اقوام متحدہ کے واچ ڈاگ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں ہونے والے تاریخ ساز جوہری معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔

عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے معاہدے کے تحت چند اہم شرائط عائد کی تھیں، جن پر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد امریکا سخت جانچ پڑتال کر رہا ہے۔

فرانسیسی غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کو واچ ڈاگ کی ملنے والی رپورٹ کے مطابق ’ایران نے اپنے موجودہ ہیوی واٹر ریسرچ ری ایکٹر کی تعمیر جاری نہیں رکھی اور یورینیم کی افزودگی اتفاق شدہ 3.67 فیصد سے زائد نہیں کی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایران کا کم افزودہ یورینیم کا ذخیرہ پرامن مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتا تھا جبکہ یورینیم کی مزید افزودگی کے بعد بھی اس کی مقدار 101.7 کلو تھی جو 300 کلو کی طے شدہ سطح سے انتہائی کم تھی۔

سینئر سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ ایران حال ہی میں یورینیم کی طے شدہ حد کے قریب آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’ایران کو کبھی جوہری ہتھیار بنانے نہیں دیں گے‘

جوہری معاہدے کے حوالے سے دوسرا خدشہ ہیوی واٹر کے لیول کی شرط سے متعلق ہے، جو مخصوص قسم کے جوہری ری ایکٹرز میں استعمال ہوتا ہے۔

آئی اے ای اے کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا کہ ایران نے ہیوی واٹر کی اجازت شدہ 130 ٹن کی حد پار نہیں کی ہے۔

نومبر 2016 میں اس ایٹمی واچ ڈاگ نے کہا تھا کہ ایران نے ہیوی واٹر کی 130 ٹن کی سطح پار کرلی ہے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عالمی طاقتوں کے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو ’تاریخ کا بدترین معاہدہ‘ قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: میزائل تجربہ: امریکا کی ایران پر نئی پابندیاں

صدر منتخب ہونے کے بعد اس کے اس موقف میں شدت آگئی اور گزشتہ ہفتے انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایران کو کبھی جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔

ایران اور 6 عالمی قوتوں کے درمیان ہونے والی نیوکلیئر ڈیل پر اسرائیلی وزیراعظم کے خدشات کا جواب دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا اسرائیل کو بے شمار سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سے ایک ایران کے جوہری ہتھیار بنانے کا خدشہ بھی شامل ہے۔

خیال رہے کہ جولائی 2015 میں ایران اور 6 عالمی قوتوں کے درمیان طے پانے والا معاہدے پر عملدرآمد 2016 سے شروع ہوا۔

اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو روکنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا اور توانائی کے حصول کے لیے جوہری مواد کے استعمال کو بین الاقوامی جانچ کے حوالے کردیا تھا۔

تاہم اسرائیلی وزیراعظم سمیت اس معاہدے کے ناقدین اصرار کرتے ہیں کہ جب آئندہ 10 سے 15 سال میں اس کی میعاد ختم ہوجائے گی تو تہران ایک بار پھر جوہری ہتھیار بنانے کا اختیار حاصل کرلے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کو جوہری معاہدہ ختم کرنے نہیں دیں گے، روحانی

29 جنوری کو بھی ایران کی جانب سے درمیانے فاصلے کے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا گیا تھا، جسے وائٹ ہاؤس نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

جبکہ تہران کا موقف تھا کہ اس کا یہ اقدام 2015 میں عالمی قوتوں سے کی گئی نیوکلیئر ڈیل کی خلاف ورزی نہیں۔

ایران کا مؤقف ہے کہ اس کے میزائل تجربات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی نہیں کرتے کیونکہ یہ جوہری اسلحے کی ترسیل کے لیے نہیں بلکہ صرف دفاعی مقصد کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں