قلندر کا مزار کہاں ہے اور اتنی ہلاکتیں کیوں ہوئیں؟

قلندر کا مزار کہاں ہے اور اتنی ہلاکتیں کیوں ہوئیں؟

ساگر سہندڑو


قلندر لعل شہباز کے نام سے تو تقریباً ہر پاکستانی ہی واقف ہے، مگر جہاں اس صوفی بزرگ کا مزار واقع ہے، اس شہر سے زیادہ تر لوگ ناواقف ہی ہیں۔

صوفی بزرگ لعل قلندر شہباز کو نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان سمیت خطے بھر میں منفرد حیثیت حاصل ہے اور ان کے عقیدت مند ہندوستان، ایران اور افغانستان سمیت دیگر ممالک تک پھیلے ہوئے ہیں۔

گذشتہ روز بدترین خودکش دھماکے کا نشانہ بننے والا قلندر لعل شہباز کا مزار سندھ کے شہر سیہون میں واقع ہے، جسے تحصیل کی حیثیت حاصل ہے، یہ شہر جغرافیائی لحاظ سے ایسی جگہ واقع ہے، جہاں دور دور تک کوئی بڑا شہر واقع نہیں، جب کہ اس شہر کو اتنی سہولیات بھی حاصل نہیں ہیں کہ وہ کسی بھی ہنگامی حالات میں اپنا دفاع کر سکے۔

دھماکا درگاہ کے احاطے میں کیا گیا—فوٹو: اے ایف پی
دھماکا درگاہ کے احاطے میں کیا گیا—فوٹو: اے ایف پی

شہر میں خطے کی معروف درگاہ ہونے کے باوجود یہاں سیکیورٹی، صحت اور صفائی جیسے انتظامات انتہائی ناقص ہیں۔

تعلقہ سیہون جو پہلے ضلع دادو کا حصہ تھا، اب ضلع جامشورو کا حصہ ہے، مگر یہ شہر اپنے ضلعی ہیڈکوارٹر سے 134 کلو میٹر دوری پر واقع ہے۔

نادرا عہدیدار آصف جھتیال کے مطابق سیہون کے قریب ترین شہر بھی اس سے 22 کلو میٹردوری پر واقع ہے، جب کہ اس کا دوسرا قریب ترین شہر دادو 45 کلو میٹر دوری پر ہے۔

سیہون کا تعلقہ ہسپتال صرف 160 بستروں پر مشتمل ہے، جب کہ وہاں 80 ڈاکٹروں کے عہدے خالی پڑے ہوئے ہیں۔

دھماکے میں خواتین بھی ہلاک ہوئیں—فوٹو: اے ایف پی
دھماکے میں خواتین بھی ہلاک ہوئیں—فوٹو: اے ایف پی

آصف جھتیال کے مطابق سیہون صوبائی دارالحکومت سے تقریبا 310 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے، جب کہ حیدرآباد سے 156 اور ضلع جامشورو سے 134 کلو میٹر دور ہے۔

جامشورو سے لاڑکانہ 130 کلو میٹر دوری پر واقع ہے، جس کی وجہ سے گزشتہ روز دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کو کسی بھی شہر تک منتقل کرنے میں شدید مشکلات پیش آئیں۔

سیہون سے جامشورو، حیدرآباد، لاڑکانہ یا نوابشاہ تک سفر کرنے کے لیے کم سے کم 50 منٹ درکار ہوتے ہیں اور اگر اچھی گاڑی دستیاب نہ ہو تو یہ سفر مزید طویل ہوجاتا ہے۔

دھماکے کے بعد سیکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا—فوٹو: اے ایف پی
دھماکے کے بعد سیکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا—فوٹو: اے ایف پی

گزشتہ روز جب درگاہ قلندر لعل شہباز کے مزار میں خودکش حملہ ہوا تو سیہون میں اتنی زیادہ تعداد میں گاڑیاں دستیاب ہی نہیں تھیں کہ فوری طور پر زخمیوں کو کسی دوسرے بڑے شہر کے ہسپتال منتقل کردیا جاتا۔

دھماکے میں زیادہ ہلاکتیں ہونے کی ایک وجہ زخمیوں کو بروقت طبی سہولیات میسر نہ ہونا بھی ہے، جب کہ شہر کے واحد تعلقہ ہسپتال میں جدید سہولیات کے فقدان نے بھی متاثرین کی مشکلات میں اضافہ کیا۔

تعلقہ ہسپتال سیہون کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) محمد معین الدین صدیقی نے بتایا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ان کے ہسپتال میں عدم سہولیات کے باعث کسی کو مشکلات درپیش آئیں۔

قلندر شہباز کی حاضری کے لیے ملک بھر سے زائرین آتے ہیں—فوٹو: اے ایف پی
قلندر شہباز کی حاضری کے لیے ملک بھر سے زائرین آتے ہیں—فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس جو افراد لائے گئے ان میں زیادہ تر بہت تشویش ناک حالت میں تھے، جن میں سے کئی افراد ہسپتال پہنچتے ہی یا ہسپتال لانے سے قبل ہی ہلاک ہوچکے تھے۔

ایم ایس محمد معین الدین نے بتایا کہ تعلقہ ہسپتال میں 80 ڈاکٹروں کے عہدے خالی پڑے ہوئے ہیں، جب کہ ان کے پاس پیرامیڈیکل اسٹاف کی بھی قلت ہے، لیکن اس کے باوجود وہ اس بات پر بضد رہے کہ ان کے ہسپتال میں کسی بھی سہولت کی کمی نہیں ہے۔

دھماکے کے بعد زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے میں مشکلات پیش آئیں—فوٹو: اے ایف پی
دھماکے کے بعد زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے میں مشکلات پیش آئیں—فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے دلیل دی کہ درگاہ قلندر شہباز میں دھماکے کے بعد سیہون اور ضلع بھر کے 50 نجی ڈاکٹرز اپنی مدد آپ کے تحت مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے ہسپتال پہنچ گئے۔

ایم ایس کے مطابق ان کے ہسپتال میں 160 بستر موجود ہیں، جبکہ خودکش دھماکے میں ہلاک ہونے والے 75 افراد کی لاشیں یہاں موجود تھیں، جن میں سے 55 مرد، 13 خواتین اور 7 بچے شامل ہیں، جب کہ زخمیوں میں بھی مرد، خواتین و بچے شامل ہیں۔

ویسے بھی اگر سیہون یا صوبے کے دیگر علاقوں کے ہسپتالوں کا جائزہ لیا جائے تو سندھ بھر کے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور عملے کی قلت سمیت مشینری اور بستروں کی واضح کمی دیکھنے میں آئے گی۔

دھماکے میں زیادہ تر مرد ہلاک ہوئے—فوٹو: اے ایف پی
دھماکے میں زیادہ تر مرد ہلاک ہوئے—فوٹو: اے ایف پی

آئے دن سندھ کے مقامی میڈیا میں یہ خبریں آنا معمول کی بات ہے کہ کئی ہسپتالوں میں سر درد کی گولی سمیت کتے کے کاٹنے سے بچاؤ کا انجکشن تک میسر نہیں ہے۔

دیکھا جائے تو سندھ کے سرکاری ہسپتالوں کی ایسی حالت صوبائی دارالحکومت کراچی سے لے کر دوسرے بڑے شہروں کے تمام ہسپتالوں تک دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں نہ تو ڈاکٹرز اور عملے کی تعداد مکمل ہوتی ہے اور نہ ہی دوائیں دستیاب ہوتی ہیں۔

سیہون کے ہسپتال میں علاج کی بہتر سہولیات میسر نہ ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں کے زخمیوں کو جامشورو، نوابشاہ، لاڑکانہ، حیدرآباد اور کراچی منتقل کرنا پڑا۔

ہلاک ہونے والوں کا تعلق مختلف علاقوں سے ہے—فوٹو: اے ایف پی
ہلاک ہونے والوں کا تعلق مختلف علاقوں سے ہے—فوٹو: اے ایف پی

نہ صرف سیہون بلکہ حساس اور دور دراز مقامات پر واقع سندھ کے دیگر شہروں کے ہسپتالوں کی بھی یہی حالت ہے۔

واضح رہے کہ سندھ حکومت نے صوبے میں صحت کے معاملات بہتر بنانے کے لیے محکمہ صحت کو 2 حصوں میں تقسیم کرکے صوبے بھر میں ایمرجنسی نافذ کر رکھی ہے، مگر ہسپتالوں کی خستہ حالت دیکھ کر ایمرجنسی کے نفاذ پر ہی رحم آجاتا ہے۔