ہمارے ہاں الفاظ اور اصطلاحات کے مخصوص مفاہیم اور تشریحات کو اتنی بار دہرایا جاتا ہے کہ عام سننے والا ان الفاظ کے اصل مطلب اور حقیقت کو جاننے کی تکلیف ہی نہیں کرتا اور ان کو ہوبہو قبول کر لیتا ہے۔ مثلاً تصاویر، مصوری، فلموں اور ڈراموں میں دل کو صدیوں سے اس طرح پیش کیا جاتا رہا ہے کہ اصل دل دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔

عام اصطلاحات کی حقیقت تب ظاہر ہوتی ہے جب انہیں ٹھوس حالات کے تناظر میں دیکھا جائے، ان کو مخصوص زمان و مکان میں سمجھا جائے، اور مخصوص تاریخی ادوار اور حالات میں دیکھا جائے، مثلاً آدم خوری، غلامی، بغاوت اور ہر نئی ایجاد و فکر کو اس دور میں اسی طرح نہیں لیا گیا جس طرح آج لیا جاتا ہے۔

آج کے دور میں آدم خوری مذہبی و سماجی دونوں طرح سے ایک کبیرہ گناہ ہے، لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں رہا۔ انسان تہذیب و تمدن کے دور میں داخل ہونے سے قبل آدم خوری کرتا رہا ہے۔ "غلامی" جو اس جدید دور میں صرف ناقابل قبول ہی نہیں بلکہ ناقابل برداشت بھی ہے، لیکن ہمیشہ ایسا نہیں سمجھا جاتا تھا، یہاں تک کہ افلاطون اور ارسطو جیسے مفکرین بھی غلامی کو غلط نہیں سمجھتے تھے اور تو اور جدید دنیا کو جمہوریت، آزادی اور امن کے اسباق سکھانے والے امریکا میں تو یہ کل ہی کی بات ہے۔

مگر ہم ماضی کے تصورات کو آج جدید دور کی عینک پہن کر نہیں سمجھ سکتے اور نہ ہی یہ درست طریقہ کار ہے۔ اگر دو ہزار سال قبل غلامی جائز تھی تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آج بھی جائز ہے۔

اسی طرح دہشتگردی ایک ایسا لفظ ہے جو آج بہت مقبولِ عام ہے لیکن اپنے معانی کھو چکا ہے۔ "دہشت" ایک ایسا لفظ ہے جو کبھی استحصال کے خلاف اور آزادی اور جدت کے لیے استعمال کیا جاتا رہا اب (کم از کم 11 ستمبر کے بعد سے) اس کا مطلب بالکل تبدیل ہو چکا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں لفظ "دہشتگردی" کا استعمال ہو رہا ہے مگر آج کل جو کچھ ہو رہا ہے اس کے مفہوم کے لیے لفظ "دہشتگردی" ناکافی ہو گیا ہے۔

پڑھیے: دہشت گردی کیا ہے؟

بین الاقوامی تعلقات اور علمِ سیاسیات کی لغت میں "دہشتگردی" کے لیے کوئی عالمگیر اور متفقہ قانونی تعریف نہیں۔ دہشتگردی کے متعلق عام تعریف فقط پرتشدد کارروائیوں تک محدود ہے یعنی ایسی سرگرمیاں جو خوف (دہشت) پیدا کرنے کے لیے کی جائیں۔ کچھ سماجی و سیاسی مفکر "دہشتگردی" کو غیرقانونی تشدد اور جنگ کا عمل کہتے ہیں۔

سیاسی لغت میں دہشتگردی کے متعلق بیان کی گئی تعریف میں تشدد، طاقت کا استعمال، خوف، دھمکیاں وغیرہ شامل ہیں۔ بہرحال دہشتگردی کی اصطلاح متنازع رہی ہے۔ تاریخ پر سرسری نگاہ ڈال کر دیکھیں تو دنیا کی کئی سامراجی طاقتوں نے دوسرے ممالک پر قبضہ جمانے اور وہاں بغاوت کرنے والوں کو دہشتگرد قرار دیا۔ یہاں تک کہ آزادی پسند نیلسن منڈیلا اور بھگت سنگھ جیسے رہنماؤں کو بھی دہشتگرد قرار دیا گیا۔

سعودی عرب، مصر اور اکثر خلیجی ریاستیں، ان سیاسی جماعتوں کو "دہشتگرد" قرار دیتی ہیں جو پرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے تبدیلی چاہتی ہیں۔ ایسی سرگرمیاں بہت سی سیاسی تنظیمیں کرتی رہی ہیں جو اپنے قومی، مذہبی اور انقلابی مقاصد کے لیے سامراجی حکمرانوں کو دھمکانے، نقصان پہچانے اور خوف پھیلانے کا کام کرتی رہی ہیں۔

لفظ "دہشتگردی" فرانسیسی انقلاب کے بعد وجود پذیر ہوا۔ 1793 میں فرانسیسی بادشاہت کے خاتمے کے بعد نئی فرانسیسی جمہوریہ کی حکومت نے اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے۔ خود ان انقلابیوں نے اپنے آپ کو "دہشت" کے طور بیان کیا اور ان کی پالیسی کو لغت میں "دہشتگردی" لکھا گیا۔ اس وقت یہ ایک ایسی پالیسی تھی جسے ایک منظم حکومت، نہ کہ ایک باغی گروہ، کرتا تھا۔

ایک زمانے میں آکسفورڈ انگلش ڈکشنری نے دہشتگردی کی تعریف اس طرح کی کہ "دہشت و دھونس سے کام لینے والی حکومت"۔ اگر یہ تعریف اب تک قابل استعمال ہوتی تو آج دنیا کی تقریباً تمام حکومتیں دہشتگرد کہلاتیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ تعریف ختم ہو گئی۔ پھر 19 ویں صدی میں روس میں زار شاہی نے انارکسٹوں یا انتشار پسندوں کے خلاف یہی لفظ استعمال کیا۔ پہلی عالمی جنگ سے قبل اس دور کے دانشوروں اور ادیبوں نے دہشتگردی کے مختلف مفہوم بتائے جیسے تشدد، قتل کرنے والا گروہ، واضع سیاسی اہداف والی منظم تحریکیں جیسے آئرش فینین۔

پڑھیے: ٹوٹی کمر کا فسانہ

اہم بات یہ ہے کہ اس وقت کی بہت سی تحاریک، خاص طور پر روس میں، حکومت ابھارتی تھی۔ بعد میں اس اصطلاح کا مفہوم اندرونی دشمنوں کے خلاف سیاسی مقاصد کے تحت حکومت کی طرف سے تشدد کا استعمال ہو گیا۔ یہی کچھ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد ہوتا رہا۔ مگر پھر بھی اس دور کی حکومتوں (جیسا کہ ہٹلر اور مسولینی) کو دہشتگرد نہیں بیان کیا گیا۔

دوسری عالمگیر جنگ کے بعد بہت سی کالونیز (انڈیا، ملائیشیا، فلسطین، کینیا وغیرہ) میں بغاوتیں ہوئیں لیکن تب بھی ان کو دہشتگرد تحریکیں نہیں قرار دیا گیا اور اگر یہ آج ہوتیں تو شاید ان کو دہشتگرد قرار دیا جاتا۔

اس وقت تو نوآبادیاتی نظام کے خلاف دنیا بھر میں ہمدردی پائی جاتی تھی۔ بعد میں ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کے دوراں آئرش ریپبلک آرمی، فلسطینی لبریشن آرگنائیزیشن اور ای ٹی اے جیسی قومی آزادی والی تحریکوں کو دہشتگرد قرار دیا گیا مگر تب بھی اس کا مفہوم تھوڑا سا مختلف تھا۔ صرف 11 ستمبر 2001 پر ہونے والے حملے کے بعد دہشتگردی کی موجودہ اصطلاح عام ہو گئی جو ابھی تک استعمال کی جاتی ہے۔

مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرانسیسی انقلاب کی سربراہی کرنے والا رابس پیرے جو کہ بادشاہت کے خلاف تھا، آئرش بمبار جو کہ جابر برطانوی سلطنت سے آزادی چاہتے تھے، روسی انتشار پسند جو زار شاہی جیسی ظالم شہنشاہیت کے خلاف تھے، بھگت سنگھ، چی گویرا اور نیلسن منڈیلا جو آزادی، امن، برابری، عام تعلیم، صحت، خوشحالی کے لیے لڑے اور نسلی امتیاز، طبقاتی تفریق اور سامراجی قبضے کے خلاف تھے وہ بھی دہشتگرد کہلائے جائیں گے اور مسولینی، ہٹلر جیسے بے رحم، سفاک اور انسان دشمن آمر بھی! کیا یہ دہشتگردی کے اصطلاح کا درست استعمال ہے؟

اسی طرح آج پاکستان، افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور یورپ سمیت بہت سے ممالک میں دہشتگرد حملے کیے جا رہے ہیں کیا آج کے دور کے دہشتگرد اور ماضی کے حریت پسند، جدت پسند اور ترقی پسند ایک جیسے ہیں؟ کیا آزادی، خوشحالی، برابری کے لیے جدوجہد کرنے والے اور آج کے وحشی انتہاپسند ایک جیسے ہیں؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ دونوں میں بہت فرق ہے۔

پڑھیے: دہشت گردی کی صنعت

سیہون میں لال شہباز قلندر کی درگاہ پر حملہ، لاہور میں داتا دربار پر حملہ، بلوچستان میں نورانی پر حملہ اور پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں پر حملہ اور ایسے بہت سے دہشتگردانہ حملے صرف دہشت اور خوف پیدا نہیں کرتے بلکہ یہ بنیادی طور پر ایسی کارروائیاں ہیں جو عقل دشمنی، علم دشمنی، ٹیکنالاجی دشمنی، جدت اور سائنس دشمنی پر مشتمل ہیں۔

عورتوں پر حملے، اسکولوں پر بمباری، بے گناہ طلبہ پر حملے اصل میں دانائی اور سمجھ پر حملے ہیں، تعلیم و تدریس پر وار ہے، جمہوریت، انسانی آزادی اور امن پر وار ہے، اخلاق، تہذیب و تمدن پر حملہ ہے، رواداری، مذہبی ہم آہنگی اورصوفیانہ روایت پر حملہ ہے، مطلب کہ ساری انسانیت پر حملے ہیں۔ اس لیے ایسی کارروائیوں کے لیے "دہشتگردی" کا اصطلاح ناکافی ہے، ان کے لیے بربریت اور درندگی جیسے الفاظ استعمال کیے جانے چاہیئں۔

یہ درندگی ہی ہے جو مذہبی اقلیتوں کو ہدف بناتی ہے، عورتوں کو قید کرتی ہے، ادب، فن، موسیقی، تفریح کو گناہ سمجھتی ہے، جدید تعلیم، سائنس اور جدت اور صحت کی دشمن ہے، ترقی سے نفرت کرتی ہے۔ ایسے اعمال کو پرانی لغت والی "دہشتگردی" کی عینک سے دیکھنا بیوقوفی ہے۔

جو آدمی موسیقی جیسی حسین، نفیس اور روحانی سکون دینے والی چیز کا دشمن ہو، دوسرے مذاہب اور مسلکوں کو ماننے والوں کو کافر کہے اور نئی بات کہنے والوں کو واجب القتل قرار دے، ایسے لوگوں کو صرف وحشی ہی کہا جا سکتا ہے۔

یہ وحشی درندے ہی ہو سکتے ہیں جو زندگی کو جیل بنانا چاہتے ہیں، جو سریلے گیتوں، شاعری، فلموں اور ڈراموں پر بندش لگانا چاہتے ہیں، پیار کی آزادی پر بندش، کائنات، دھرتی اورانسانوں کے پراسرار رازوں سے پردا ہٹانے والی سائنس کو لعنت، جدید ٹیکنالاجی کو بدعت قرار دیتے ہیں، ترقی پر تالے لگانا چاہتے ہیں، سوالات، اعتراضات اور شکوک کو گناہ قرار دیتے ہیں، اس دھرتی اور ساری دنیا سے پیار کرنے پر بندش لگانا چاہتے ہیں، دوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے تعلقات رکھنے پر بندش، خواہشوں اور امنگوں پر بندش، بھرپور زندگی جینے پر بندش، تبدیلی اور جدت پر بندش لگانا چاہتے ہیں۔

جو معصوم بچوں، بے گناہ شہریوں اور کمزور پر حملے کرتے ہوں کیا ایسے درندوں کو "دہشتگرد" کے بجائے ’’وحشی‘‘ کہنا درست نہ ہوگا؟

تبصرے (0) بند ہیں