کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر آّصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ کچھ طاقتیں پاکستان میں دہشت گردی کرکے ملک کو کمزور کرنا چاہتی ہیں تاہم ہم انہیں بتادیناچاہتے ہیں کہ پاکستان ہمارا ملک ہے ہم اپنے ملک کو کمزور کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیں گے۔

آصف علی زرداری نے وزیراعلیٰ سندھ کو ہدایت کی کہ وہ وفاق سے بات کرکے سندھ میں مقیم افغان باشندوں کے صوبے سے انخلاء کے اقدامات کریں۔

سیہون میں ہونے والے خود کش دھماکے کے بعد صوبے میں امن و امان کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کراچی میں وزیراعلی ہاؤس میں آصف زرداری کی زیرصدارت اجلاس ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاک-افغان بارڈر پر سیکیورٹی مشترکہ دشمن سے لڑنے کیلئے'

اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ، وزیر صحت ڈاکٹر سکندر میندھڑو، چیف سیکریٹری رضوان میمن، آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ، ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی، ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر، کمشنر کراچی اعجاز علی خان و دیگر حکام شریک تھے۔

وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سابق صدر آصف زردری نےکہا کہ ’ہم ان مدارس کے خلاف نہیں جو دین کی خدمت کرتے ہیں، ہمارے بڑوں نے بھی ایک مدرسہ بنایا، جہاں قائداعظم نے تعلیم حاصل کی لیکن کچھ مدارس ہمارے بچوں کو بھٹکانے کا کام کر رہے ہیں ہمیں ان کو روکنا ہے‘۔

آصف علی زرداری نے وزیراعلیٰ سندھ کوہدایت کی کہ وفاق سے بات کرکے غیرملکیوں کا نکالنے کا انتظام کریں۔

سابق صدر نے کہا کہ انہیں پتہ ہے کہ کون سے شہر میں دہشت گردوں کے کون سہولت کار ہیں، اگر ہم اقدامات ان علاقوں میں اور سرحد میں کریں تو دہشت گردوں کا جینا مشکل کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغان سفارتی حکام جی ایچ کیو طلب، 76 دہشت گردوں کی فہرست حوالے

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے حکمت عملی بہتر اور مؤثر کرنی ہوگی ساتھ ہی انہوں نے سندھ کے ساتھ ملنے والے بلوچستان اور پنجاب کے سرحدی علاقوں میں بھی نگرانی سخت کرنے کی ہدایت کی۔

آصف زرداری نے سانحہ سیہون میں شہید ہونے ہیڈ کانسٹیبل عبدالعلیم کے اہلخانہ کے لیے ایک کروڑ روپے دینے کی ہدایت کی اور شہیداہلکار کے لواحقین کو گھر اور ملازمت بھی دینے کے احکامات جاری کیے۔

اس موقع پر وزریراعلی سندھ نے کہا کہ سندھ پرامن لوگوں کی دھرتی ہے یہی وجہ ہے کہ دہشت گرد خودکش حملہ آور دوسرے علاقوں سے لاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کے سہولت کار یہاں ضرور موجود ہیں تاہم ہم سہولت کاروں کے حلق تک پہنچ گئے ہیں۔

انہوں نےکہا کہ سندھ حکومت نے 94 مدارس کی فہرست وفاق کو بھیجی تھی ہم چاہتے ہیں کہ ان پر نظر رکھی جائے، یہ فہرست انٹیلی جنس اینجنسیز کی اطلاعات کی بنیاد پر بنائیں گئیں تھی لیکن وفاق سے ہمیں کوئی خاص مدد نہیں ملی۔

انہوں نے کہاکہ عوام کی مدد سے دہشت گردوں کو کچل کر دم لیں گے، دہشت گردہمارے بچوں اور ملک کے دشمن ہیں، اتحاد اور یکجہتی سے دہشت گردوں کا مقابلہ کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان مہاجرین کے قیام میں مارچ 2017 تک توسیع

وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ہم نے پولیس میں مجرموں کی ڈیٹا بیس قائم کی ہے، پولیس میں محکمہ آئی ٹی قائم کیا ہے، اس ڈیٹابیس سے مجرموں تک پہنچناآسان ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ’پولیس کی صلاحیتیں بڑھانے پر خصوصی توجہ دے رہا ہوں ، پولیس کی تربیت، سازو سامان اور میرٹ پر بھرتیاں کی ہیں لیکن آگے اب بہت کچھ اور کرنا ہے‘۔

اجلاس میں موجود آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’سیہون درگاہ لعل شہباز قلندر دھماکے میں 90 افراد ہلاک اور 351 زخمی ہوئے‘۔

انہوں نے اس بات کی تصدیق کی یہ حملہ خود کش تھا اور اس میں 7 سے 8 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔

تحقیقات کے حوالے سے اے ڈی خواجہ نے بتایا کہ مشتبہ خود کش بمبار کی نشاندہی بھی ہوگئی ہے۔

اس موقع پر چیف سیکریٹری رضوان میمن نے کہا کہ ’سندھ میں 700 صوفیانہ درگاہیں ہیں اور وہاں کچھ مسائل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ درگاہوں کی چاردیواری نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو وہ چھوٹی ہے جبکہ کچھ درگاہوں کے اردگرد تجاوزات بھی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کچھ مدارس کے داخلی اور خارجی پوائنٹس نہیں ہیں، وہاں کوئی نظر رکھنے والے ٹاورز نہیں جبکہ خواتین سرچر بھی نہیں ہیں۔

خیال رہے کہ 16 فروری کو سیہون میں درگاہ لعل شہباز قلندر میں ہونے والے خود کش دھماکے میں تقریباً 88 افراد جاں بحق اور 250 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

اس واقعے کے بعد سندھ بھر میں مزارات اور عبادتگاہوں کی سیکیورٹی بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی عدالتوں کی سینٹرل جیل منتقلی

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر 8 انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو کلفٹن سے سینٹرل جیل منتقل کرنے کی منظوری دے دی۔

انہوں کہا کہ پولیس نے رپورٹ دی تھی کہ خطرناک دہشت گردوں کو سینٹرل جیل سے کلفٹن میں موجود انسداد دہشت گردی عدالتوں میں سماعت کے لیے لے جانا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور پولیس نے ان کی سیکیورٹی کے لیے 1500 پولیس اہلکار مقرر کررکھے ہیں۔

چیف سیکریٹری رضوان میمن نے وزیراعلیٰ کو بتایا کہ 8 میں سے 6 انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی عمارتیں تیار ہوچکی ہیں، ایک عدالت کی جگہ جیل میں خالی ہے جبکہ باقی ایک کے لیے بھی جگہ کا بندوبست کیا جاچکا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے چیف سیکریٹری کو ہدایت دی کہ وہ انسداد دہشت گردی عدالتوں کی سینٹرل جیل منتقلی کا نوٹیفکیشن جاری کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی سنجیدہ اور اہم معاملہ ہے اور اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

خیال رہے کہ کراچی میں 10 انسداد دہشت گردی عدالتیں فعال ہیں۔


تبصرے (1) بند ہیں

RIZ Feb 21, 2017 09:53am
when Mr Zardari know this well who are the facilitator and cities why he is not telling the nation? why his PPP government not taking any in Sindh? did he went to Sehwan to condolence ?? what a shame no one went for condolence,, what kind of leader they are??