کراچی: وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور کراچی کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل شاہد بیگ مرزا کے درمیان ہونے والی ملاقات میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبے میں امن و امان خراب کرنے والے دہشت گردوں اور منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی تیز کی جائے گی۔

وزیراعلیٰ سندھ اور کور کمانڈر کراچی کے درمیان وزیراعلیٰ ہاؤس میں ملاقات ہوئی جس میں ملک میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کے تناظر میں امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔

انھوں نے ملاقات کے دوران فیصلہ کیا کہ کراچی سمیت صوبے کے دیگر حصوں میں دہشتگردوں، ان کے سہولت کاروں اور منشیات فروشوں کے خلاف کارروائی میں تیزی لائی جائے گی۔

اس کے علاوہ ملاقات کے دوران انسداد دہشت گردی کی 8 عدالتوں کو کلفٹن سے کراچی سینٹرل جیل منتقل کرنے کا معاملہ بھی زیر غور آیا اور وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ انھوں نے چیف سیکریٹری کو حکم دیا ہے کہ وہ سندھ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کی روشنی میں ان عدالتوں کو منتقل کرنے کا انتظام کریں۔

وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ 'انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی منتقلی کی صورت میں قیدیوں کو عدالت منتقل کرنے کیلئے تعینات 1500 پولیس اہلکار سیکیورٹی کیلئے حاصل کیے جاسکیں گے کیونکہ اب سے ان قیدیوں کے مقدمات کی سماعت جیل میں ہوگی'۔

اس ملاقات میں لال شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے خود کش دھماکے پر بھی بات چیت کی گئی، اس حملے میں 85 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

وزیراعلیٰ سندھ اور کور کمانڈر کراچی نے واقعے کی تحقیقات میں جاری پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔

مراد علی شاہ نے سیہون دھماکے کے فوری بعد فوج کی حمایت پر کور کمانڈر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ 'اس کیس کو حل کرنے کیلئے پولیس، رینجرز اور انٹیلی جنس ایجنسیز مشترکا کوششیں کررہی ہیں اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جلد حل ہوجائے گا'۔

انھوں نے کہا کہ 'میں حمایت اور تعاون کیلئے آرمز فورسز، پاکستان نیوی اور ایئرفورس کا بھی شکر گزارہوں'۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ میں بہت خوش ہوں کے ہر ایک فرد نے سیہون دھماکے کی مزمت کی ہے اور دہشت گردی کے خلاف سڑکوں پر نکلے، ان میں سول سوسائٹی اور مذہبی اسکالرز بھی شامل ہیں۔

مراد علی شاہ نے سیکیورٹی پلان ترتیب دینے اور اسے دیگر اسٹیک ہولڈرز سے شیئر کرنے کیلئے رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز بھی دی۔

سیہون دھماکے کے الزام میں 100 گرفتار

ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے سیہون دھماکے میں ملوث افراد اور ان کے سہولت کاروں کو گرفت میں لینے کیلئے 3 ٹیمیں تشکیل دی گئیں تھی، جنھوں نے مزار میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں اور موبائل ڈیٹا کے ریکارڈ کی مدد سے مختلف علاقوں سے مجموعی طور پر 100 افراد کو حراست میں لیا ہے۔

ان تین ٹیموں کو پنجاب، بلوچستان اور سندھ سے سیہون دھماکے کہ ذمہ داروں کو گرفتار کرنے کا ٹاس بھی دیا گیا تھا، جنھوں نے اب تک 100 ملزمان کو حراست میں لیا ہے، ان میں 20 افراد کو جوہی، 5 کو مہر، 18 کو لاڑکانہ، 6 کو سیہون اور دیگر 40 کو جامشورو اور دادو کے اضلاع سے حراست میں لیا گیا۔

ان ملزمان کے قبضے سے خود کش جیکٹ بھی برآمد کی گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ حراست میں لیے گئے ملزمان سے تحقیقات کیلئے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے قیام کو کچھ عرصے کیلئے ملتوی کردیا گیا ہے اور اس سے قبل انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ اور انٹیلی جنس ایجنسیز ان ملزمان سے علیحدہ تفتش کریں گی۔

ذرائع کا کہنا کہ آئندہ ہفتے ایک اجلاس متوقع ہے جس میں تمام تحقیقاتی اداروں کے نمائندے شرکت کرکے حاصل ہونے والی معلومات کو شیئر کریں گے۔

علاوہ ازیں گذشتہ روز کراچی کے علاقے سے دو افراد کو گرفتار کیا گیا جو فون پر ایک عمارت میں دھماکے کی منصوبہ بندی کے حوالے سے بات چیت کررہے تھے۔

یہ رپورٹ 25 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں