کام کرنے اور خواتین کے لیے اس کے مطلب — یعنی سماجی آزادی اور قدامت پرست نفسیات سے نجات — نے مسلسل ظلم و ستم کرنے والے پدرشاہی نظام کو ماند کر دیا ہے اور اس کی کمزور جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

کام کرنا، اس احساس مقصدیت اور شناخت کے حقیقی احساس کو پیدا کرنے میں مدد کرتا ہے جس کا حق پاکستان کی خواتین اور لڑکیوں کو ایک عرصہ دراز سے حاصل نہیں۔ یہ انہیں مردوں جتنی، (اگر ان سے زیادہ نہیں) مساوی اہمیت کا حامل بناتا ہے۔

حنا شاہ نواز اپنے لیے باوقار مقام اور معاشی مقصد، جو کہ ان کے لیے خاصی اہمیت کا حامل تھا، کی متلاشی تھیں۔ کوہاٹ سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ خاتون نے ایک غیر سرکاری تنظیم میں کام کیا اور اپنی سخت محنت اور معاشرے کے فرسودہ رسوم و رواج سے بڑھ کر کچھ کرنے کی تمنا رکھنے والے ذہن سے اچھی خاصی آمدنی کمائی۔

اپنی بیوہ ماں اور بھابھی کی معاشی ضروریات پورا کرنے میں اہم کردار کرنے والی حنا نے پسماندہ علاقوں کے لوگوں کی مروجہ روایتوں کی بلند دیواروں کو عبور کرتے ہوئے شادی نہیں کی، گھر پر نہیں بیٹھیں اور مدد کا انتظار نہ کیا؛ وہ ایسا ’مرد‘ بن گئیں جو ان کے آس پاس کے مرد کبھی بن نہیں پاتے۔

پدرشاہی جس قدر بدصورت اور پیچیدہ ہمارے ہاں ہے، ایسے ماحول میں ایسے اقدامات 'اسٹیٹس کو' کو بگاڑ کا شکار بنا دیتی ہیں۔ جس قوت اور استقامت کے ساتھ حنا نے بیرونی دنیا میں قدم رکھا تھا وہ اب چار گولیوں سے چھلنی پڑی تھیں، وہ دہشت اور خوف کے ایک ایسے کھیل کا نشانہ بنیں جس خوف تلے پاکستانی خواتین اب بھی اپنا شاندار مستقبل تلاش کرنے کی جدوجہد کرتی ہیں۔

یہ کہانی بار بار دہرائی جاتی ہے کہ: حنا کو ان کے کزن نے (الف) کام کرنے اور اپنے خاندان کے مردوں کی مردانگی کو ٹھیس پہنچانے پر قتل کیا یا پھر (ب) اسی کزن نے حنا کے شادی سے انکار کرنے پر ان کا قتل کیا۔ حنا نے فلسفے میں ماسٹرز کر رکھا تھا جبکہ ان کا کزن خبر کے مطابق 10 جماعتوں سے زیادہ نہیں پڑھا تھا۔ حنا اپنے لیے ایک اچھا جیون ساتھی چاہتی تھیں۔

ایسی کہانیاں نہ جانے کتنی بار سننے کو ملتی ہیں: جب کبھی بھی کسی خاتون نے مالی آزادی کے پانیوں میں غوطہ لگانے کی جرات کی تو اس پانی میں خون اٹل طور پر شامل ہوگا۔

غیرت کے نام پر قندیل بلوچ کا قتل 2016 کا سب سے بلند و بانگ اور بدترین کیس تھا۔ حنا شاہ نواز کا قتل یقینی طور پر 2017 کا سب سے بڑا افسوسناک واقعہ ثابت ہوگا۔ دونوں خواتین پراعتمادی کے اچھوتے جہان سے تھیں، ایک ایسے ترقی پسند مقام سے جو پدرشاہی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے اور اس پر ہنستا ہے۔

ناگوار مردانہ نظروں کا حصار توڑتے ہوئے آگے بڑھنے کی نہ جانے کتنی خواتین بھاری قیمت ادا کر چکی ہیں۔ اور کئی خواتین تو قانون کی کمزوریوں کا شکار ہو گئیں، ماری گئیں اور کبھی منظر عام پر نہ آ سکیں کیونکہ ان کے قتل کبھی رپورٹ ہی نہیں ہو پاتے۔ آخر ’غیرت’ کا جو مسئلہ ٹھہرا۔

یہ حقیقی خطرے کو پہچاننے کی ضرورت ہے: اس قتل عام کے مقابلے میں خوشبودار، پسینے سے داغدار غیرت اور حیاء در حقیقت مقابلے کی حصہ دار ہے؛ خواتین کو مارے جانے کا سلسلہ جاری ہے، کیونکہ اس خونریزی کے خلاف جس غم و غصے کے اظہار کی ضرورت ہے اس میں کمی اور پستی واقع ہوتی جا رہی ہے۔

سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے آن لائن جنگجوؤں تک محدود اور اپنے ارادوں میں اٹل فیس بک اور ٹوئٹر کا ایک مختصر ہجوم ہی اس جرم کے نتائج، ان خون آلودہ عقائد کو سمجھ پائے گا۔ وہ ٹائپ کرتے ہیں اور بحث کرتے ہیں مگر وہ فرسودہ سوچ کا قلعہ فتح نہیں کر پاتے۔

اس محاذ کو باہر سڑکوں پر حقیقی دنیا میں جیتنا اور ان حملوں کا انصاف ہونا چاہیے۔ جب مردوں کو بتایا جائے گا کہ جو وہ کرتے ہیں، جو وہ سوچتے ہیں، جس پر وہ الزام لگاتے ہیں اور جس کی وہ تائید کرتے ہیں وہ غلط ہے تو تب وہ اپنی شخصی نشوونما اور ذاتی جائزے کے سو سالہ مرحلے کی ابتدا کریں گے۔

یہ ہمارے ادارے ہی ہیں جو ضروری فعال کردار ادا نہیں کرتے۔ ہماری عدالتیں، ہمارے تھانے، ہمارے اپنے سماجی فرسودہ نظریات ہیں جو اب بھی اس ظلم و ستم کو مقدس جانتے ہیں، جو اب بھی ہمیں اپنی ذات کو مقید رکھنے میں یقین رکھتے ہیں۔

یہ ہماری تشریحات اور ہماری صلاحیتوں پر مسلط کردہ حکمرانی کی ایک بنیادی اور انتہائی گھٹیا صورت ہے۔ اور یہ انصاف کا ایک مذاق ہے، بڑی چالاکی سے ثبت شدہ ذلت کا معاہدہ ہے۔

ہمارے مردوں کا کسی قبیلہ نما اتحاد اس قبائلی پدر شاہی کا حامی ہے جو سماج میں صرف ایک ہی صنف کی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے جہاں مرد کو تمام اختیارات حاصل ہوں اور خواتین/لڑکیاں ہمیشہ ان کے رحم و کرم ہوں۔

آج کی دنیا میں غیرت ایک کھوکھلی چیز ہے جہاں اجازت نہیں لی جاتی اور آزادی حاصل کی جاتی ہے، جہاں عورتیں فیصلے لیتی ہیں، صرف بچے پیدا نہیں کرتیں، جہاں مرد کا احساسِ برتری گزرے زمانے کی بات بن چکی ہے۔

کوئی شک نہیں کہ حنا شاہ نواز ایک مطمئن خاتون تھیں، اور وہ ایک پختہ یاد دہانی ہیں کہ ان جیسی خواتین مردوں کی قدیم جہالت سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی ہیں۔ جب ایک خاتون ثابت قدم رہنے کا فیصلہ کر لیتی ہے تو اسے کوئی قید و بند نہیں روک پاتی۔

کوئی بھی قدامت پرست پاکستانی مرد تبدیلیوں کی ان ہواؤں کو اپنی ہٹ دھرمی سے نہیں روک سکتا۔ وہ حنا جیسی روشنیوں کو بجھا تو سکتا ہے مگر وہ صدیوں سے چلتے آ رہے استحصال کا شکار ان خواتین کو پابند نہیں کر سکتا جو بالآخر اپنی زنجیروں سے آزاد ہو رہی ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Wajahat Feb 22, 2017 03:08pm
Beti koi shakhs peda krna nhe chahta but bister pr har mard ko aurat chahiye.