ہم ماں بولی کی اہمیت کو تسلیم کیے بغیر ترقی کے راستے پر گامزن نہیں ہو سکتے۔ ہماری ریاست کو نہ صرف لوگوں کو ان کی ماں بولی میں تعلیم حاصل کرنے کا حق دینا ہوگا بلکہ ایسے اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے جن کے ذریعے تل وطنیوں (دھرتی کے باسیوں) کے معاشی مفادات کا تحفظ ممکن ہو سکے۔

ریاست کو سمجھنا ہو گا کہ مادری زبانوں اور تل وطنیوں کو ان کے حقوق دینے سے وفاق پاکستان کمزور نہیں بلکہ طاقت ور ہو گا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان اقدامات کو اٹھانے میں کیا امر مانع ہے؟

ماں بولی کے حقوق کی بات کرنے والے اس سوال کا ایک جواب تو یہ دیتے ہیں کہ پاکستان کا ایلیٹ پنجابی طبقہ تل وطنیوں کو ان کے حقوق دینے کے لیے تیار نہیں۔ہماری پنجابی اشرافیہ دو قومیتوں کے کلاسیکی نظریے کی ٹھیکے دار ہے اور اسے لگتا ہے کہ نفاذ اردو کا عمل ہی "ایک مذہب"، "ایک زبان"، اور "ایک قوم" وغیرہ کے بیانیے کا ضامن ہو سکتا ہے۔

یہ رویہ درست نہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ پنجابی ایلیٹ کو سندھیوں، سرائیکیوں، بلوچوں اور پختونوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (مصیبت میں ماں بولی ہی یاد آتی ہے، ویڈیو دیکھیے)۔

لیکن پھر ایسا کیوں ہے کہ ماں بولی اور تل وطنیوں کے حقوق کی تحریکیں این جی اوز اور نام نہاد دانشوروں تک ہی محدود ہیں؟ مادری زبانوں کی نظریاتی سیاست بیلٹ باکس کی حقیقی سیاست کے سامنے کچھ نہیں کر پاتی۔

خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی جیسی روایتی جماعت کو منتخب کیا جاتا ہے، سندھ آج بھی بے رحم وڈیروں کے رحم و کرم پر ہے اور متوقع سرائیکی صوبے میں ن لیگ کی ہٹ دھرم سیاست کے سامنے ہتھیار ڈال دیے جاتے ہیں، اور ماں بولی کا درد 21 فروری تک محدود ہو جاتا ہے۔

میرے خیال میں مادری زبانوں کے بارے میں مؤثر سیاسی عزم کی عدم تشکیل کا ایک بڑا سبب تو یہ ہے لوگوں کی اکثریت ماں بولی اور قومیت پرستی کے غیر فطری اختلاط سے متفق نہیں۔ ہم نے ہندو بنیے کی فاشسٹ قومیت پرستی سے جان چھڑوائی اور پاکستانیت کے جنون میں بنگالیوں کے ساتھ وہ سلوک کیا کہ ہندوؤں کو بھی مات دے دی۔ بنگالی نیشنلزم چٹاگانگ کے پہاڑی قبیلوں کے لیے ویسا ہی ہے جیسا بھارت ماتا کے لیے کشمیر۔

اور تو اور پنجابیوں کو گالی دینے والی بنگالی ایلیٹ اپنے فائدے کے لیے پنجابی کاروباری حضرات کو سستی (بنگالی) لیبر سمیت ہر سہولت دینے کے لیے آمادہ ہے، بس نوٹوں کی بارش ہونی چاہیے۔ میں اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ زبان تہذیب اور قوموں کی بنیادی شناخت ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال ہندوستانی مسلمان ہیں جو آج بھی اردو کو اپنی شناخت مانتے ہیں۔ وہ لکھنؤ اور دلی کا مسلمان ہو یا پھر کلکتہ، مدراس یا حیدرآباد وغیرہ کا، جب اسے ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اردو اوڑھ کر احتجاج کرنے کو نکلتا ہے۔

لیکن ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بھارتی مسلم لیڈر اردو کو مزاحمت کا ذریعہ بنا کر ان فرسودہ اقدار کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں جو ان کی "قوم" کو ہمیشہ پسماندہ ہی رکھیں گی۔

پاکستان میں صورتحال بہت مختلف ہے۔ یہاں اردو، پاکستانیت اور قوم پرستی کا تجربہ زیادہ حقیقی اورعملی ہے۔ میرے خیال یہاں ایسے سرائیکی، سندھی، پختون یا پنجابی نیشنلزم کو کبھی عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہو سکے گی کہ جس کی آڑ میں فرسودہ اور خیالی اقدار کو فروغ دینے کی بات کی جا رہی ہو۔

پاکستان کی سیاست تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ملک میں جمہوریت کا مضبوط ہونا بذات خود پاکستانی نیشنلزم کے اس تصور کو کمزور بنائے گا کہ جس کا پرچار مارشل لاء کے ادوار میں کیا جاتا رہا ہے۔

پاکستان میں تیزی سے بڑھتا ہوا متوسط طبقہ نئی سیاسی قدروں کو بھی جنم دے رہا ہے اور اس کا ایک ثبوت "نظریاتی سیاست" کی موت ہے۔ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی ناکامی دراصل پنجابی ایلیٹ (مڈل کلاس) کی جیت ہے۔ یہ طبقہ سرمائے کی اس ریل پیل کا حق دار بننے کا دعوے دار ہے جس میں سے پہلے صرف اسے کچھ حصہ ہی دیا جاتا تھا۔

ماں بولی اور تل وطنیوں کے حقوق کے لیے مزاحمت کرنے والے اب پرانی ایسٹبلشمنٹ کے نئے چہروں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس مزاحمت میں انہیں کیا کامیابی حاصل ہوسکتی ہے ٻالخصوص اس صورت میں جب کہ ان کے حمایتی خود ان کے طریقہ کار سے متفق نہ ہوں؟

ہمارا معاشرہ ماں بولی کی ترویج کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا، اس لیے ہمیں ماں بولی کی سیاست کو عملی بنانا ہی پڑے گا۔

آپ سب کو ماں بولی کا عالمی دن مبارک ہو۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر سجاگ ڈاٹ آرگ پر شائع ہوا اور بہ اجازت یہاں دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

آصف Feb 22, 2017 02:48pm
اس مضمو ن کو پڑھنے کے بعد دل و دماغ یہ کہنا چاہتے ہیں... اہل وطن کو ماں بولی کا عالمی دن مبارک ہو! شاندارمضمون پر کاشف کے لئے نیک خواہشات۔۔۔۔