اسلام آباد: وزیر اعظم نواز شریف نے پابندی میں نرمی کرتے ہوئے گذشتہ برس مئی کے بعد سے بااثر سیاستدانوں اور وفاقی وزراء کے 55 حلقوں میں گیس کنیکشن فراہم کرنے کی منظوری دی۔

تاہم اس طرح کے 35 کیسز اب بھی پائپ لائن میں ہیں، جب کہ وزیراعظم نے 2 غیر رجسٹرڈ علاقوں کو سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کی مرکزی گیس لائن سے جوڑنے کی تجویز کو بھی مسترد کردیا۔

یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سابق حکومت نے 2011 میں قدرتی گیس کی سنگین قلت کے باعث نئے گیس کنیکشنز پر پابندی لگادی تھی۔

وزیر اعظم نے جن انتخابی حلقوں میں گیس فراہمی پر پابندی میں نرمی کی، ان میں وزیر اعظم کے داماد ریٹائرڈ کیپٹن محمد صفدر، جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، وزیر برائے ہاؤسنگ و تعمیرات اکرم خان درانی، وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، وزیر برائے کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن (سی اے ڈی ڈی) طارق فضل چوہدری، وزیر برائے کشمیر اور گلگت بلتستان چوہدری محمد برجیس طاہر، وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب، وزیر برائے نیشنل ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) سائرہ افضل تارڑ، وزیر برائے دفاعی پیداوار رانا تنویر، وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیرعلی، وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمٰن، چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق بابر نواز خان، سابق وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی اور سابق سینیٹر زاہد خان سمیت دیگر سیاستدانوں کے حلقے شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 3 صوبے گیس کی تقسیم کے فارمولے میں تبدیلی کے خلاف

وزیر اعظم نے اپنی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے جن ارکان قومی اسمبلی کے حلقوں میں گیس کنیکشن لگانے کی پابندی میں نرمی کی، ان میں جنید انور چوہدری (این اے 93)، وسیم اختر شیخ (این اے 139)، حاجی محمد اکرم انصاری (این اے 85)، محمد امجد فاروق خان کھوسہ (این اے171)، محمد افضل کھوکر (این اے 128)، محمد ارشد خان لغاری (این اے197)، وحید عالم خان (این اے 127)، رانا محمد حیات خان (این اے 142)، چوہدری بلال احمد ورک (این اے 136)، رانا محمد اسحاق خان (این اے 141)، سردار محمد عرفان ڈوگر (این اے 134)، ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل غلام رسول ساہی (این اے 75)، محمد ثقلین شاہ بخاری (این اے 182)، میاں شاہد حسین خان بھٹی (این اے 103)، ممتاز احمد تارڑ (این اے 108)، میاں محمد فاروق (این اے 80) اور محسن شاہ نواز (این اے 65) شامل ہیں۔

جن افراد کے انتخابی حلقوں میں گیس کنیکشن لگانے کی منظوری پائپ لائن میں ہے، ان میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک، قومی وطن پارٹی (کیو اے ٹی) کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ، وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال، وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی سکندر بوسن، وزیر برائے انسانی حقوق کامران مائیکل، قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی، پی پی پی ایم این اے سید نوید قمر، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایم این اے علی محمد خان، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینیٹر باز محمد خان، مسلم لیگ (ن) کی ایم این اے شازیہ مبشر، مسلم لیگ (ن) خیبرپختونخوا کے صدر پیر صابر شاہ، چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی حفیظ الرحمٰن خان درشک، راؤ محمد اجمل خان، چوہدری ریاض الحق، چوہدری خالد جاوید وڑائچ، محمد طلال چوہدری، میاں محمد فاروق اور صحافی رحیم اللہ یوسف زئی شامل ہیں۔

یہ تفصیلات ایس این جی پی ایل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں خیبرپختونخوا کے ضلع ہری پور کے وکیل جہانگیر جدون کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست کی سماعت کے دوران جمع کرائیں، جو اپنے گاؤں کھولیاں بالا میں گیس کنکشن لگوانا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بائیو گیس نے ستر گھروں کے چولہے روش کردیئے

وکیل نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ وزیر اعظم نے ان منصوبوں کے لیے براہ راست اربوں روپے کے فنڈز بھی جاری کیے۔

کچھ ماہرین کے مطابق وزیر اعظم کی جانب سے ایسے منصوبوں کے لیے براہ راست فنڈز جاری کرنے کی منظوری دیناغیر قانونی ہے۔

ماہرین نے اپنے دلائل کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے 18 اگست 2016 کو دیئے گئے اس حکم نامے کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ آئین وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کو واحد صوابدید پر ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو فنڈز الاٹ کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو وہ غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔

وزیر اعظم کے اختیارات سے متعلق جاری کیے گئے فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ’ وزیراعظم وفاقی کابینہ کو بائی پاس نہیں کرسکتے‘۔

جب اس حوالے سے ایس این جی پی ایل کے قانونی مینیجر علی رخ خٹک سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ جیسا کہ گزشتہ دور حکومت میں جب وزیراعظم کی جانب سے گیس کنیکشنز پر پابندی عائد کی گئی تھی، تب گیس کنیکشنز لگانے کی منظوری کا اختیار صرف وزیراعظم کے ہی پاس تھا۔

اس حوالے سے وزیر اعظم کے ترجمان مصدق ملک، وزیر برائے پیٹرولیم اور قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی اور وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب سے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے اس پر بات کرنے سے گریز کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سجاول میں گیس کے ذخائر کی دریافت

تاہم اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے بتایا کہ وزیر اعظم کو گیس کنیکشنز کی منظوری دینے اور ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

ان کا کہنا تھا ’وزیراعظم کے بعض صوابدیدی اختیارات کو ختم نہیں کیا جاسکتا‘۔

اٹارنی جنرل کے مطابق پارلیمنٹ نے ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ کی منظوری دی اور آئین کے تحت ان فنڈز کو جاری کرنے کے اختیارات صرف وزیراعظم کے پاس ہی ہے۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کے مطابق وزیراعظم نے اپنے مینڈیٹ کے تحت ہی منصوبوں اور فنڈز جاری کرنے کی منظوری دی۔


یہ خبر 25 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں