اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ کو بتایا کہ ملک میں حالیہ دہشت گردی کی لہر میں افغان سرزمین کے استعمال ہونے کے ٹھوس شواہد حاصل کرنے کے بعد فوج کو دہشت گردوں کے خلاف سرحد پار کارروائی کرنے کے اختیارات دیئے گئے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق پیر 20 فروری کو ہونے والے سینیٹ اجلاس میں فوجی عدالتوں کی بحالی سے متعلق قانون سازی کی مشاورت سے سینیٹرز کے اخراج سمیت امن و امان اور دیگر کئی اہم معاملات پر بحث کی گئی۔

عوامی اہمیت سے متعلق اہم معاملات پر رد عمل دیتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ جہاں کہیں بھی دہشت گرد موجود ہیں وزیراعظم نے ان کے خلاف کارروائی کے اختیارات فوج کو دے دیئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ لاہور اور حیات آباد میں ہونے والے دونوں خودکش حملوں کی منصوبہ بندی میں غیر ملکی سرزمین استعمال کی گئی۔

یہ وڈیو دیکھیں: 'فوج جہاں چاہے وزیراعظم نے کاروائی کرنے کا اختیار دے دیاہے'

انہوں نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ پاکستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، ساتھ ہی انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ کسی دوسرے ملک کی سرزمین بھی پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔

وفاقی وزیر نے سینیٹ کو اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ پاکستان نے دہشت گردوں کی حوالگی کے لیے 76 نام افغانستان کو فراہم کیے ہیں، جب کہ افغانستان کو بھی کہا گیا ہے کہ اگر کوئی دہشت گرد انہیں مطلوب ہے تو پاکستان کو اس کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔

اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ بظاہر اس بات سے بے خبر نظر آئے کہ پیر 20 فروری کو افغانستان نے بھی 85 دہشت گردوں کی فہرست پاکستان کے حوالے کی تھی۔

اسحاق ڈار نے اس موقع یہ بھی واضح کیا کہ فوجی عدالتوں سے متعلق قانون سازی میں ایوان بالا کو نظر انداز کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، اس حوالے سے اب تک پارلیمانی رہنماؤں کو غیر رسمی مشاورت میں بلایا گیا تھا اور فوجی عدالتوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے 23 فروری کو ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے اب تک 14 سینیٹرز کو رسمی دعوت نامے موصول ہوچکے ہیں۔

خیال رہے کہ فوجی عدالتوں سے متعلق یہ اجلاس 27 فروری کو ہونا تھا، مگر اب اجلاس کو 4 دن قبل منعقد کیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں کی بحالی کیلئے حکومتی کوششیں تیز

وفاقی وزیر نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ قانون سازی میں سینیٹ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اس حوالے سے اتفاق رائے لازمی ہے، انہوں نے اس معاملے کو اپنے مفادات سے بالائے طاق رکھنے پر زور دیا۔

اجلاس میں خطاب سے قبل وفاقی وزیر خزانہ نے سینیٹ چیئرمین رضا ربانی سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی، ذرائع کے مطابق اسحاق ڈار نے چیئرمین سینٹ کو فوجی عدالتوں کی بحالی سے متعلق معاملے پر اعتماد میں لیا، اس موقع پر سینیٹ چیئرمین رضا ربانی نے اسحاق ڈار کو فوجی عدالتوں پر ایوان میں پالیسی بیان دینے کے لیے کہا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل 18 اور 19 فروری کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے فوجی عدالتوں کی بحالی سے متعلق حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کرکے عدالتوں کی بحالی پر حمایت کے لیے کہا تھا۔

وزیر خزانہ نے فوجی عدالتوں سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین ایاز صادق کو بھی فون کرکے مشورہ دیا تھا کہ کمیٹی کا 27 فروری کو ہونے والا اجلاس 23 فروری کو کیا جائے تو اجلاس فیصلے کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

وزیر خزانہ نے یہ مشورہ اس لیے دیا تھا کیوں کہ 22 فروری کو فوجی عدالتوں سے متعلق ذیلی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوگا، جس میں فوجی عدالتوں سے متعلق ترمیمی بل کا جائزہ لیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت فوجی عدالتوں کی جلد بحالی کیلئے کوشاں

اسحاق ڈار کا خیال ہے کہ 22 فروری کو ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے بعد 23 فروری کو مرکزی کمیٹی کا اجلاس منعقد کرنے سے اراکین جلد اتفاق رائے پیدا کرلیں گے۔

ملک میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے باعث حکومت جلد سے جلد فوجی عدالتوں کی بحالی چاہتی ہے۔

فوجی عدالتیں 2 سال کا آئینی تحفظ ختم ہونے کے بعد گزشتہ ماہ 7 جنوری 2017 سے غیر فعال ہیں، جن کا قیام 6 جنوری 2015 کو 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت کیا گیا تھا۔

آئین میں 21 ویں آئینی ترمیم 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) میں حملے کے بعد کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں