ایتھنز: یونان کے دارالحکومت ایتھنز میں 17 سال کی تاخیر کے بعد بالآخر پہلی سرکاری مسجد کی تعمیر کا آغاز تو ہوگیا، تاہم شہر کے مسلمان مسجد کی تعمير مکمل ہونے سے متعلق زيادہ پراميد نہيں ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق یونانی ۔ فلسطینی مترجم نصراللہ عابد کا مسجد کی تعمير کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’میں کافی عرصے سے لوگوں کو اس بارے ميں بات چيت کرتے ہوئے سن رہا ہوں، لیکن مجھے اس کا یقین اس وقت آئے گا جب میں اپنی آنکھوں سے دیکھوں گا۔‘

ايتھنز ميں اس وقت کم و بیش 3 لاکھ مسلمان مقيم ہيں، جو شہر ميں گیراجوں میں قائم درجنوں غير سرکاری مساجد ميں نماز ادا کرتے ہيں۔

ایتھنز میں بیس منٹس اور اپارٹمنٹس میں قائم ان غير سرکاری مساجد کا نيٹ ورک پاکستان، افغانستان اور مصر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مسلم تارکين وطن کی آمد کے بعد وجود ميں آيا۔

شہر میں مسلمانوں کی تدفين کے ليے بھی کوئی باقاعدہ نظام نہيں ہے کیونکہ مسلمانوں کے لیے قبرستان کا منصوبہ بھی زیر التوا ہے، جس کے باعث تدفين کے ليے مسلمانوں کو شمال مشرقی يونان کے شہر تھريس جانا پڑتا ہے۔

مسلم ايسوسی ايشن آف يونان کے صدر نعیم الغندور اس صورتحال کو مسلمانوں کی ’تحقیر‘ قرار ديتے ہوئے کہا کہ ’مسلمانوں سے دوسرے درجے کے شہريوں جیسا برتاؤ کیوں جاتا ہے؟‘

ایتھنز کی اس پہلی سرکاری مسجد کی تعمیر کا منصوبہ سال 2000 ميں لانچ کیا گیا تھا تاکہ شہر کے مسلمانوں کے میل جول کو بڑھایا جاسکے۔

مسجد کی تعمیر رواں سال اپریل میں پایہ تکمیل کو پہنچنی ہے، لیکن فی الوقت اس بارے ميں کوئی اطلاع نہيں کہ آيا مسجد طے شدہ تاريخ پر کھل بھی سکے گی، جبکہ میڈیا کو مسجد کی سائٹ پر جانے کی اجازت نہیں۔

ايتھنز کے ڈپٹی ميئر اور مہاجرين سے متعلق امور کے نگراں ليفٹيرس پاپاگياناکس کا کہنا تھا کہ يورپی يونين کے رکن ممالک کے دارالحکومتوں ميں ايتھنز اب وہ واحد شہر ہے، جہاں اب بھی مسلمانوں کے لیے سرکاری مسجد موجود نہيں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر ہمیں انتہا پسندی سے بچنا ہے، تو ہمیں غير سرکاری مساجد کو پروان چرھائے بغیر سرکاری مسجد تعمیر کرنی ہوگی۔‘

لیکن یونان جیسے ملک میں جہاں بااثر آرتھوڈوکس چرچ اور رياست ایک دوسرے سے زیادہ الگ نہیں ہیں، منصوبے کا مکمل ہونا آسان نہیں ہوگا۔

يہی وجہ ہے کہ ايک مسجد کے قيام کے منصوبے کو کافی رکاوٹوں کا سامنا رہا اور ابتدا ميں مسجد کی تعمير کے ليے جس مقام کو چنا گيا، وہاں کئی احتجاجی مظاہرے جاری رہے۔

کئی سال تک جاری رہنے والے مسائل کے بعد 2013 ميں اس منصوبے کو دوبارہ لانچ کيا گيا اور پھر گزشتہ برس اگست ميں يونانی پارليمان ميں رائے شماری اور مسجد کی تعمير کے ليے 9 لاکھ 46 ہزار يورو کی منظوری کے بعد اس منصوبے کو اب آگے بڑھايا جارہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں