نئی دہلی: بھارت نے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اب چاند کی جانب توجہ مبذول کرلی ہے۔

انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (آئی ایس آر او) کے مستقبل کے ارادوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر سیوا تھانو پلائی کا کہنا تھا کہ ہندوستان 2030 تک چاند کے وسائل کو بروئے کار لاکر ملکی توانائی کی ضروریات کو پورا کرے گا۔

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے بھارتی خلائی تحقیقاتی ادارے نے 104 سیٹلائٹس خلاء میں بھیج کر نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔

آئی ایس آر او کے پروفیسر اور براہموس ایرواسپیس کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ بھارت کی توانائی کی تمام ضروریات چاند کی سطح سے کھود کر حاصل کیے گئے ہیلیئم کی مدد سے پوری کی جاسکتی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 3 روزہ کلپنا چاولا اسپیس پالیسی ڈائیلاگ کے سیمینار میں اختتامی خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر سیوا تھانی کا کہنا تھا کہ اس ٹارگٹ کو 2030 تک حاصل کرلیا جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چاند کی مٹی جس میں ہیلیئم 3 نامی دھات کی بھاری مقدار پائی جاتی ہے، کی کھدائی ان کے ادارے کا ترجیحی پروگرام ہے اور دیگر ممالک بھی اس منصوبے پر کام میں مصروف ہیں۔

ڈاکٹر سیوا تھانی کے مطابق چاند پر موجود ہیلیئم دنیا بھر کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: ایک ساتھ104سیٹلائٹس خلامیں روانہ، ہندوستان کا عالمی ریکارڈ

آئی ایس آر او کے پروفیسر نے سیمینار کے شرکاء کو آگاہ کیا کہ ہیلیئم کی کھدائی سے لے کر اس کی زمین تک منتقلی کا منصوبہ زیرِغور ہے۔

بھارتی فوج کے ڈائریکٹر جنرل پلاننگ لیفٹیننٹ جنرل پی ایم بالی کا خیال تھا کہ بھارت اپنی قومی سلامتی کے لیے خلائی ٹیکنالوجی میں بہتری کی ضرورت کا اندازہ کرچکا ہے لہذا اس حوالے سے اہم پالیسیاں اور ادارتی فریم ورک تشکیل دیئے جارہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی بھارت کے پاس روابط اور ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹس کا وسیع جال موجود ہے، 2013 میں لانچ کیا گیا بھارت کا ملٹری سیٹلائٹ (GSAT-7) اس بات کا شاہد تھا کہ بھارت قومی سلامتی کے لیے خلاء میں تسخیر اور تلاش کا کام شروع کرنا چاہتا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل بالی کا مزید کہنا تھا کہ خطے اور پوری دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ابھرتے ہوئے ملک کی حیثیت سے ہندوستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ زمین کے ساتھ ساتھ خلاء میں بھی فوجی اثاثے تیار کرے۔

ہمسایہ ممالک کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'اطراف میں بدلتی صورتحال کے باعث ضروری وسائل سے لیس ایک خصوصی خلائی پروگرام کی ضرورت ناگزیر تھی'۔

تبصرے (0) بند ہیں