ایک قصہ

آوار زبان کے مشہور شاعر رسول حمزہ توف نے اپنی کتاب “میرا داغستان” میں کئی قصے کہانیاں بیان کی ہیں۔ اسی کتاب میں ایک باب مادری زبان کے بارے میں بھی ہے جس میں انہوں نے ایک قصہ کچھ اس طرح رقم کیا ہے۔

“پیرس سے واپسی پر میں نے مصور کو تلاش کیا۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اس کی ماں ابھی تک زندہ ہے۔ مصور کے عزیز افسردہ چہروں کے ساتھ گاؤں کے ایک مکان میں میرے ارد گرد جمع ہوئے، اپنے اس سپوت کی کہانی سننے کے لیے، جس نے ہمیشہ کے لیے اپنا وطن چھوڑ دیا تھا اور ایک دوسرے شہر میں رہائش اختیار کرلی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے وطن چھوڑنے کا قصور معاف کر دیا تھا اور یہ جان کر ان میں مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی تھی کہ ان کا کھویا ہوا بیٹا ابھی زندہ ہے۔

اچانک اس کی ماں نے مجھ سے ایک سوال کیا، “اس نے تم سے بات چیت تو آوار زبان میں کی ہوگی؟”

“نہیں۔ ہم نے ترجمان کے ذریعے بات چیت کی۔ میں روسی بول رہا تھا اور آپ کا بیٹا فرانسیسی۔” میں نے جواب دیا۔

یہ سنتے ہی ماں نے چہرے پر سیاہ نقاب ڈال لیا جس طرح ہمارے پہاڑوں میں بیٹے کی موت کی خبر سن کر مائیں کرتی ہیں۔ اوپر چھت پر بڑی بوندیں گر رہی تھیں، ہم آوارستان میں تھے، غالباً بہت دور دنیا کے اُس سرے پر پیرس میں داغستان کا وہ بیٹا بھی جو اپنے قصور پر نادم تھا، برستے پانی کی آواز سن رہا ہوگا۔

“رسول تم سے غلطی ہوئی ہے،” ایک طویل خاموشی کے بعد ماں نے کہا، “میرے بیٹے کو مرے ہوئے تو ایک مدت بیت گئی، جس سے تم ملے ہو وہ میرا بیٹا نہ ہوگا، کیوں کہ میرا بیٹا اس زبان کو کبھی نہیں بھلا سکتا جو میں نے، ایک آوار ماں نے اسے سکھائی تھی۔”

پڑھیے: پاکستان میں اقلیتی مادری زبانیں

پس منظر

بعض زبانیں اقوام پر حکمرانی کرتی ہیں اور ان کی اپنی زبانوں پر غالب ہو جاتی ہیں۔ کسی زمانے میں جب فارسی، امراء و افسر شاہی کی زبان تھی تو کہا جاتا تھا “فارسی گھوڑے چاڑھسی” مگر ایک زمانہ وہ بھی آیا کہ فارسی ہمارے خطے میں ماضی کا قصہ بن کر رہ گئی۔ جس کے بارے میں سندھی زبان کے عظیم کلاسیکل شاعر شاہ عبداللطیف نے فرمایا کہ “اگر تم نے فارسی سیکھی تو غلام بن کر رہ جاؤ گے۔”

برِصغیر کی فتح کے بعد جب سندھ میں انگریز عملداروں کی آمد ہوئی تو ان کے لیے یہاں کے مقامی باشندوں کے بارے میں جاننا بہت ضروری تھا۔ اس لیے اس زمانے میں انگزیز انتظامیہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا، کہ سندھ میں تعینات ہونے والا کوئی بھی انگریز عملدار اس وقت تک ملازمت نہیں کرسکتا جب تک وہ سندھی زبان نہیں سیکھ لیتا۔ اسی طرح ان پر یہ لازمی ہو گیا تھا کہ وہ سندھ میں رہنے والوں سے سندھی میں ہی تمام معاملات کو دیکھیں۔

پاکستان میں زبانوں کے حوالے سے تضادات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ہمارے ہاں قومی زبان اردو ہے۔ جبکہ اردو اور ہندی کی بنیاد ایک ہے، جس میں فارسی اور عربی کے الفاظ شامل کر کے اسے اردو کا نام دیا گیا ہے۔ اگر میں کہوں کہ” یہ پانی ہے” اور اسی جملے کو دیوناگری رسم الخط، جو کہ عموماً ہندی کے لیے رائج ہے، میں لکھوں تو اس کا معنی و مفہوم تبدیل نہیں ہوگا۔

پاکستان میں قومی زبان کا تنازع تب شروع ہوا جب سابقہ مشرقی پاکستان کے باشندوں نے بنگلا زبان کو قومی زبان قرار دینے کے لیے پرزور مہم شروع کی۔ اردو زبان اس زمانے میں بھی رابطے کی زبان تو تھی مگر وہ اکثریتی آبادی کی زبان نہیں تھی۔

قائد اعظم محمد علی جناح اردو کے حوالے سے کافی حساس تھے۔ 21 مارچ 1948 کو انہوں نے ڈھاکہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ “میں آپ پر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستانی ریاست کی زبان کوئی اور نہیں اردو ہی ہوگی۔ اگر کوئی گمراہ کرنا چاہتا ہے تو وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ بنا کسی ایک زبان کے کوئی بھی قوم ایک ساتھ اکٹھی رہ کر کام نہیں کر سکتی۔ سو جہاں تک پاکستان کی قومی زبان کا تعلق ہے تو وہ اردو ہی ہو گی۔”

مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے خود یہ تقریر اردو میں نہیں بلکہ انگریزی میں کی تھی۔

پڑھیے قومی زبان صرف ایک کیوں؟

اسی زمانے میں بنگلادیش میں بنگالی کو قومی زبان بنانے کی تحریک شروع کی گئی۔ قائد اعظم نے 24 دسمبر کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کیا۔ اس خطاب کے دوران طلبا نے احتجاج کیا جس کے بعد قائد اعظم نے بنگالی زبان ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور اس میں وزیرِ اعلیٰ خواجہ ناظم الدین اور زبان کمیٹی کے مابین ہونے والے معاہدے کی توثیق کی گئی۔ جس کے تحت بنگالی زبان کو قومی زبان قرار دینے کے سوا تمام مطالبات منظور کیے گئے۔

1952 میں اردو بنگالی تصادم تب تیز ہو گیا جب گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے 27 جنوری کو صرف اردو ہی پاکستان کی قومی زبان ہوگی والے معاملے کو ہوا دی۔ اس حوالے سے آل پارٹیز سینٹرل لینگوئج ایکشن کمیٹی قائم کی گی، جس کی صدارت مولانا بھاشانی نے کی۔ جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ 21 فروری کو بنگلادیش میں ہڑتالیں کی جائیں گی اور ریلیاں نکالی جائیں گی۔

21 فروری 1952 کو طلبا ڈھاکہ یونیورسٹی میں جمع ہوئے، جہاں پر پولیس نے یونیورسٹی کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ محاصرہ توڑنے کے بعد جب طلبہ کی بڑی تعداد بنگال اسمبلی کی جانب بڑھنے لگی تو پولیس نے ان پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 4 طلبہ مارے گئے۔ لہٰذا قومی زبان ایکشن کمیٹی نے عوامی لیگ کے ساتھ مل کر 21 فروری کو مادری زبان کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔

اس کے دو برس بعد 21 فروری کو بنگالی طلبہ تمام رکاوٹیں توڑ کر مادری زبان کا دن منانے کے لیے جمع ہو گئے۔ مادری زبان کے لیے طلبہ کی شروع کی گئی تحریک 1954 میں ایک سیاسی تحریک اختیار کر گئی۔ مشرقی پاکستان میں ہونے والے صوبائی انتخابات میں حکمران جماعت مسلم لیگ یونائیٹڈ فرنٹ سے ہار گئی۔ انتخابات میں شکست کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے بنگالی کو قومی زبان قرار دے دیا۔

اس طرح یونائیٹڈ فرنٹ کی حکومت میں پہلی بار 21 فروری 1956 کو سرکاری سطح پر منایا گیا۔ یونیسکو کی جانب سے 17 نومبر 1999 کو اسے عالمی دن قرار دیا گیا۔ جبکہ اقوام متحدہ کے ادارے نے 2008 میں ایک قرارداد منظور کی جس کے بعد 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن قرار دیا گیا۔

پاکستان میں موجودہ صورتحال

پاکستان میں جو بھی مقامی زبانیں ہیں، انہیں کبھی بھی قومی زبانوں کا درجہ نہیں دیا گیا۔ رئیس امروہوی نے یہ تو کہہ دیا کہ “اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے” مگر ملک میں بسنے والی دیگر اکائیوں نے کئی دہائیوں سے اپنی اپنی زبانوں کے جنازے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔

ہمارے ملک میں بولی جانے والی زبانوں، سندھی، پنجابی، سرائیکی، پشتو، بلوچی اور دیگر زبانوں میں لوک ادب سے لے کر کلاسیکی شاعری اور جدید ادب ملتا ہے مگر پھر بھی ان زبانوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے، جبکہ کوئی بھی زبان نہ تو اعلیٰ ہے اور نہ ہی کمتر ہے۔

زبان کو اہم بنانے کے عوامل، سیاسی اور معاشی ہوتے ہیں۔ آج سے چند دہائیاں قبل ہم انگریزی پر ہی جان نثار کرتے تھے مگر سی پیک کے بعد ہم نے چینی زبان بھی سیکھنی شروع کر دی ہے۔ اس کی اہمیت اس لیے بڑھ گئی ہے کہ ہمارے حکمران یہ جان چکے ہیں کہ آنے والے وقت میں ملکی معیشت کا رشتہ چین سے ہی جڑا رہے گا۔

پڑھیے: زبانوں کی موت، یعنی خزانوں کی موت

دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ایک سے زائد قومی زبانیں ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں 22 زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہے، جن میں سندھی، پنجابی، مراٹھی، ملیالم، تیلگو، ہندی اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔ اسی طرح یورپ کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ایک سے زائد زبانوں کو قومی زبانیں قرار دیا جا چکا ہے۔ مگر وہاں پر اسے سیاسی معاملہ نہیں بنایا گیا بلکہ وہاں پر بسنے والوں کا حق سمجھ کر ایسا کیا گیا ہے۔

چند روز قبل ہی برطانوی ویب سائیٹ موو حب کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے جبکہ سندھی ہمارے ملک کی دوسری بڑی زبان ہے۔

اس حساب سے اردو نہ تو اول نمبر پر ہے اور نہ ہی دوم پر۔ لہٰذا پاکستان میں بسنے والی اکائیوں کے حقیقی لوگ ہی سب سے زیادہ اپنی مادری زبان بولنے والے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں ایک بل پیش کیا گیا تھا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ پاکستان میں 6 زبانوں کو قومی زبانیں قرار دیا جائے۔ مگر بحث مباحثے کے بعد وہ بل دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے منظور نہ ہوسکا، جس سے ہمارے اربابِ اختیار کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی زبانوں کو کتنا اہم سمجھتے ہیں۔

یہاں یہ بات مدِنظر رکھنی چاہیے کہ کسی زبان کو قومی زبان قرار دینے کا مطلب اس کا پورے ملک میں نفاذ نہیں ہے۔ صوبائی اور مقامی زبانیں ذریعہءِ تعلیم اور ان صوبوں کی دفتری زبانیں ہو سکتی ہیں، جبکہ ملکی یا وفاقی سطح پر سرکاری زبانیں انگلش اور اردو کا استعمال قابلِ قبول ہے۔

قومی زبان کی حیثیت دینے سے اس زبان کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور اس کے تحفظ کے لیے کوششیں تیز ہوتی ہیں، اور اس کے بولنے والوں کی زبان کو اپنی زبان تسلیم کر کے ریاست ان سے اپنے تعلق کو مضبوط کر سکتی ہے۔

ہم آج بھی ایک اردو بولنے والی قوم نہیں ہو پائے ہیں کیونکہ اردو بولنے والوں سے زیادہ یہاں دیگر زبانیں بولنے والے بستے ہیں۔ کیا یہ لسانی آمریت نہیں ہے کہ ہم آج بھی ان تمام لوگوں کو اس بات کے لیے مجبور کر رہے ہیں کہ وہ صدیوں سے بولنے والی اپنی زبانوں کو بھلا دیں اور ایک ایسی زبان کو اپنانے لگیں جس سے ان کے اپنے آباؤ اجداد بھی واقف نہ تھے۔

نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ “اگر آپ کسی انسان سے اس زبان میں بات کریں گے جو وہ سمجھتا ہے تو وہ ‎صرف اس کے دماغ تک جائے گی مگر آپ اس سے اس کی ہی زبان میں بات کریں گے تو دل میں اتر جائے گی”۔

پاکستان میں بسنے والی دیگر اکائیوں کو لسانی حقوق دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کبھی کبھی ایک زبان بھی لوگوں کو ایک قوم نہیں بنا پاتی جبکہ کئی زبانیں بولنے والے بھی ایک قوم بن کر جیتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جارج برنارڈ شا کو یہ کہنا نہ پڑتا کہ امریکا اور انگلینڈ دو ایسے ممالک ہیں جو کہ ایک ہی زبان کی بنا پر تقسیم کیے گئے ہیں۔


21 فروری مادری زبانوں کا عالمی دن ہے۔

تبصرے (11) بند ہیں

Faisal Hussain Feb 21, 2017 02:10pm
This topic is waste of time n effort. In fact answer of your question is already hidden in your question. So Please use your effort in a positive way and dn't raise those issues who divide the nation more. URDU IS THE NATIONAL LANGUAGE.
ahmak adamı Feb 21, 2017 03:27pm
I do not agree with you.
Kamran Feb 21, 2017 03:53pm
Strongly agreed, the main reason of Bangal separation was nothing else but imposing Urdu language on them.
Akhtar Hafeez Feb 21, 2017 04:55pm
English America se le ker England or Australia ki ziban hy, Arabi Arab Imarat se le kr Shaam or Lebanon ki Ziban ky mgr phir bhi ye sab alag alag qomen or mumalik hain or inhe ke mulkon me ek se zaid qoami zibane hain mgr phir bhi woh ek he qoam hain.
ali Feb 21, 2017 05:43pm
@Akhtar Hafeez اختر حفیظ کا شکریہ اتنے اچھے مضمون لکھنے کا. مگر اس کا کیا کریں جو سندھ میں بسنے والوں لاکھوں پنجابی، گجراتی، میمنی، دھاتکی اور کئی دوسری زبانوں کے بولنے والوں کو زبردستی سندھی زبان کا بولنے والا رجسٹر کرنے کی مہم میں لگی ہوئے ہیں؟ ایسا پہلے بھی ہوا اور اب بھی ہونے کے پورا اندیشہ ہے، سندھ میں غیر سندھی زبان بولنے والوں کی شناخت ختم کی جا رہی ہے،
Arshad Baloch Feb 21, 2017 07:00pm
Bhot Khoob Likha.. sir G
ARA Feb 21, 2017 09:18pm
Isn't promotion of Punjabi a job of Punjab govt? Isn't promotion of Sindhi a job of Sindh govt? Isn't promotion of Pushto/Pabto a job of KPK govt? Isn't promotion of Balochi a job of Baloch govt? What you are promoting is equivalent of saying: "I spoke Russian and he spoke French". How were you able to understand each other without the knowledge of a common language? I fully agree that we all should be free speak our own language (among 'ourselves'). But, when people from two linguistic groups want to communicate with each other then you need a common language. In Pakistan (right from 1947), only Urdu is the language that could have taken this status.
Ubaid Khanzada Feb 21, 2017 09:47pm
aap k article mn se qoum parsti ki boo arahe hai, Please be positive
Tipu Feb 22, 2017 12:03am
@ali bilkul sahi kaha app nay. Sindhi ko bhi musalat kiya ja raha hay.jahan urdu ki baat hay wo rabtay ki zaban hay aur wahid language hay jo har pakistani bool aur samaj layta hay
Tipu Feb 22, 2017 07:22am
Yahi hoqooq sindh may basnay walay 50% ghair sindhi mother languages ko hasil honay chahiya
Anwer Feb 22, 2017 10:25am
Yes absolutely right if our own language is using just like china every nation is growing up to their own language if speak different languages people are disturbing they dont know whats the perfect way and is easy to study also if you are one nation one language