں بولوں رے

اردو کی سی ایس ایس کی زبان کے طور پر تبدیلی ایک گیم چینجر بن سکتی ہے۔ ہمارے ملک کا طبقہ اشرافیہ جن کی نسلوں کی نسلیں سول سروس میں براجمان ہیں اور جو اردو بھول بیٹھے ہیں ایک بار پھر اس زبان کی طرف توجہ دیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ زبان کی تبدیلی سے وہ افسر شاہی جو ماتحتوں کو آسمان سے اتری مخلوق لگتی تھی شاید کچھ دیسی دیسی لگنے لگ جائے۔

پڑھیے: سی ایس ایس کا فرسودہ امتحانی نظام

اردو پڑھنے کا رجحان شاید اردو لکھنے والوں کے لیے مہمیز کا کام دے اور ملک میں اجنبی ہوتی ہوئی زبان پھر سے لہلہانے لگے۔ ان سب باتوں کے ساتھ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ سب پسماندہ علاقے جہاں انگریزی کا ابھی تک گزر نہیں ہوا وہاں سے بھی لوگ مقابلے کے امتحانوں میں اتر کر اپنی دانش کا لوہا منوانے لگیں۔

اب انگریزی تو بس ایک زبان ہی ہے، آپ کی ذہانت کا معیار تو نہیں۔ صرف انگریزی پر دسترس نہ ہونے کی بنا پر ذہین طلبہ کا ایسے امتحانات سے باہر ہو جانا پہلے بھی امتحان کے معیار اور ساکھ پر سوالیہ نشان ہی تھا۔

اب جبکہ اربابِ اختیار مقابلے کے امتحانات کی بہتری کی لیے کوشاں ہیں، میرے خیال میں انہیں زبان کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ طرز امتحان کو بھی پرکھنا ہو گا۔ اعداد و شمار کے حافظے پر کی گئی اسکروٹنی سے بہت سے ذہین، قابل اور اہل لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں اور رٹو طوطے آگے نکل جاتے ہیں۔

ایسے لوگ جو تخلیقی صلاحیتیں رکھتے ہوں، جن کی سوچ سوچنے کے فن سے آشنا ہو، جو نئی راہیں تراشنے کا ہنر رکھتے ہوں، جن کے ذہنی افق پر نئے خواب اور خیال ہوں، وہ مقابلے کے امتحان میں بالخصوص پیچھے رہ جاتے ہیں۔

فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔

تبصرے (17) بند ہیں

Arif Ali Feb 16, 2017 12:15pm
I totally agree with you. English is not necessarily required in many civil services posts.
محمد آصف ملک Feb 16, 2017 12:51pm
بہت اچھی اور مثبت تحریر۔ ماشاءاللہ
Hanif Feb 16, 2017 01:17pm
nice one and good try for CSS
mubasher hussain Feb 16, 2017 02:31pm
سر آپ کی تحریر اچھی ہے شکریہ ہم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ کوشش اپنی زبان کیلے کرنی چاہے یہ ہر جگہ بولی جاے پورے پاکستان مین عدالت ایک حکم اور دے کہ ہر سکول مین انگلش کی جگہ اردو بولی جاے اور ایک تحریر آپ یہ بھی کر دین اردو کے امتحان کے ساتھ ساتھ جو عدالت کے فیصلے آتے ہین وہ بھی اردو مین لکھے ہونے چاہیے
AJ. Jamali Feb 16, 2017 04:45pm
ایسے لوگ جو تخلیقی صلاحیتیں رکھتے ہوں، جن کی سوچ سوچنے کے فن سے آشنا ہو، جو نئی راہیں تراشنے کا ہنر رکھتے ہوں، جن کے ذہنی افق پر نئے خواب اور خیال ہوں، وہ مقابلے کے امتحان میں بالخصوص پیچھے رہ جاتے ہیں۔ (بہت خوب)
ahmak adami Feb 16, 2017 07:14pm
Present CSS is the club of non professionals un experienced and ignorant people, who know nothing except to write a letter in English. Superior service is the right of people who are superior in one particular subject e.g. a criminologist and law graduate etc is more suitable for homeland security/police compared to a english knowing ignorant person. English speaking was need during British domain. English is not need these days. We need professionals. A medical doctor is suitable for ministry for health. A civil engineer is suitable for Ministry for works. A food technologist is suitable for M,inistry for food. etc. Present CSS set up is ignorant of anything except writing and drafting in English. So we can not expect any improvement in the system. English / urdu or any language is not a problem at all. selection of languge should be the option.
khezar Feb 16, 2017 08:41pm
Beshak urdu may exm lay, magar sab se pehle universities ko urdu medium bana day, adalya apna sara nizm urdu may lay ayee, aur phir lag jaye kitabe translate karne. 2018 may css urdu may conduct karne ka faisla bekar aur haqayiq se chashm poshi par mubni hay. 1998 se pehle wala faisla globalization ke es daur may kiya ja raha hay jab ke hum jaise patriots ke pass mukhtalif talimi shobo ke bunyadi kutb ka tarjama tak nahi hay.
khezar Feb 16, 2017 08:52pm
@ahmak adami Bro your idea is not bad, but doing so will do more harm than good. In the first place,it will limit the pool of talent from which CSPs can be selected (by bringing specialization as you have argued). And as far as professionalism and competence are concerned, i would suggest you to go through CSSS syllabus just once then you will have some idea about "ignorance". kindly DON'T PASS SUCH HARSH AND ABSOLUTE JUDGMENTS. Regards :)
Babar Feb 17, 2017 10:04am
Agreed sir, I am also one of victim of English in CSS exams. I hate CSS and its structure . it is just only for elites and their children, not for common citizen.
Babar Feb 17, 2017 10:11am
@ahmak adami agreed with your point of view
ahmak adamı Feb 17, 2017 08:24pm
@khezar I HAVE GONE THROUGH THAT SYLAABUS A NUMBER OF TIMES. I HAVE PASSED WITH DISTINCTION AND CAN SAY IT WITH CONFIDENCE THAT A SENSIBLE PERSON CAN NOT BE A CSS OFFICER. MOST OF OUR OFFICERS IN PUBLIC SECRETARIATS ARE IGNORANT OF THE WORK THEY ARE DOING BLUNDERS. THEY ARE IGNORANT OF THE MONISTRIES THEY ARE HOLDING. THEY ARE GOOD READER OF ENGLISH LANGUAGE AND LETTER DRAFTERS. THEY ARE SATISFIED THAT THEY ARE IGNORANT. THEY RESIST CHANGE. GET RID OF THIS STUFF IF YOU WANT IMPROVEMENT AND PROGRESS.
Abubakar Bullo Feb 17, 2017 09:35pm
Urdu is not a developed language as per modern linguistics standards.... English is an international language of the time... Our global scale interaction will be in english but never in Urdu.... CSS standards will fall certainly cause substandard education will prevail to our system's degradation....which is already victim of poor prioritization and indiscipline.....
ahmak adamı Feb 18, 2017 10:30am
@Abubakar Bullo English language letter drafting must not be our priority. The English language could be learned in one year through English language course. Our aim should be a selection of highly professional person through CSS. e.g in a case of any emergency we look army to come forward for help because it is the only institution that is highly professional. We are running our all institutions except army and atomic energy etc. by inexperienced and ignorant people. Even we allow/induct arym personels without any examination to superior service posts. We should introduce blood of professionalism in all intitutions like wise. So we must not wait for change.
ahmak adamı Feb 18, 2017 12:20pm
@Abubakar Bullo ; objection; Urdu is not a developed language ...... Our global scale interaction will be in english but never in Urdu....: reply Governments europe, middle east n latin America seek talent instead of english skills in their CSS. Therafter the selected are taught English. Our foreign office officers are also sent for language training likewise. English is not an issue. Your objection : CSS standards will fall ................. poor prioritization and indiscipline.... reply: you mean English is standard and all other substandard. If so why people in France china japan r world competitors? We need highly professional people. Think if army has only English speakers. Think if hospitals have engineers there to treat the patients. our ignorant css/pcs officers are not able to make policies because they do not know any thing except english. Our priority should be competence professionalism and knowledge of the subject. we could only then seek a change in the system.
ahmak adamı Feb 18, 2017 12:23pm
@khezar Beshak : your objection: urdu may exm lay, magar sab se pehle universities ko urdu medium bana day, adalya apna sara nizm urdu may lay ayee, aur phir lag jaye kitabe translate karne. Reply: Nach na janey aangan terha
معاذ Feb 18, 2017 02:05pm
بہت عمدہ لیکن انگریزوں کا پیروکار اعلی طبقہ اردو کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ہے
رمضان رفیق Feb 18, 2017 04:50pm
احباب مضمون کی پسندیدگی کا شکریہ، ایک تجویز قابل عمل اور قابل غور ہے کہ متعلقہ شعبوں کے ماہرین میں سے ہی لوگوں کو انہی شعبوں کے متعلق اختیارات دئیے جائیں پھر امتحان بھی اسی مضمون میں مہارت ہو سکتا ہے، بہت سے سوالوں کے موثر جواب آپ پہلے ہی سلجھائے جا چکے ہیں جن سے مجھے اتفاق ہے۔ میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ قابلیت جانچیں انگریزی نہیں۔