زیادہ تر والدین کے لیے وہ لمحہ سب سے خاص ہوتا ہے جب ان کے ہاں پہلی اولاد جنم لیتی ہے۔ یہی وہ دن ہوتا ہے کہ جب وعدوں، خوابوں اور توقعات سے بھرپور سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ والدین امیدیں باندھتے ہیں کہ ان کا نومولود بچہ ہر طرح سے بہتر ہوگا، زندگی میں عظیم اور خوبصورت لمحات اس کا مقدر بنیں، تا کہ وہ اپنا سر فخر سے ہمیشہ بلند رکھیں۔

جس دن میرے ہاں میری پہلی اولاد، میری بیٹی، عالیہ نے جنم لیا وہ دن میرے لیے ایک غیر معمولی دن تھا، مگر مذکورہ وجوہات کی بنا پر نہیں۔ حمل کے چند منٹوں بعد ہی مجھے بتایا گیا کہ میری بیٹی کو ڈاؤن سنڈروم ہے۔ میں ’ہر طرح سے بہتر’ بچے کے سارے خواب اور توقعات کھو چکی تھی۔

یہ حقیقت نہیں ہو سکتی۔ ایسا ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوا؟ میں کس طرح ایک ایسے بچے کو سنبھال پاؤں گی جو ذہنی طور پر معذور ہے؟ ایک ایسا بچہ جو ہمیشہ مجھ پر منحصر رہے گا، جس کا لوگ مذاق اڑائیں گے، جو بڑا ہو کر کبھی بھی شادی نہیں کر پائے اور نہ ہی اس کے اپنے بچے ہوں گے۔ اس میں موجود ان تمام محرومیوں کے باوجود کیا میں اسے محبت کرنے کی ہمت کر پاؤں گی؟

6 برس کے عرصے کے بعد آج کی بات کرتے ہیں۔ آج مجھے یہ پتہ ہے کہ میرا ابتدائی خوف اور فکریں سراسر غلط تھیں۔ دراصل وہ ان فرسودہ سوچ و خیالات کا ثمر تھیں جو ہمارے معاشرے میں ذہنی امراض سے جڑے ہیں۔

وہ چاہے جہاں بھی جائے، ہمیشہ مسکراہٹوں اور توانائی سے بھرپور رہتی ہے۔۔
وہ چاہے جہاں بھی جائے، ہمیشہ مسکراہٹوں اور توانائی سے بھرپور رہتی ہے۔۔

عالیہ جب بڑی ہوگی تب کیا وہ اس قدر خود انحصار ہو جائے گی کہ وہ کالج اور یونیورسٹی جا سکے؟ شاید۔ کیا وہ کہیں کام کر کے اپنی زندگی کا چرخہ خود چلا سکے گی؟ کیا وہ کسی دن کسی کو پسند کرے گی اور شادی کرے گی؟ ممکن ہے ایسا ہو۔ کیا میں ان تمام چیلنجز کے باوجود اس سے محبت کرنے کی ہمت پیدا کر پاؤں گی جن کا سامنا کسی بھی اضافی ضروریات کے حامل بچوں کو پالتے وقت ہوتا ہے؟ بالکل۔ اس کا وجود میری زندگی میں دشواری کا ذرا برابر بھی باعث نہیں۔

کراچی ڈاؤن سنڈروم پروگرام (کے ڈی ایس پی) کی تشکیل کا باعث عالیہ اور ڈاؤن سنڈروم سے متاثر چند دیگر افراد بنے، کے ڈی ایس پی ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جسے والدین کے ایک گروپ اور ایسے افراد کی جانب سے قائم کیا گیا ہے جو ایسی دنیا تخلیق کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں جہاں ڈاؤن سنڈروم سے متاثرہ ہر شخص معاشرے کے مہذب افراد کی طرح قابل قبول ہوں، معاشرے کا حصہ ہوں اور ہر جگہ معاشرے کے کسی مہذب فرد کی طرح انہیں باخوشی قبول کیا جائے۔

جب میری بیٹی پیدا ہوئی تھی تب مجھے اس سنڈروم کے حوالے سے کسی قسم کی سپورٹ کی کمی کا شدت سے احساس ہوا۔ کے ڈی ایس اس محرومی کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے؛ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ڈاؤن سنڈروم سے متاثرہ کوئی بھی شخص — ان کے والدین، بہن یا بھائی اور ایسے افراد جنہیں ڈاؤن سنڈروم لاحق ہے وہ خود — آ سکتے ہیں اور ایک ایسی برادری کا حصہ بن سکتے ہیں جو ایسے افراد کی معاشرے کے مرکزی دھارے میں شمولیت کے لیے متحرک ہے اور سنڈروم سے متاثرہ افراد کی میڈیکل علاج، تعلیم، اور ہنری تربیت وغیرہ کے ذریعے مدد کرتی ہے۔

21 مارچ کو عالمی یومِ ڈاؤن سنڈروم کے موقعے کی مناسبت سے ہر سال کے ڈی ایس پی آگاہی مہم چلاتی ہے۔ جس کا مقصد معاشرے میں ایسے افراد کا معاشرتی امتیاز ختم کرنا ہے۔ موجودہ دور میں اضافی ضروریات کے حامل افراد کو معاشرے میں زیادہ سے زیادہ قبولیت کی اشد ضرورت ہے۔

گھر میں موجود اضافی توجہ کے حامل فرد کی موجودگی سے پیدا ہونے والے عملی چیلنجز سے نمٹنا آسان نہیں ہے مگر سب سے زیادہ ہمارے دماغوں میں بسے فرسودہ خیالات اور تعصب، سماجی دباؤ، اور اس سے پیدا ہونے والی جذباتی ناتوائی، ہمیں ہمت سے محروم کر دیتی ہے۔

اعالیہ اپنی پسندیدہ جگہ، یعنی کھلونوں کی دکان پر تصویر کھنچوارہی ہے۔
اعالیہ اپنی پسندیدہ جگہ، یعنی کھلونوں کی دکان پر تصویر کھنچوارہی ہے۔

یہ جاننا ضروری ہے کہ معاشرے میں سنڈروم سے متاثر افراد کی قبولیت کس طرح ہونی چاہیے۔ اس کا مقصد یہ قطعی طور پر نہیں کہ ڈاؤن سنڈروم سے متاثر افراد کی جانب ہمدردی اور رحمدلی کا احساس رکھا جائے بلکہ یہ تو انہیں مزید بے اختیار بنانے کا باعث بنے گا۔

کے ڈی ایس پی میں جب نئی گھرانے ہمارے پاس آتے ہیں، تب ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ان کے بچے کا اضافی کروموزوم کس قدر طلسماتی خوبیاں رکھتا ہے اور کس طرح ان کا بچہ ان کی زندگیوں میں بہتر تبدیلیاں رونما کرنے میں مدد کرے گا۔ ان لفظوں میں زبردست حقیقت ہے مگر اس کے ساتھ زندگی کے اس بہتر موڑ تک پہنچنا کا سفر ایک دشوار چیلنج ضرور ہے۔

ایسے گھرانوں کو ناامیدی، حسد، مایوسی، شرمندگی جیسی تمام منفی جذبات کو شکست دینی چاہیے۔ ہم انہیں بتاتے ہیں کہ بیزار ہونے کے بجائے، انہیں اس پورے معاملے کو دوسرے نظریے سے دیکھنا چاہیے — انہیں زندگی کو اپنے بچے کی آنکھ سے دیکھنا چاہیے۔

ڈاؤن سنڈروم سے متاثر بچے اپنی محبت کے اظہار میں ذرا سی بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ ہر نئے دن وہ آپ سے باخوشی اور پرجوشی سے ملتے ہیں۔ ان میں ہمدردی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ کسی قسم کے خفیہ ایجنڈے نہیں رکھتے۔ وہ خالص احساسات کے مالک ہیں۔ اور ہمارے ماہر استاد ثابت ہوتے ہیں جو ہمیں سکھاتے ہیں کہ زندگی میں شامل چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوشیوں کو کس طرح تلاش کرنا ہے، جو صرف گہرائی سے دیکھنے پر ہی نظر آتی ہیں۔ میں بھلے ہی عالیہ کی مَمَا ہوں مگر وہ میری عظیم ترین استانی ہے۔

عالیہ مختلف سرگرمیوں سے کافی محظوظ ہوتی ہے ان میں سے ایک پیانو بجانا ہے۔
عالیہ مختلف سرگرمیوں سے کافی محظوظ ہوتی ہے ان میں سے ایک پیانو بجانا ہے۔

جب چھوٹے بچوں والدین کے ڈی ایس پی کا رخ کرتے ہیں تو بڑے بچے سے بات چیت کرتے ہیں، تب میں انہیں بڑے بچوں کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہوئے دیکھتی ہوں۔ میں انہیں یہ اندازہ لگاتے ہوئے محسوس کر سکتی ہوں کہ اگر ان کا بچہ ان کے سامنے کھڑے بڑے بچے کی طرح جب بڑا ہوگا تو کیا وہ ان کا خیال رکھ پائیں گے۔

مجھے یہ سب اس لیے معلوم ہے کیونکہ میں خود بھی اس مرحلے سے گزر چکی ہوں۔ میں ان کے خوف اور غیر یقینی کیفیتوں سے آشنا ہوں۔ آخر ہم سب انسان ہی تو ہیں۔

میں خود سے پوچھتی کہ چونکہ عالیہ کے اپنے دوست نہیں ہوں گے اس لیے میں جب بھی اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں بھی جاؤں گی تو میرے ساتھ ہمیشہ میری بیٹی ہوگی تو کہیں یہ بات میرے لیے مایوسی کا باعث تو نہیں بنے گی۔ میں اپنے بچے کے بارے میں اس طرح سوچنے پر بھی شرمساری محسوس کرتی ہوں۔ میں خود سے پوچھتی کہ دیگر لوگوں کے آگے منہ سے بہتی رال کے ساتھ اس کا دھیمے انداز میں بات کرنا اور اسے لوگوں سے کم اہمیت ملنا میرے لیے ناقابل برداشت تو نہیں ہوگا۔ میں نے ایسی باتوں کے بارے میں اندازے لگائے اور کافی پریشان ہوئی۔ اور اب ان باتوں سے جان چھڑا چکی ہوں۔

جو وہ ہے سو ہے اور جو ہوگا سو ہوگا۔ وہ اور اس کی چھوٹی بہن میرا پیار، میری زندگی، میرا فخر اور خوشیاں ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے کسی دوسری سے تھوڑا سا بھی فرق نہیں پڑتا۔ سو لفظوں کی ایک بات یہ کہ مجھے کسی دوسری چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں