اسلام آباد: پاناما اسکینڈل کیس کی طویل سماعتوں کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلے کو محفوظ کیے ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے، اور سب کو فیصلے کا بے چینی اور بے صبری سے انتظار ہے، چونکہ کوئی فیصلے کے اجراء کے حوالے سے کچھ نہیں جانتا تو اس لیے بھی تجسس بڑھتا ہی جا رہا ہے کہ یہ کب سامنے آئے گا۔

سینیئر وکیل شاہد حامد کو جب اس کیس کے فیصلے کے اجراء کے حوالے سے بات کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ اس وقت اس پربات کرنے کے قابل نہیں۔

انہوں نے سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ کی جانب سے سماعت شروع کرنے سے قبل وزیر اعظم کی بیٹی مریم نواز، ان کے شوہر ریٹائرڈ کیپٹن صفدر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی نمائندگی کی تھی۔

شاہد حامد کا کہنا تھا کہ فیصلہ تاخیر کے بجائے جلد آئے تو بہتر ہوگا، تاہم فیصلے کے لیے عدالت کا کوئی ٹائم فریم نہیں ہےکہ وہ اس حوالے سے کب فیصلہ سناتی ہے۔

یاد رہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کی بینچ نے طویل سماعتوں کے بعد گزشتہ ماہ 23 فروری کو فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیس کا فیصلہ مناسب وقت پر سنایا جائے گا اور 20 سال کے بعد بھی لوگ کہیں گے کہ یہ فیصلہ قانون کے عین مطابق تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ

پاناما کیس کے سلسلے میں مختلف درخواست گزاروں نے پٹیشنز دائر کی تھی، جن میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور شیخ رشید احمد بھی شامل ہیں، جو وزیر اعظم کی جانب سے 5 اپریل کو قوم سے خطاب اور 16 مئی 2016 کو قومی اسمبلی میں کیے گیے خطاب میں مبینہ طور پر غلط بیانی کی بنیاد پر وزیراعظم کی نااہلی کے خواہاں تھے۔

عمران خان نے حال ہی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ پاناما کیس پر آئندہ ہفتے فیصلے آنے کا امکان ہے، مگر ان کے ترجمان فواد چوہدری نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آئندہ ہفتے کے لیے جاری کی گئی کاز لسٹ میں پاناما کیس کے فیصلے سنائے جانے کے اشارے نہیں ملتے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس پر یومیہ بنیادوں پر سماعت تحریک انصاف کی درخواست کی توثیق تھی، جسے عوام نے پسند کیا، مگر انہوں نے ایک ماہ سے زائد عرصے سے کیس کا فیصلہ نہ سنانے پر مایوسی کا اظہار کیا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ فیصلے کی تاخیر سے قوم ذہنی تناؤ کا شکار ہے، اورعوام کی پریشانی دور کرنے کے لیے ابتدائی فیصلے کے اعلان کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: پاناما کیس کے حوالے سے قیاس آرائیاں عروج پر

دوسری جانب وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ فیصلے سے متعلق کسی کو قیاس آرائیاں نہیں کرنی چاہئیے کیوں کہ سپریم کورٹ آئین و قانون کے تحت فیصلہ کرنے میں خودمختار اور آزاد ہے۔

مگر ان کے مطابق یہ تحریک انصاف کی جانب سے مسئلے کو غیر قانونی طور پر سیاست زدہ کرنے سے بہتر ہے، کیوں کہ انہوں نے سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے اعلیٰ عدالت کے کندھوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ صرف پاکستانی عوام اور جمہوریت کو حق حاصل ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ ملک پر حکمرانی کرنے کا حق کس پارٹی کو ہے۔

فل کورٹ ریفرنس

قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ پاناما کیس کے فیصلے کے حوالے سے آئندہ 2 ہفتے نہایت ہی اہم ہیں۔

خاص طور پر اس کیس کی سماعت کرنے والے 5 رکنی بینچز کے معزز ججز کا 31 مارچ کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس امیر ہانی مسلم کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ہونے والے فل ریفرنس کورٹ میں ایک ساتھ شرکت کرنا اہم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس فیصلے پر قیاس آرائیاں: وزیراعظم کا انتباہ

کیوں کہ اس سے قبل بینچ میں شامل کچھ ججز کبھی لاہور تو کبھی کراچی میں ملتے رہے ہیں، مگر فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد پہلی بار یہ سب اسلام آبا دمیں ایک ساتھ ہوں گے، اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ججز کے لیے فیصلے کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کے لیے اچھا موقع ہوگا۔

پاناما اسکینڈل کیس کی سماعتیں مکمل ہونے کے بعد یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ ملکی تاریخ کا اہم ترین فیصلہ ہوگا۔

ماہرین کا خیال ہے کہ بینچ میں شامل تمام ججز فیصلے میں اپنے اضافی نوٹ لکھنے میں مصروف ہوں گے، جب کہ ماہرین کو یقین ہے کہ کیس کا مرکزی فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ لکھیں گے۔


یہ خبر 26 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں