سفرنامہءِ جاپان: ایک ملک، ایک کہانی

جاپان: ایک ملک، ایک کہانی

خرم سہیل

جاپان کو طلوع ہوتے سورج کی زمین کہا جاتا ہے۔ لفظ جاپان کے لغوی معنی بھی سورج اور لفظ جاپانی کا مطلب سورج کا سرچشمہ ہے۔ پاکستان کے شاعرِ مشرق علامہ اقبال سے لے کر معروف مزاح نگار ابنِ انشا تک، سب نے اپنی تخلیقات میں جاپان کو بیان کیا ہے۔

ہزاروں برس کے تاریخی پس منظر کا حامل جاپان دوسری جنگ عظیم میں پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا، جب اس کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے۔ یہ شہر جل کر راکھ ہو گئے، مگر قربان جائیے، اس جذبے پر، جس کی اٹھان، یہی راکھ ہے۔ اس راکھ سے ایک عالیشان اور باہمت قوم کا نیا جنم تھا، انہوں نے دنیا کو حیران کر دینے کا عزم کر لیا اور آج تک ان حیرتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

جاپان بھلے ہی دنیائے سائنس و ٹیکنالوجی میں صف اول میں شمار ہوتا ہو مگر اپنی صدیوں پرانی روایات کو اب بھی اسی طرح برقرار رکھے ہوئے ہے—Shutterstock/cowardlion
جاپان بھلے ہی دنیائے سائنس و ٹیکنالوجی میں صف اول میں شمار ہوتا ہو مگر اپنی صدیوں پرانی روایات کو اب بھی اسی طرح برقرار رکھے ہوئے ہے—Shutterstock/cowardlion

پاکستان اور جاپان کے مابین سفارتی تعلقات قائم ہوئے 64 برس ہونے کو آئے ہیں، اس دوران دونوں ممالک کے لوگوں نے ایک دوسرے کے لیے مختلف شعبوں میں بے شمار خدمات سرانجام دیں۔ 60 کی دہائی میں جاپان کے شہنشاہ (اس وقت وہ صرف شہزادے تھے) اکیہیتو اپنی شریک حیات کے ہمراہ پاکستان تشریف لائے۔

سینکڑوں جاپانی تعلیم حاصل کرنے، بالخصوص اردو زبان سیکھنے کی غرض سے پاکستان کی مختلف جامعات میں آتے رہے، ابھی تک ان کی آمد ورفت برقرار ہے۔ اسی طرح پاکستان سے اب تک سینکڑوں طالب علم، اساتذہ، دانشور، صحافی، تاجر اوردیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ جاپان جاتے رہے، ہر ایک نے جاپان کے دورے کو، اپنے اپنے انداز میں قلم بند کیا۔

دنیا بھر میں یہ ملک اپنی ٹیکنالوجی اورگاڑیوں کی وجہ سے مشہور ہے، مگر مجھ پر اس وقت حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، جب میں نے ان کی ثقافتی طرزِ زندگی کے بارے میں جاننا شروع کیا۔ جاپان کی ثقافت میں نفاست کے دبیز رنگ ہیں، جن کی چکا چوند آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ ان کے ہاں صرف شعر و ادب، فلم، تھیٹر، مصوری اور موسیقی میں ہی کمال مہارت نہیں، بلکہ وہ دسترخوان پر کھانے سجائے جانے سے لے کر کاغذ کو کاٹے بغیر کھلونے بنانے تک اپنے ہر کام میں بے حد مہارت رکھتے ہیں۔

جدید جاپان کی ایک تصویر —Shutterstock/ESB Professional
جدید جاپان کی ایک تصویر —Shutterstock/ESB Professional

جاپان کو جاننے کی جستجو میں، مجھے استقامت سے تحقیق کا کام کرنا پڑا۔ ایک مرحلے پر جاپانی قونصل خانے کی طرف سے ملازمت کی پیشکش کے بعد، مجھے جاپان معلوماتی اور ثقافتی مرکز کی ٹیم کا حصہ بھی بنا لیا گیا، جہاں میں 5 برس تک ان کی ثقافت پر تحقیق کی۔ درجنوں کتابیں پڑھیں، متعدد جاپانیوں سے ملاقاتیں کیں، ان کی ثقافت سے بھرپورآگاہی حاصل کی۔ 3 کتابیں لکھیں، جن کا تعلق جاپان کے شعر و ادب اور فن و ثقافت سے تھا۔ مختلف مواقع پر ان کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی، جن میں جاپانیوں اور پاکستانیوں نے بھی شرکت کی۔

ان تین میں سے دو کتابوں کی تقریب کا اہتمام بھی جاپانی قونصل خانے کی طرف سے کیا گیا۔ رواں برس میری جستجو اور جاپان سے وابستگی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئی اور مجھے مزید تحقیق و تصنیف کے لیے جاپان بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا، جاپان پہنچا تو میرے سامنے حیرتوں کا ایک کار جہاں دراز تھا، جس کی دریافت نے مزید بہت کچھ منکشف کیا۔

جاپان: روایت اور جدیدیت کا سنگم

مختلف جزیروں کے مجموعے کا ملک، جس کے چاروں اطراف سمندر ہے۔ سمندری حدود کوریا، امریکا، روس اور چین کے پانیوں سے ملتی ہیں۔ انتظامی تقسیم کے فارمولے کے تحت جاپان 47 صوبوں پر مشتمل ہے، کثیر آبادی والے شہروں میں ٹوکیو سرِفہرست ہے۔ یہ شہر جاپان کا دارالحکومت بھی ہے۔ دنیا کے دس بڑے آبادی والے جاپان کا شمار ہوتا ہے جبکہ ٹوکیو شہر کو دنیا کے مہنگے ترین شہروں شامل کیا جاتا ہے۔

اس ملک کے متعلق مزید کئی ایسی معلومات ہیں، جنہیں جان کر آپ مزید حیرت زدہ رہ جائیں گے، مگر جب آپ جاپان میں موجود ہوں، تو وہاں اس حیرت کی نوعیت دوسری ہوگی۔ ہر شے ریاضی کے اصولوں کے مطابق انتظامی تقسیم کی گئی ہے۔

فرض کریں، آپ ٹوکیو شہر جانا چاہتے ہیں تو ٹوکیو کو بھی، جغرافیائی لحاظ سے 26 ذیلی چھوٹے شہروں میں تقسیم کیا گیا ہے، تاکہ نظامِ حیات کو قائم رکھنے میں آسانی رہے، کیونکہ اگر جاپان کے نظام میں کوئی ایک منٹ تاخیر کا شکار ہوتا ہے تو سمجھ لیں، وہ پورا دن کئی جگہ پر ایک ایک منٹ کے لحاظ سے تاخیر کا شکار ہوگا اور اس کی یہ تاخیر جمع ہو کر ایک بڑی تاخیر میں تبدیل ہو جائے گی۔

جاپان کا دارالحکومت: ٹوکیو

جاپان میں، میرے تین ہفتے کے قیام کے دوران، پہلا پڑاؤ ٹوکیو تھا۔ اس شہر تک پہنچنے کے لیے دو بڑے ہوائی اڈے ہیں، جن کے نام نریتا اور ہنیدا ہیں۔ دونوں مرکزی شہر سے دور ہیں، سمندر کے اوپر مصنوعی زمین کے ذریعے بنائے گئے ہیں، پھر ریلوے کے نظام کی بدولت، انہیں شہر سے جوڑ دیا گیا ہے۔ جاپان کی کرنسی کو ین کہا جاتا ہے، یوں تو کہنے کو پاکستانی اور جاپانی کرنسی کی قیمت یکساں ہے، مگر جاپان کے نظام میں، اس کا استعمال بالکل برعکس ہے۔ وہاں ہر شے سینکڑے سے شروع ہو کر ہزاروں اور لاکھوں میں فٹافٹ جمع ہوتی چلی جاتی ہے۔

جاپان کا دارالحکومت ٹوکیو—ShutterStock/f11photos
جاپان کا دارالحکومت ٹوکیو—ShutterStock/f11photos

تین ہزار ین میں آپ ایئر پورٹ سے مرکزی شہر میں پہنچ سکتے ہیں، اگر ٹیکسی کے ذریعے یہ سفر طے کرنا چاہیں تو یہی خرچہ پندرہ سے بیس ہزار ین میں تبدیل ہو جائے گا۔ مہنگائی کا یہ عالم صرف ٹیکسی کے کرایے تک محدود نہیں بلکہ ہر شے کے ساتھ نتھی ہے۔ ٹوکیو میں کسی دن موسم صاف ہو، سردی کے موسم میں دھوپ نکلی ہوئی ہو اور میری طرح آپ کا کینو یا مالٹا کھانے کو دل چاہے تو صرف ایک کینو ایک ہزار ین میں خرید کر کھا سکتے ہیں۔

کھانے پینے سے لے کر خریداری تک ہر شے مہنگائی کے چنگل میں ہے۔ اسی لیے یہاں سیاح کافی ڈر ڈر کر خریداری کرتے ہیں۔ ریلوے کا نظام بہت فعال ہے، چار مختلف اقسام کی ریلیں زمین کے اوپر اور زیرِ زمین چل رہی ہوتی ہیں، جن کی شاندار مہارت اور وقت کی پابندی کے نظام کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی ذاتی گاڑی خریدنا بیوقوفی محسوس ہوتی ہے۔

میرا قیام ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز کے نزدیک واقع ایک علاقے فوچو میں تھا۔ ایک ہفتے کے معمولات میں روزانہ یونیورسٹی جانا بھی شامل تھا کیونکہ میں ایک مطالعاتی دورے پر تھا اور مجھے جاپان میں اردو زبان کی تدریس، فروغ اورادب کے متعلق تحقیق کرنی تھی۔ اس دوران مجھے ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز کی مختلف جماعتوں میں لیکچر دینے کا موقع ملا۔

جاپانی طلبا بہت شرمیلے ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود کچھ طلبہ نے خود اعتمادی سے گفتگو کی۔ سینئر کلاسز کے طلبہ میں اکثریت نے مجھ سے اردو زبان میں اظہار خیال کیا۔ وہ اپنے نصاب میں میر و غالب سے لے کر قاسمی و منٹو تک، سب کچھ پڑھتے ہیں۔

جن دنوں میں وہاں پہنچا تو شعیب منصور کی فلم ’خدا کے لیے‘ یونیورسٹی میں نمائش کے لیے پیش کی جا رہی تھی، جس کے سب ٹائٹلز جاپانی زبان میں تھے۔ پاکستانی کھانوں کی مہک، لباس کے نمونے اور پاکستان کا ذکر جابجا سنائی دیا۔ پروفیسر مامیا کا کمرا ایک چھوٹا سا پاکستان ہے جس میں چاروں صوبوں کے رنگ نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں۔

ٹوکیو یونیورسٹی، جاپان — ShutterStock/ChunHaoLiao
ٹوکیو یونیورسٹی، جاپان — ShutterStock/ChunHaoLiao

ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز کے شعبہ اردو کے سربراہ ’’پروفیسر ہاگیتا‘‘ نے لاہور کے اورینٹیل کالج سے اردو زبان کی تدریس حاصل کی، تین دہائیوں سے زائد عرصے سے وہ یہاں اردو زبان کی خدمت میں مصروف ہیں۔ سعادت حسن منٹو کے عاشق ہیں، ان کی طرز گفتار سن کر لکھنؤ کا سلیقہ یاد آنے لگتا ہے۔ اسی شعبے سے منسلک پروفیسر مامیا اور پروفیسر اسادہ کی بھی اردو زبان کے لیے گراں قدرخدمات ہیں۔

قیام کے دوران ان ہستیوں سے خوب فیض یاب ہوا۔ میری تحقیق کو آگے بڑھانے میں ان سب کی معاونت شامل رہی۔ اسی جامعہ کے طلبا کے ساتھ چائے خانوں میں غیر رسمی گفتگو بھی رہی۔ بات کیسی بھی ہو، ماحول کوئی بھی ہو، جاپانی دوست، تکلف اور نفاست کا دامن نہیں چھوڑتے۔

ٹوکیو شہر کی سڑکیں، عمارتیں صاف ستھرے، ہریالی سے بھرپور ہیں۔ رات کے منظر میں روشنیاں پورے شہر کو پُرنور کر دیتی ہیں۔ شہر کی ترتیب کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کوئی ایک ایک تنکا ابھی ابھی سلیقے سے رکھ کر گیا ہے۔

صبح کا منظر ہنگامہ پرور ہے، ہزاروں کی تعداد میں لوگ ریل گاڑیوں میں بیٹھ کر اپنی منزلِ مقصود کو جارہے ہوتے ہیں، کوئی دفتر تو کوئی کالج یا یونیورسٹی، ہر کسی کو صرف یہ فکر ہوتی ہے کہ وہ اپنی منزل تک وقت پر پہنچ جائے۔ شام کا منظر تھکا ہوا ہوتا ہے، واپسی پر کوئی ٹرین میں اونگھ رہا ہے تو کوئی نیند سے بھری آنکھوں کے ساتھ منزل تک پہنچنے کا منتظر ہے۔

چار طرح کے ریلوے نظام کے ذریعے پورا ٹوکیو شہر ایک مٹھی میں بند ہے۔ کوئی شخص تاخیر کا شکار نہیں ہو سکتا کیونکہ ریلوے کے نظام میں ایک بج کر دو منٹ پر آنے والی ریل گاڑی مقررہ منٹ پر آ جائے گی، اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ مشین کامقابلہ کر سکتے ہیں، ہر قدم پر یہ مقابلہ دکھائی دیتا ہے۔

اس شہر میں انسان اور مشینیں ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہیں اس تیز رفتار زندگی کو دیکھ کر کبھی گھبراہٹ بھی ہوتی ہے، ہم شاید اس طرز زندگی کے عادی نہیں ہیں۔

ٹوکیو شہر میں کئی خوبصورت میوزیم، مینار، عمارتیں، عبادت گاہیں اور بہت کچھ ہے۔ ایک ہفتے کے قیام میں دور سے اسکائی ٹری دیکھا، جو اس وقت دنیا کے چند بلند ترین میناروں میں سے ایک ہے۔ ٹوکیو ٹاور ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے، جب میں ٹوکیو کے ایک مرکزی علاقے گنزا میں منتقل ہوا تو وہاں سے ٹوکیو ٹاور ہوٹل سے نزدیک تھا۔ رات گئے میں اکیلا اس کو سر کرنے نکلا مگر راستہ بھول گیا۔ ایک جاپانی راہ گیر سے راستہ پوچھا تو وہ مجھے وہاں تک پہنچانے کے لیے تیار ہو گیا۔

رات کے گیارہ بجے اکتوبر کی سردی میں ایک گھنٹہ پیدل چلنے کے بعد ٹوکیو ٹاور پہنچا۔ اسے نظر کا دھوکہ کہتے ہیں، جو چیز ہوٹل سے انتہائی قریب لگ رہی تھی وہ پیدل راستے میں ایک گھنٹے کی مسافت پر تھی۔ ہم دونوں نے ٹوکیو ٹاور پہنچنے کا جشن ایک ایک کپ کافی پی کر منایا۔ ٹوکیو ٹاور کی روشنی میں شہر کا وہ حصہ چکا چوند کے ذریعے آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا۔ اس کا حسن واقعی جادوئی ہے۔

جاپان کے بابائے اردو سے ملاقات

بے شمار ریسٹورینٹس میں جاپانی کھانے بھی کھائے، بڑی چھوٹی عمارتوں کو بھی دیکھا، ان کے قومی نشریاتی ادارے ’این ایچ کے‘ میں اردو سروس والوں سے ملنے بھی گیا۔ وہاں 18 زبانوں کی نشریات کے شعبہ جات ہیں جس میں اردو بھی شامل ہے۔

ٹوکیو میں ایک ہفتے کے قیام کے بعد اگلا پڑاؤ اوساکا شہر تھا مگر حتمی طور پر اس شہر میں رخصتی سے قبل ہماری ملاقات جاپان میں عہدِ حاضر کے بابائے اردو پروفیسر ہیروجی کتاؤکا سے ہوئی۔ ان دنوں وہ ٹوکیو سے قریبی شہر کی دائتوبنکا یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔

جاپان کے بابائے اردو،پروفیسر ہیروجی کتاؤکا— اے پی پی
جاپان کے بابائے اردو،پروفیسر ہیروجی کتاؤکا— اے پی پی

30 برس سے زائد عرصہ بیت جانے کے بعد بھی وہ اردو زبان کی خدمت کر رہے ہیں۔ وہ سینکڑوں طلبہ کو پڑھا چکے اور پاکستانی شعر و ادب کا ایک بڑا حصہ اردو زبان سے جاپانی زبان میں منتقل کر چکے ہیں، جن میں مرزا غالب اور فیض کا مکمل ترجمہ جبکہ سعادت حسن منٹو اور دیگر کئی پاکستانی ادیبوں کے منتخب تراجم شامل ہیں۔ اردو زبان کا ایک جیتا جاگتا عہد، جنہیں ہم سے زیادہ ہمارے ادب کا ادراک ہے۔

جاپان کا شہر ’اوساکا‘ ہمارے’لاہور‘ کا عکس

ٹوکیو سے اوساکا تک دنیا کی تیز ترین ٹرینوں میں شمار’بلٹ ٹرین‘ میں سفر کیا جس کا نام ’نزومی‘ تھا۔ راستے میں جاپان کا دیو ہیکل پہاڑ ’ماؤنٹ فجی‘ بھی دیکھنے کو ملا۔ ٹوکیو اور اوساکا میں پاکستانی تناظر میں فرق کریں تو ٹوکیو کا طرزِ زندگی کراچی جیسا ہے، مصروف اور محتاط انداز گفتگو۔ لیکن اوساکا میں ماحول لاہور جیسا ہے، کھلا ڈھلا اور کافی حد تک دوستانہ، جس کا مظاہرہ کئی بار دیکھنے کو ملا۔

جاپان کا شہر اوساکا —Shutterstock/cowardlion
جاپان کا شہر اوساکا —Shutterstock/cowardlion

اوساکا میں میرے میزبان پروفیسر سویامانے تھے جن کی اردو زبان پر مہارت اہلِ زبان کی طرح ہے۔ وہ صرف اردو زبان سے واقف نہیں بلکہ رواں پنجابی بھی بولتے ہیں اور دونوں زبانوں کو لکھنے پر بھی ملکہ حاصل ہے۔

اوساکا پہنچتے ہی انہوں نے ایک انڈین ہوٹل پر دودھ پتی پلائی۔ اس کے بعد جتنے دن میں اوساکا میں رہا وہ مجھے پاکستانی اور جاپانی کھانے کھلاتے رہے۔ کھانا کوئی بھی ہو دودھ پتی مینیو کا حصہ ضرور ہوتی تھی اور ان کا خلوص میسر، یہ میری خوش قسمتی تھی۔

اوساکا یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز میں تحقیقی معاملات کے لیے ایک ہفتے سے زیادہ آمد و رفت رہی۔ اس دوران شعبہ اردو کے سربراہ پروفیسر متسومورا سے بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ پروفیسر سویامانے کے ذریعے اس یونیورسٹی کے تین میں سے دو کیمپس جہاں اردو زبان کی جماعتیں ہوتی ہیں، وہاں طلبہ کو مخاطب کرنے کا موقع ملا۔

ان میں سے کئی طلبہ تو پاکستان آ بھی چکے ہیں اور وہ پاکستان کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ انہوں نے میر تقی میر اور ناصر کاظمی کی شاعری بھی سنائی۔ وہ تمام باصلاحیت طلبہ ہیں، جن میں سے مستقبل میں پاکستان کا دورہ کرنے کے خواہش مند بھی ہیں۔ پروفیسر کتادا سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے اردو زبان سیکھنے کے علاوہ پنجابی اور سنسکرت زبان کے مابین تعلق دریافت کیا ہے جس پر وہ مزید تحقیق کر رہے ہیں۔

ماؤنٹ فجی — Shutterstock  ESB/Professionals
ماؤنٹ فجی — Shutterstock ESB/Professionals

اوساکا شہر کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ شہر دو رنگوں میں تقسیم ہے۔ ایک جدید اور دوسرا قدیم رنگ، جن کے رویے اور طرزِ زندگی میں بھی فرق ہے مگر بہت باریکی سے جائزہ لینے پر یہ فرق محسوس ہوتا ہے۔ اس شہر میں بھی ٹوکیو کی طرح بازاروں کا ایک جنگل ہے۔

میں نے وہ دوکان بھی دیکھی جس کی ٹوکیو والی شاخ سے پاکستان کے معروف مصور عبدالرحمن چغتائی اپنے برش منگوایا کرتے تھے۔ جاپان کے پہلے نوبل انعام یافتہ ادیب ’’یاسوناری کاواباتا‘‘ کی جائے پیدائش دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا۔

عہدِ حاضر میں عالمی سطح پر مقبول ترین ناول نگار ہاروکی موراکامی کا آبائی علاقہ بھی دیکھا۔ پورے جاپان میں پھیلی، امریکی کافی شاپس اسٹاربکس کی شاخوں کا جال پورے جاپان کی طرح اوساکا میں بھی بچھا ہوا ہے، وہاں کی کافی پر کئی جاپانی دوستوں سے ملاقاتوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکوں گا۔ کافی کے ذائقے میں جاپان کی یادیں گھل مل سی گئی ہیں۔

جاپانی تاریخ میں دو اہم ترین شہر نارا اور کیوٹو

جاپان کے دو مزید اہم اور تاریخی شہروں نارا اور کیوٹو جانے کا موقع ملا جو اوساکا سے قریب ہیں۔ کیوٹو کی یونیورسٹی بھی دیکھی، ان کے کتب خانے کا دورہ بھی کیا۔ پاکستانی ثقافت و ادب پر بے شمار کتابیں دیکھنے کو ملیں۔

اس شہر کی تاریخی طور پر بے حد اہمیت ہے، اس کی خوبصورتی کا راز یہ ہے کہ اس شہر میں ایک مخصوص اونچائی سے زیادہ کوئی عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی اور چند مخصوص رنگوں کے علاوہ دیواروں پر دیگر رنگوں کا استعمال ممنوع ہے۔

جاپان کا شہر نارا —Shutterstock/Sean Pavone
جاپان کا شہر نارا —Shutterstock/Sean Pavone

یہاں کی دیدہ زیب سڑکوں پر اکثر جاپانی عورتیں جاپانی لباس کیمونو پہنے چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں، جس سے شہر کے حسن میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہاں کے پارک، مندر، دریا سب دیکھنے کے قابل ہیں۔ بانس کے درختوں کے جنگل کو دیکھ جاپانی ادب کی لوک کہانیوں کے کردار حافظے میں زندہ ہو جاتے ہیں۔

نارا شہر فطری خوبصورتی کا مظہر ہے۔ یہاں بھی کئی تاریخی مندر اورعمارتیں ہیں۔ اس شہر کی ایک انتہائی خوبصورت اور فطرت سے قریب بات یہ ہے کہ وہاں کچھ مخصوص سڑکوں پر پارکوں میں ہرن چلتے پھرتے دکھائی دیں گے جن کو سیاح اور مقامی افراد بسکٹ وغیرہ بھی کھلارہے ہوتے ہیں۔

یہاں بھی کئی طرح کے چھوٹے بڑے میوزیم ہیں جن میں جاپان کا ماضی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ محفوظ ہے۔ سیاحوں کے لیے اس شہر میں جاپان کی تاریخ کے بارے میں جاننے بلکہ دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔

جاپان کا شہر کیوٹو—Shutterstock/krunja
جاپان کا شہر کیوٹو—Shutterstock/krunja

یہاں ایک بہت بڑی تعداد ایسی دوکانوں کی بھی ہے جہاں سے سیاح اپنی پسند کے معیاری اور کم قیمت تحفے خرید سکتے ہیں۔ یہاں کے فطری حسن کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جدیدیت اور روایت کی سوچ ایک ساتھ بھی پنپ سکتی ہے۔

یہاں اب بھی کئی ایسے ریسٹورینٹس ہیں، جہاں قدیم جاپان کے طرز پر اندرونی ماحول ہے جہاں بیٹھ کر آپ کھانا پینا کر سکتے ہیں۔ اوساکا شہر میں کئی ایسے بھی ریسٹورینٹس ہیں جہاں ٹیبل پر بیٹھے ہوئے، آپ اپنا کھانا خود پکا کرکھاتے ہیں۔

مہذب دنیا کی عملی تصویر اور ہم

جاپانیوں کی اردو زبان سے محبت کا یقین تو جاپان دیکھ کر آ گیا مگر ان کے جاپانی لہجے میں اپنی شیریں زبان کو سماعت کر کے جو لطف آیا وہ بیان سے باہر ہے۔ ان کی مہمان نوازی سے بھی خوب فیض یاب ہوا۔

دھیمے لہجے، مسکان بھرے چہرے، پرکشش نین و نقش کی حامل خواتین نے اس حسین منظرنامے کی رونق کو کچھ اور بڑھاوا دیا۔ مختصر طور پر کہا جاسکتا ہے کہ جاپان ایک ایسی سرزمین ہے جہاں روایت اور جدیدیت ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر چلتی ہیں۔

جاپان میں ایک طرف تاریخ محفوظ ہے تو دوسری طرف مستقبل کو اور زیادہ فتح کرنے کی جدوجہد میں کوشاں جاپانیوں کی زندگی میں وقت کی پابندی ہی سب کچھ ہے، یہ وقت ہی ان کا موسم ہے اور محبوب بھی، اس کے سامنے کسی کی ایک نہیں چلتی، گھڑی کی سوئی سے چلنے والی قوم کی زندگی میں کوئی لمحہ ضایع نہیں ہوتا، بالخصوص ہمارے جیسے معاشروں کی طرح جہاں صرف کسی کو جواب دینے کے لیے بھی کئی روز بڑی آسانی سے ضایع کردیے جاتے ہیں.


بلاگر فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔