کراچی: پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی کراچی سے مدینہ جانے والی پرواز پی کے 743 میں اضافی مسافروں کے سوار ہونے کے باعث 7 مسافر 3 گھنٹے سے زائد کی پرواز کے دوران کھڑے رہنے پر مجبور رہے، جو فضائی سفر کے قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

دوسری جانب پی آئی اے انتظامیہ نے اس معاملے کو کچھ زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا کیونکہ اس صورتحال کے ذمہ داران کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

ذرائع کے مطابق پی آئی کا عملہ یعنی پائلٹ، سینئر ایئرہوسٹس اور ٹریفک عملہ اس معاملے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کرتے رہے جبکہ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے مسافروں کی زندگی خطرے میں ڈالنے پر نہ تو ایئرلائن اور نہ ہی اس کے عملے کے خلاف کوئی ایکشن لیا۔

متعدد مرتبہ درخواست کے باوجود بھی پی آئی اے کے ترجمان دانیال گیلانی نے کوئی ٹھوس ردعمل نہیں دیا اور کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی اس معاملے میں ذمہ دار پایا گیا تو پی آئی اے اس کے خلاف ادارے کے قوانین کے تحت سخت ایکشن لے گی۔

مزید پڑھیں:پی آئی اے پروازوں میں 'اینٹی کرپشن گانوں' کی تجویز

بوئنگ 777 ایئرکرافٹ میں جمپ سیٹس کے ساتھ 409 نشستوں کی گنجائش ہوتی ہے، جبکہ پی آئی اے کی کراچی سے مدینہ جانے والی پرواز پی کے 743 میں 416 مسافر سوار تھے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے فضائی سفر کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہوئی کیونکہ ایمرجنسی کی صورت میں نشست کے بغیر مسافروں کو آکسیجن تک رسائی حاصل نہیں ہوتی جبکہ ایمرجنسی انخلاء کی صورت میں بھیڑ کی صورتحال بھی پیدا ہوسکتی تھی۔

ذرائع کے مطابق اضافی مسافروں کو جاری کیے گئے بورڈنگ پاسز بھی ہاتھ سے تحریر کیے گئے تھے، جبکہ گراؤنڈ ٹریفک اسٹاف کو فراہم کی گئی کمپیوٹرائزڈ لسٹ میں بھی اضافی مسافروں کے نام شامل نہیں تھے۔

ذرائع کے مطابق ایک سینئر ایئرہوسٹس حنا تراب کا موقف تھا کہ انھوں نے کپتان کو بتایا کہ کیبن میں کچھ افراتفری ہے کیونکہ مسافروں کی تعداد فہرست سے زیادہ ہے، لیکن پائلٹ نے کہا کہ ان اضافی مسافروں کو ایڈجسٹ کردیں کیونکہ جہاز اس وقت رن وے پر ٹیکسی کر رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:پی آئی اے پریمیئر سروس کا افتتاح

مذکورہ فلائٹ کے پائلٹ کیپٹن انور عادل کا موقف تھا کہ کمپیوٹرائزڈ فہرست میں اضافی مسافروں کا نام نہیں تھا، انھوں نے بتایا، 'ٹیک آف کرنے کے بعد جب میں کاک پٹ سے باہر آیا تو مس تراب نے مجھے اطلاع دی کہ جہاز میں کچھ اضافی مسافر بھی سوار ہیں جنھیں ٹریفک اسٹاف کی جانب سے سوار کرایا گیا۔ میں نے بھی محسوس کیا کہ کچھ لوگ وہ تھے جنھوں نے پرواز سے قبل چیک اِن کاؤنٹر پر جمپ سیٹ سے انکار کیا تھا۔ میں ٹیک آف کرچکا تھا اور طیارے کا دروازہ بند کرنے سے قبل سینئر ایئرہوسٹس نے مجھے اضافی مسافروں کے حوالے سے بھی نہیں بتایا تھا، اس لیے ٹیک آف کے بعد فوری طور پر کراچی ایئرپورٹ پر لینڈنگ کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ اس میں بہت سارا فیول خرچ ہوتا جو ایئرلائن کے مفاد میں نہیں تھا'۔

ذرائیع کے مطابق پروٹوکول قوانین کو اگر دیکھا جائے تو ایسی صورتحال میں طیارے کو واپس ٹرمینل کی طرف موڑ کر اضافی مسافروں کو اتارا جانا چاہیے تھا اور اس کے بعد ہی پرواز جاری رکھی جاسکتی تھی۔

ذرائع نے مزید کہا، 'مدینہ میں اور واپسی میں کراچی کی فلائٹ کے دوران بھی میں اس معاملے کو اجاگر نہیں کرسکا'، انھوں نے بتایا، 'پائلٹ کا اصرار تھا کہ یہ سینئر ایئرہوسٹس کی ذمہ داری تھی کہ وہ مسافروں کی تعداد کو لسٹ سے میچ کرتیں اور انھیں طیارے کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہیے تھا، جبکہ ٹریفک اسٹاف بھی اس معاملے کا ذمہ دار ہے جنھیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے تھا کہ مسافروں کے پاس کمپیوٹرائزڈ بورڈنگ پاس ہوں اور ہاتھ سے لکھے گئے بورڈنگ پاسز کے ساتھ کسی کو بھی طیارے میں سوار ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے'۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ معاملے سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی سفرکو جاری رکھنے کی بظاہر وجہ فیول کا خرچہ بچانا تھا، تاہم عملے نے سفر کے اختتام پر اور کراچی پہنچنے کے بعد بھی اپنی رپورٹ میں ایسی کسی بھی بات کا ذکر نہیں کیا۔

یہ خبر 24 فروری 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں