راولپنڈی: پنجاب پولیس نے ضلع راولپنڈی کی تحصیل کلر سیداں کے قریب واقع گاؤں میں طیارہ تباہ ہونے کی جھوٹی اطلاع دینے والے شخص کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔

یاد رہے کہ بدھ (22 مارچ) کی شب ایک شخص نے ایمرجنسی سروس ریسکیو 1122 کو فون پر جھوٹی اطلاع دی کہ کلر سیداں کے قریب مارا سنگال گف گاؤں میں ایک طیارہ گر کر تباہ ہوگیا ہے، جس کے بعد کافی دیر تک طیارے کا ملبہ تلاش کیا جاتا رہا اور اس طرح ریسکیو سروس کا نہ صرف وقت ضائع ہوا بلکہ وسائل بھی استعمال ہوئے۔

رپورٹس کے مطابق 22 مارچ کی شب 7 بجکر 54 منٹ پر ریسکیو 1122 کو ایک شخص کی جانب سے طیارہ تباہ ہونے کی اطلاع ملی، جس کے بعد کلر سیداں کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر انسپکٹر خضر حیات کی سربراہی میں ایک پولیس ٹیم پہنچی اور طیارے کا ملبہ تلاش کرنے کا آغاز کیا گیا تاہم انھیں ناکامی ہوئی۔

دوسری جانب ایوی ایشن ذرائع نے بھی کسی طیارے کے تباہ ہونے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا ہی نہیں۔

اُسی رات ریسکیو 1122 نے ایک ابتدائی رپورٹ جاری کی، جس میں فون کال کرنے والے شخص کے دعویٰ کی بنیاد پر بتایا گیا کہ ایک طیارہ تباہ ہوا، لیکن رات 10 بجکر 14 منٹ پر ایمرجنسی سروس نے بھی تصدیق کردی کہ انھیں جہاز کا کوئی حصہ نہیں ملا۔

بجائے اس کے ریسکیو 1122 کے ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر ڈاکٹر عبدالرحمٰن نے تصدیق کی کہ ایمرجنسی سروس کے عملے نے بھاری آلات کے ساتھ جھاڑیوں میں لگی آگ بجھائی۔

بعدازاں ریسکیو 1122 کے اسٹیشن کوآرڈینیٹر حارث فاروق نے پولیس اسٹیشن میں ایک ایف آئی آر درج کروائی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ 22 مارچ کی رات 7 بجکر 54 منٹ پر ایک فون کال کے ذریعے ایمرجنسی سروس کو بتایا گیا کہ مارا سنگال گف گاؤں میں ایک طیارہ تباہ ہوگیا ہے۔

حارث فاروق کا کہنا تھا کہ اطلاع ملتے ہی آگ بجھانے والی گاڑیاں، ایمبولینسز اور ریسکیو عہدیداروں کو جائے وقوع پر بھیجا گیا، جہاں انھیں پتہ چلا کہ کوئی طیارہ نہیں گرا بلکہ جھاڑیوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مبینہ جھوٹی اطلاع سے ریسکیو سروس کے وسائل اور گاڑیوں کا استعمال ہوا۔

دوسری جانب ایف آئی آر میں نامزد کیے گئے ملزم کو تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا۔

یہ خبر 24 مارچ 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ڈاکٹر افضال ملک Mar 25, 2017 01:47am
پولیس پر بداعتمادی کے باعث پہلے ہی عوام کسی اہم واقعہ کی اطلاع یا آنکھوں دیکھنے کے باوجود گواہی دینے کیلئے سامنے نہیں آتے ۔ اسکی وجہ سبھی جانتے ہیں کہ پہلے تو گواہی دینے والے کو ہی بٹھا لیا جاتا ہے کہ آپ وہاں کیا کر رہے تھے کیوں کر رہے تھے ؟؟ اسی طرح کلرسیداں میں اگر کسی شخص نے پورے جنگل میں آگ لگنے اور ناقص العقل ہونے یا کسی افواہ کو سن کر طیارہ گرنے کا خدشہ ظاہر کر دیا اور ایمرجنسی اداروں کو ’’بروقت‘‘ اطلاع دیدی تو مسئلہ صرف آگ کو بڑھنے سے بچانا تھا۔۔۔۔ عوامی حلقوں میں اسے ذمہ داری قرار دیا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی بھی اہم واقعہ یا انہونی ہونے کی صورت میں انتظامیہ یا متعلقہ اداروں کو اطلاع دی جائے یا اپنی آنکھیں ‘ کان اور زبان بند کر لئے جائیں ؟؟ انتظامیہ کو عوام کی ذمہ داری کا کریڈٹ دینا چاہئے ‘ جھوٹی اطلاع اور ناقص اطلاع میں بہت بڑا فرق ہے ۔ عوامی حلقوں کے مطابق اگر آگ لگی ہوئی تھی تو ایسی اطلاع کو کم عقلی لیکن ذمہ داری قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ جرم ہے تو آئندہ اطلاع کون دیگا ؟؟ جھوٹی اطلاعات پر یقیناً کارروائی ہونی چاہئے لیکن عوام کی حوصلہ شکنی نہیں۔