میاں میر: شہنشاہوں کے روحانی استاد

میاں میر: شہنشاہوں کے روحانی استاد

ابراہیم کنبھر

کچھ عرصہ قبل میں جب امرتسر گولڈن ٹیمپل گیا تو وہاں ہری مندر صاحب کی انتظامی کمیٹی نے ہمیں گولڈن ٹیمپل کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سکھوں کی اس مقدس عبادتگاہ کا سنگِ بنیاد سندھ کے ایک صوفی بزرگ میاں میر محمد سندھی القادری نے رکھا تھا۔

میاں میر سیہون میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام میر محمد تھا۔ وہ آگے چل کر اسلام اور سکھ مت کی ہم آہنگی کی علامت بن گئے۔ آج بھی سکھ مت کے پیروکار قلندر کی نگری کے اس بزرگ سے اپنے گروؤں جتنی عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔

آپ لاہور کی مشہور انفینٹری سڑک سے گذریں گے تو آپ کو یہ سڑک ایک چھوٹے راستے تک لے جاتی جو میاں میر روڈ کے نام سے مقبول عام ہے۔ میاں میر روڈ، میاں میر ہسپتال، میاں میر اسکول، میاں میر بلڈنگ، میان میر گلی، یہاں تک کہ انگریز دور میں یہ علاقہ میاں میر چھاؤنی کے نام سے مشپور تھا۔

میاں میر 25 برس کی عمر میں سیہون سے نکلے اور لاہور میں سکونت اختیار کر لی۔ ان کی پرہیزگاری اور تقوی کا یہ عالم تھا کہ اپنے دور کے مغل بادشاہ بھی ان کی سلامی بھرنے پر مجبور تھے۔ اکبر بادشاہ کے دور میں میاں میر نے سیہون کو خیر آباد کہا تھا، پھر جہانگیر کی ان سے عقیدتمندی رہی، شاہ جہاں تو اکثر ان کی سلامی پر آیا کرتے تھے۔ شاہ جہاں کے بڑے بیٹے دارا شکوہ تو میاں میر کے روحانی اثر سے بھی فیض یاب ہوئے۔ دارا شکوہ کے لبرل خیالات کے پیچھے دراصل میاں میر کی تعلیمات کا ہی اثر تھا۔

میاں میر کی درگاہ کا داخلی راستہ — تصویر ابراہیم کنبھر
میاں میر کی درگاہ کا داخلی راستہ — تصویر ابراہیم کنبھر

درگاہ میاں میر —تصویر ابراہیم کنبھر
درگاہ میاں میر —تصویر ابراہیم کنبھر

میاں میر کے والد قاضی سائیں ڈنو بھی اپنے دور کے پرہیزگار، متقی صوفی بزرگ گزرے ہیں۔ نامور عالم و تاریخ دان مرزا قلیچ بیگ نے سندھی ادبی بورڈ کی شائع کردہ کتاب 'قدیم سندھ' میں میان میر کے والد کا مختصر احوال بیان کیا ہے کہ، ’’میاں میر کے والد قاضی سائیں ڈنو حضرت عمر فاروق کی اولاد میں سے تھے، خود بڑے پرہیزگار، شریعت اور طریقت کے پابند تھے، بعد میں ان کے بیٹے میر محمد جو کہ میاں میر کے نام سے مشہور ہوئے، لاہور میں شیخ خضر قادری کے مرید بنے۔

میاں میر کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ وہ سندھ کے ایک بڑے شاعر قاضی قاضن یا قاضی قادن کے نواسے تھے، قاضی قادن سندھ میں سما دور کے شاعر تھے ان کے ہم عصروں میں گرونانک، شیخ فرید، بھگت کبیر، میراں بائی اور سور داس شامل ہیں۔ قاضی قادن کی شاعری شاہ عبدالکریم بلڑی کے رسالے میں بھی ملتی ہے، شاہ عبداللطیف بھٹائی پر بھی قاضی قادن کا کافی اثر دکھائی دیتا ہے، شاہ بھٹائی کی شاعری میں کئی جگہوں پر قاضی قادن کی شاعری کے حوالے موجود ہیں۔

لاہور میں میاں میر کی مزار کے اندر ایک تختی پر ان کا شجرہ نسب لکھا ہوا ہے، جس میں ان کی تاریخ پیدائش، والدہ ماجدہ، والد اور استاد کے نام اور ان کی لاہور آمد اور رحلت کی تاریخیں درج ہیں۔ اس شجرے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ کی نسل حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتی ہے۔

درگاہ میاں میر— تصویر ابراہیم کنبھر
درگاہ میاں میر— تصویر ابراہیم کنبھر

درگاہ میاں میر— تصویر ابراہیم کنبھر
درگاہ میاں میر— تصویر ابراہیم کنبھر

یہی نہیں میاں میر کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ سکھ مت کے 5 ویں گرو ارجن دیو کی ان سے اتنی محبت و عقیدت تھی کہ اکثر ان کے پاس آیا کرتے تھے، ارجن دیو نے ہی میاں میر سے متاثر ہو کر ان سے امرتسر میں ہری مندر صاحب کا سنگ بنیاد رکھنے کی درخواست کی تھی، جو میاں میر نے قبول کی اور گولڈن ٹیمپل کی جگہ چار اینٹیں رکھ کر اس مذہبی عبادت گاہ کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔

یہ سکھ مت کے پیروکاروں کی محبت اور عقیدت کا تقاضا ہے کہ آج بھی لاہور میں میاں میر کے سالانہ عرس پر مسلمانوں کے ساتھ سکھ یاتری بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔

میاں میر کا مقبرہ بھی گولڈن ٹیمپل کی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے، چاروں اطراف مسجد، بیٹھک، مدرسہ اور قبرستان ہیں جبکہ بیچ میں مزار ہے۔

اس مقبرے کے احاطے میں کبوتروں کو دانہ ڈالنے کے لیے ایک مخصوص جگہ بنائی گئی ہے۔ درگاہ پر کبوتروں کی ایک بڑی تعداد اڑتی اور دانہ چگتی ہے، درگاہ پر آنے والے عقیدت مند بھی اپنے ساتھ دو چیزیں ضرور لاتے ہیںِ، درگاہ کے لیے پھول اور کبوتروں کے لیے دانہ۔

درگاہ کے اندر ایک بورڈ پر میاں میر کا شجرہ نسب آویزاں ہے—تصویر ابراہیم کنبھر
درگاہ کے اندر ایک بورڈ پر میاں میر کا شجرہ نسب آویزاں ہے—تصویر ابراہیم کنبھر

درگاہ سے متصل پھولوں اور چادر کی دکانیں— تصویر ابراہیم کنبھر
درگاہ سے متصل پھولوں اور چادر کی دکانیں— تصویر ابراہیم کنبھر

یہ وہ میاں میر ہیں جنہوں نے جہانگیر سے تحفے لینے سے انکار کیا تھا، شاہ جہاں میاں میر کی اجازت کے بغیر ان کی خانقاہ میں داخل نہیں ہو پاتا تھا، لیکن ارجن دیو پر مغلیہ دور میں ہوئے مظالم کو دیکھ کر میاں میر نے یہ پیشکش کی کہ ’اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی جان بخشی کے لیے مغل بادشاہ سے بات کروں،' لیکن ارجن دیو نے کہا کہ میں رضا پر راضی ہوں، مجھے کچھ نہیں چاہیے، میرے بیٹے کی بخشش کے لیے کچھ کریں۔’

ارجن دیو کے بیٹے گرو ہرگوبند اپنی جوانی میں میان میر صاحب کے پاس آتے رہے، اس کے بعد پھر ہرگوبند کے بیٹے تیغ بہادر کی بھی بچپن میں میاں میر سے ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ اس طرح میاں میر اور ارجن دیو کی تین پشتوں کی تعلق داری بھی سکھ مت کے پیروکاروں کی میاں میر سے عقیدت مندی کا سبب ہے۔

یہی نہیں بلکہ اس وقت کے مغل حکمران اور ان کے اہل و عیال میاں میر محمد کی پرہیزگاری اور تقویٰ کے معترف تھے۔ داراشکوہ کی کتاب سکینۃالاولیاء میں میاں میر کی زندگی، ملاقاتوں، عبادات، کرامات، اور ان کی رحلت کا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔

ایک صوفی بزرگ کی شاگردی کا دارا شکوہ پر یہ اثر ہوا کہ آگے چل کر وہ اور ان کی بہن جہاں آرا بیگم میاں میر کے جانشین ملا شاہ بدخشی کے مرید بن گئے۔

درگاہ میاں میر، عورتوں کا داخلہ منع ہے— تصویر ابراہیم کنبھر
درگاہ میاں میر، عورتوں کا داخلہ منع ہے— تصویر ابراہیم کنبھر

درگاہ پر عقیدت مند پھولوں کے ساتھ کبوتروں کے لیے دانہ بھی لاتے ہیں — تصویر ابراہیم کنبھر
درگاہ پر عقیدت مند پھولوں کے ساتھ کبوتروں کے لیے دانہ بھی لاتے ہیں — تصویر ابراہیم کنبھر

دارا شکوہ نے جہانگیر اور میاں میر کی ملاقات کا قصہ بھی اپنی کتاب سکینتہ الااولیاء میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ جہانگیر نے اپنے ایک پیامبر کے ذریعے میاں میر کو بلاوا بھیجا۔ جس پر میاں میر نے پہلے تو انکار کر دیا لیکن دوبارہ شہنشاہ جہانگیر نے درخواست کی کہ آپ سے ملنا ضروری ہے، اپنے غریب خانے پر ہم ملاقات کے منتظر رہیں گے۔

شہزادہ دارا شکوہ کی روایت کے مطابق جہانگیر بادشاہ نے جب تخلیے میں حضرت میاں میر کی گفتگو سنی تو ان کے دل پر بہت اثر ہوا اور میاں میر صاحب کو عرض کی کہ ’’میں ملک اور دنیا چھوڑ کر فقیر بننا چاہتا ہوں میرے دل میں اب سنگ و جواہر یکساں ہیں۔‘‘ جس پر میاں میر نے جواب میں فرمایا کہ ’’اگر ایسا ہے تو آپ صوفی ہیں۔" جہانگیر نے کہا کہ، "مجھے اپنا خادم بنا لیں اور خدا کی راہ دکھائیں۔" جس پر میاں میر نے جواب دیا کہ ’’تو مخلوقِ خدا کے لیے اچھا حکمران ہے، اللہ پاک نے تجھے اس عظیم کام پر مامور کیا ہے، کوئی اور شخص جو خلق خدا کا اتنا خیر خواہ، حلیم اور سخی ہو اسے بادشاہ بنا دو، ہم آپ کو فقیر بنا لیں گے۔" یہ بیان سکینۃ الاولیاء کے صفحے 46 میں دیا گیا ہے۔

میاں میر کے لیے مشہور تھا کہ انہوں نے میل ملاقاتوں سے پرہیز کر رکھا تھا، خاص طور پر اپنی ذات میں غرق حاکموں، شہر کے والیوں اور کوتوالوں سے ملنے سے بچنے کے لیے انہوں نے اپنی خانقاہ کے دروازے پر چوکیدار اور پہرے دار کھڑے کر رکھے تھے۔ ایک دن پہرے داروں نے ملاقات کے ممتنی مغل شنہشاہ شاہ جہاں کو خانقاہ کے باہر روک لیا۔ مغلوں کے عروج کے دور میں جب رعایا بادشاہ کے سامنے سر بسجود ہوا کرتی ہو، کوئی اس طرح بادشاہ کو اپنے گھر کے باہر روکنے کا تصور بھی کیسے کر سکتا ہے۔ شاہ جہاں اجازت ملنے کے بعد اندر گئے تو میاں میر کو شکایت کردی کہ:

’’با در اے درویش، دربان نہ بید‘‘ (درویشوں کے دروازے پر پہریدار نہیں ہوتے)۔"

جس پر میاں میر نے جواب دیا کہ:

’’باب یدکہ سگ دنیا نہ آید‘‘ (دربان اس لیے رکھے گئے ہیں تا کہ دنیا کے کتے اندر نہ آ سکیں)

درگاہ کا احاطہ—تصویر ابراہیم کنبھر
درگاہ کا احاطہ—تصویر ابراہیم کنبھر

درگاہ پر اڑان بھرتے کبوتر—تصویر ابراہیم کنبھر
درگاہ پر اڑان بھرتے کبوتر—تصویر ابراہیم کنبھر

درگاہ پر عقیدت مند کبوتروں کو دانہ ڈال رہے ہیں — تصویر ابراہیم کنبھر
درگاہ پر عقیدت مند کبوتروں کو دانہ ڈال رہے ہیں — تصویر ابراہیم کنبھر

شاہ جہاں کو دنیا کا غریب اور فقیر کہنے والا بھی کوئی اور نہیں میاں میر ہی تھا، دکن پر فوج بھیجنے کا فیصلہ کر بیٹھے شاہ جہاں نے میاں میر سے کامیابی کی دعا کے لیے کہا تو میاں میر نے اپنے ایک مرید کا دیا ہوا سکہ شاہ جہاں کے ہاتھ پر رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ دنیا کے تمام غربا سے غریب شخص ہے، اتنی بادشاہی کے باوجود وہ دکن پر چڑھائی چاہتا ہے، اس کی بھوک، اس آگ کی طرح ہے جو لکڑیاں ڈالنے سے اور تیز ہوتی ہے۔ اس بھوک نے اسے ضرورت مند اور بھکاری بنا دیا ہے۔‘‘


ابراہیم کنبھر اسلام آباد میں مقیم ہیں اور سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این سے وابستہ ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔