نادیہ آغا وومین اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی ہیں۔
نادیہ آغا وومین اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی ہیں۔

حال ہی میں ہندوستانی پارلیمنٹ نے مثبت قدم اٹھاتے ہوئے زچگی کی چھٹیوں کا عرصہ 12 ہفتوں سے بڑھا کر 26 ہفتے کرنے کا بل منظور کیا ہے، جس میں ملازمت دینے والوں کو خواتین ملازمین کو بچوں کے لیے نرسری کی سہولیات بھی فراہم کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔

اس زبردست قدم کے تین مقاصد ہیں: نومولود بچوں کی بہتر صحت یقینی بنانا، بچے کی پیدائش کے بعد خواتین کو کام پر واپس لانے پر آمادہ کرنا، اور سب سے اہم لیبر مارکیٹ میں صنفی فرق کو کم کرنا۔

عالمی طور پر خواتین کو ملازمت کے حوالے مختلف پالیسیوں اور طریقہ کار کے ذریعے مدد فراہم کی جاتی ہے اس طرح نہ صرف بچے کی پیدائش کا مرحلہ تسلی بخش ہوتا ہے بلکہ خواتین بچے کی پیدائش کے بعد پرسکون انداز میں کام پر بھی لوٹ آتی ہیں۔

بغیر تنخواہ کٹے زچگی کی چھٹیاں، چائلڈ بینیفٹ الاؤنس اور بچوں کی صحت میں مدد کی فراہمی چند ایسے بڑے اقدامات ہیں جو خواتین کو افرادی قوت میں شامل کرنے، اور ملازمت سے جوڑے رکھنے، کے لیے حوصلہ بخش ثابت ہوتے ہیں۔

آئین کی شق 37 ریاست کو ملازمت پیشہ خواتین کے لیے میٹرنٹی فوائد یقینی بنانے کی ہدایت دیتی ہے، اس مسئلے کے حل کے لیے چار قوانین بھی موجود ہیں۔ مگر کیا ہمارے موجودہ قوانین ملازمت پیشہ خواتین کو فوائد دینے کے لیے کافی ہیں یا ہمیں مزید اقدامات کی ضرورت ہے؟

مغربی پاکستان میٹرنٹی بینیفٹ آرڈینینس 1958 کے مطابق ہر ملازمت پیشہ خاتون، بغیر تنخواہ کٹے، 12 ہفتے چھٹیاں کرنے کا حق رکھتی ہے۔ مگر اس کافی پرانے قانون میں چند بڑی خامیاں ہیں اور تمام ملازمت پیشہ خواتین اس قانون سے مستفید نہیں ہو پا رہی ہیں۔

آرڈینینس میں یہ پالیسی سرکاری و نجی دونوں کے لیے نہیں ہے اور 12 ہفتوں کی چھٹیوں کا اطلاق صرف چند خاص پیشوں سے منسلک خواتین کے لیے کیا جاتا ہے، خاص طور پر جو سرکاری شعبے میں کام کر رہی ہیں۔

نجی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کی اکثریت کو بغیر تنخواہ کٹے 12 ہفتوں کی میٹرنٹی چھٹیاں دستیاب نہیں ہو پاتیں جبکہ چھٹیوں کی تعداد بھی محض 45 دنوں تک محدود ہے۔

غیر سرکاری شعبے، جہاں خواتین کی کثیر تعداد کام کرتی ہے، میں بغیر تنخواہ کٹے میٹرنٹی چھٹیوں کا تصور ہی موجود نہیں کیونکہ ان کا کام غیر رجسٹرڈ یا غیر درج شدہ ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ، چائلڈ کیئر یا بچوں کا خیال رکھنے کی سہولت کی فراہمی کو تو چھوڑیں اس آرڈینینس کے تحت ماں اور بچے کی صحت کے لیے مراعات بھی شامل نہیں ہیں، جو کہ تقریباً کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے۔

پاکستانی معاشرہ تبدیلی کے مرحلے سے گزر رہا ہے؛ شہروں میں موجود خواتین باہر قدم رکھ چکی ہیں اور اپنی زندگیوں پر ان کا اختیار بھی کافی بڑھ چکا ہے، مگر صنفی کرداروں میں حسب توقع تبدیلی نہیں آئی۔

خواتین چاہے کسی بھی پیشے سے وابستہ ہوں، انہیں گھر کے کاموں کا بھی فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ یوں ان پر گھر اورملازمت کے کاموں کی ذمہ داریوں کا دگنا بوجھ ان کے کاندھوں پر ہوتا ہے، خاص طور پر بچے کی پیدائش کے بعد، کیونکہ خواتین کو ہی اپنے بچوں کا خیال رکھنے کا تنہا ذمہ دار تصور کیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں خواتین اپنی ملازمت یا ممتا کے کردار میں سے ایک کو چننے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

کسی قسم کی مضبوط اور عملی پالیسی کی غیر موجودگی سے خواتین کی ملازمت سنگین حد تک متاثر ہوتی ہے۔ کام کرنے والی خواتین کو ایسی مدد گھر پر فراہم نہ ہو تو انہیں کافی پیسے خرچ کرنے پڑ جاتے ہیں۔

بڑے شہروں میں دن میں بچوں کا خیال رکھنے والے سینٹرز کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، مگر چھوٹے شہروں میں کام کرنے والی خواتین کو اب بھی اپنے گھر والوں کی مدد درکار ہوتی ہے یا پھر بچے کو سنبھالنے کے لیے ملازمہ رکھنی پڑتی ہے۔ یوں ان کی آمدن کا کافی حصہ خرچ ہو جاتا ہے اور بچے پر تشدد کا اندیشہ باقی رہتا ہے.

بغیر تنخواہ کٹے اور زیادہ عرصے کی میٹرنٹی چھٹیوں کا گہرا تعلق ماں اور بچے دونوں کی صحت سے ہے۔ جن خواتین کو زیادہ عرصے تک چھٹیاں مل جاتی ہیں وہ اپنے بچے کا بہتر انداز میں خیال رکھ پاتی ہیں اور اپنے بچوں کو صحتمند رکھ سکتی ہیں۔

طویل چھٹیوں سے بچے کو اپنا دودھ پلانے میں ماں کو کوئی دشواری پیش نہیں آتی، جو ’بچوں کی قوت مدافعت’ بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے اور بچوں کو مختلف بیماریوں سے پاک رکھتا ہے۔ مختلف تحقیقوں کے مطابق جن کل وقتی کام کرنے والی خواتین کو کم عرصے کے لیے میٹرنٹی چھٹیاں دی جائیں تو ایسی خواتین میں جلد ہی اپنے بچوں کو دودھ پلانے کا سلسلہ بند کرنے کا اندیشہ رہتا ہے۔

اس آرڈینینس کے تحت خواتین کو دی جانے والی بغیرتنخواہ کٹے میٹرنٹی چھٹیاں بھی ناکافی ہیں اور بچوں کا خیال رکھنے میں مدد کی غیر موجودگی سے خواتین کی زندگیوں میں مشکلات کا مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

نتیجتاً، ہمیں ملازمت کی کئی جگہوں پر خواتین نظر نہیں آتیں۔ اسی لیے پاکستان کے میٹرنٹی مراعات کے قانون میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ بغیر تنخواہ کٹے میٹرنٹی چھٹیوں کی سرکاری اور نجی شعبوں میں یکساں پالیسی متعارف کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے تمام تنظیموں سے رائے لی جائے اور کام کرنے کی جگہوں پر بچوں کا خیال رکھنے کا انتظام لازمی طور پر کیا جائے۔

ماں اور بچے کی صحت کو دھیان میں رکھتے ہوئے موجودہ قانون میں ترمیم لائی جائے اور ماؤں اور نومولود بچوں کو لاحق مسائل کو حل کیا جائے۔ زیادہ عرصے تک بغیر تنخواہ کٹے میٹرنٹی چھٹیوں سے نہ صرف خواتین کا کام پر لوٹ آنا ممکن ہو پائے گا بلکہ یوں اپنی اور اپنے بچے کی بہتر صحت کے لیے زیادہ وقت بھی دے پائیں گی۔

2016 کی درجہ بندی برائے عالمی صنفی فرق میں پاکستان کی خراب صورتحال کے پیش نظر ہمیں ہمارے پڑوسی کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے اور کام کرنے والی خواتین کے لیے زیادہ سے زیادہ مددگار ماحول پیدا کرتے ہوئے افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

جب تک خواتین کو سماجی و اقتصادی طور پر مرکزی دھارے میں لانے کے لیے پائیدار اقدامات نہیں اٹھائے جاتے تب تک ان تفریقات کا خاتمہ مستقبل قریب میں تو ممکن نہیں ہو پائے گا۔ صنفی فرق مٹنے سے ہماری معیشت مضبوط ہوگی، مگر یہ کام خواتین کو مذکورہ سہولیات دیے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔

یہ مضمون 26 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

imran Mar 29, 2017 12:56pm
Nice