اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس پر جو بھی فیصلہ آئے گا ہم اسے قبول کریں گے اور عدالت کے خلاف نہیں جائیں گے۔

پاناما لیکس کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ ہونے کے حوالے سے ڈان نیوزکے پروگرام' دوسرا رخ' میں گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ 'ہم نے عدالت اور ججز پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے، ہمیں اپنی عدلیہ پر فخر ہے، ہم نے اس معاملے میں اپنی جانب سے انصاف کے حصول کی بھرپور کوشش کی'۔

پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ' پاناما کیس کے معاملے پر اگر آواز نہ اٹھائی جاتی تو شاید یہ ختم ہو جاتا لیکن میں نے اور میری پارٹی نے ملک کے لیے ایک کوشش کی، اس سلسلے میں پہلے ہم اسمبلی گئے جہاں ہم نے دیکھا کہ ہمارے ساتھ مذاق ہو رہا ہے تو ہم نے سڑکوں پر نکل کر جدوجہد کی۔'

عمران خان کے مطابق اسلام آباد میں ان کی جماعت کے پر امن احتجاج کو روکنے کی کوشش کی گئی، جس کے بعد پی ٹی آئی سپریم کورٹ پہنچی۔

سربراہ پی ٹی آئی نے سوال کیا کہ وہ یا ان کی جماعت اس سے زیادہ ملک کے لیے اور کیا کر سکتے ہیں؟

مزید پڑھیں:پاناما کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

عمران خان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کی جانب سے لندن فلیٹس کی مالک آف شور کمپنیوں کی ملکیت تسلیم کرنے کے بعد پاکستان کے قانون کے مطابق اس طرح کی صورتحال میں اگر آپ سرکاری ملازم ہیں تو آپ کو بتانا ہوگا کہ جائیداد کی خریداری کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟'

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ شریف خاندان کی جائیداد کی ملکیت ثابت ہونے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے اس خریداری کے لیے استعمال ہونے والے پیسے کے ذرائع بتانے تھے اور اس مقصد کے لیے کی جانے والی تقریروں میں وزیراعظم نے بتایا کہ یہ ہمارے فلیٹ ہیں اور ہم نے انھیں کس طرح خریدا، اُس وقت تک انھوں نے بچوں کو خود سے علیحدہ نہیں کیا تھا'۔

عمران خان نے مزید کہا 'اس کے بعد عدالت میں قطری شہزادے کا خط سامنے آگیا جسے اگر عدالت نے مسترد کردیا تو شریف خاندان کا کیس مسترد ہو جاتا ہے کیوں کہ وہ ثابت نہیں کر پائیں گے کہ پیسہ کہاں سے آیا'۔

یہ بھی پڑھیں:پاناما کیس:'اگر ادارے کام کرتے تو کیس سپریم کورٹ نہ آتا'

عمران خان کے مطابق 'اگر قطری شہزادے کا خط تسلیم نہیں کیا جاتا تو اگلا مرحلہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان ہے اور یہی ایف آئی اے کی رپورٹ اور بی بی سی کی ڈاکیومنٹری ہے'۔

چیئرمین تحریک انصاف نے کہا 'اگر شریف خاندان چاہے تو آئی سی آئی جے کے خلاف مقدمہ دائر کرکے اربوں روپے بنا سکتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ سچ کیا ہے۔'

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم 5 رکنی لارجز بینچ نے 23 فروری کو کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

اس موقع پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ فیصلے کا کوئی شارٹ آرڈر جاری نہیں ہو گا بلکہ تفصیلی فیصلہ ہی جاری کیا جائے گا، کیس کا فیصلہ مناسب وقت پر سنایا جائے گا اور 20 سال بعد بھی لوگ کہیں گے کہ یہ فیصلہ قانون کے عین مطابق تھا۔

اس موقع پر جسٹس شیخ عظمت کا کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ قانون کے مطابق کرنا ہے جس نے بھی شور مچانا ہے وہ مچاتا رہے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بننے والا پانچ رکنی نیا لارجر بینچ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت کررہا تھا، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔

31جنوری کو ہونے والی سماعت کے بعد لارجر بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید کو دل کی تکلیف کے باعث سماعت ملتوی کردی گئی تھی جس کا دوبارہ سے آغاز پندرہ روز بعد (15 فروری) سے ہوا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Feb 25, 2017 06:11pm
السلام علیکم: پاناما کیس کی سماعت کے دوران نواز شریف کے وکلا نے ثبوت پیش کیے کہ جہانگیر ترین اور عمران خان کے معاملات مشتبہ ہیں۔ اضافی دستاویزات کے مطابق ’’‘‘جہانگیر ترین نے غیر قانونی طریقے سے شیئرز کی خریداری و فروخت سے متعلق اعترافی بیان دیا، ایف بی آر کی جانب سے جہانگیر ترین کو جاری کیے گئے نوٹس جبکہ عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر ہیں ۔ حکومت نے یہ تمام دستاویزات خود سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہیں۔ اگر ان کے معاملات مشتبہ ہیں تو حکومت سے گزارش ہے کہ اس پر کارروائی کی جائے۔سپریم کورٹ بھی حکومت اور دیگر حکومتی اداروں سے پوچھ سکتی ہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے معاملات مشتبہ ہونے پر ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔ شکریہ۔ خیرخواہ