کنڈول جھیل، جسے کلاشنکوف کی گولی بھی پار نہیں کر سکتی

مشہور پشتون ادیب سعد اللہ جان برقؔ کا قول ہے کہ، "عشق، نارسائی کا دوسرا نام ہے، ہر وہ شے جو ہماری دسترس سے دور ہے، عشق ہے اور جیسے ہی ہاتھ لگی، اور عشق ختم۔" کنڈول کی پہلی تصویر نے مجھے اپنے سحر میں مبتلا کیا تھا اور 2006 میں جب پہلی بار میں نے وہاں تک رسائی حاصل کی، تو برقؔ صاحب کا قول کم از کم میرے حوالے سے غلط ثابت ہوا۔

وہاں گزرنے والا تین گھنٹے کا وہ محدود دورانیہ میرے ذہن پر ایک اَن مٹ نقش چھوڑ گیا، یہاں تک کہ کنڈول ایک بار پھر 2016 کے ماہِ دسمبر کی ٹھٹھرتی سردی میں مجھے اپنی طرف کھینچ لائی، مگر کنڈول کا خمار ہے کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

ایک اندازے کے مطابق سوات میں لگ بھگ ایک ہزار چھوٹی بڑی آبشاریں اور پچاس کے قریب جھیلیں ہیں جن میں سب سے بڑی جھیل کنڈول کو مانا جاتا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں آبشاروں اور جھیلوں کو دیکھتے ہوئے اگر سوات کو آبشاروں یا جھیلوں کی سرزمین کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔

کنڈول یا کنڈولے پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی پیالہ، جام یا کٹورا کے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے سوات کے مشہور ادیب اور لکھاری فضل ربی راہیؔ اپنی ٹریول گائیڈ 'سوات سیاحوں کی جنت' کے صفحہ نمبر 132 پر کنڈول کو ’کُنڈلو ڈنڈ‘ یعنی ’کُنڈلو جھیل‘ رقم کرتے ہیں۔

کنڈول جھیل پر پڑنے والی پہلی نظر—تصویر امجد علی سحاب
کنڈول جھیل پر پڑنے والی پہلی نظر—تصویر امجد علی سحاب

کنڈول جھیل—تصویر امجد علی سحاب
کنڈول جھیل—تصویر امجد علی سحاب

موصوف اس کی وجہ تسمیہ کچھ یوں رقم کرتے ہیں: "کنڈلو کا لفظ دراصل پشتو زبان کے لفظ ’کنڈولے‘ سے اخذ ہوا ہے جس کے معنی جام کے ہیں۔" آگے لکھتے ہیں، "اس نام کی ایک اور توجیہہ یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ جب 14 ویں کے چاند کا عکس اس پر پڑتا ہے، تو وہ (چاند) اس میں ایک سنہرے جام کی مانند دکھائی دیتا ہے، اس لیے اس جھیل کو ’کنڈلو ڈنڈ‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔"

اس حوالے سے مزید چھان بین کے بعد کچھ مفروضے بھی ہاتھ آئے۔ مثلاً سوات ہی کی درال جھیل کی طرح کنڈول کے حوالے سے بھی ایک فرضی کہانی مشہور ہے کہ یہاں چاندنی رات کو عین جیل کے وسط سے سونے کا کٹورا یا جام نکلتا ہے، جسے حاصل کرنے کی خاطر مختلف اوقات میں کوششیں بھی کی گئیں، مگر کسی کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔

یہ بھی مشہور ہے کہ چند من چلوں نے ایسی ہی ایک چاندنی رات جھیل کے کنارے گزارنے کی ٹھان لی اور ذکر شدہ منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا قصد کرلیا۔ چوں کہ جون، جولائی اور اگست جیسے حبس زدہ مہینے میں بھی کنڈول اور ارد گرد کے علاقے میں رات کو کافی ٹھنڈ پڑتی ہے اور لحاف یا کمبل کے بغیر رات گزارنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے، تو ایسے میں جھیل کے کنارے بغیر کسی خیمے اور آگ روشن کرنے کے رات گزارنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔

وادئ لدو کا ایک دلفریب منظر، نظر آنے والے پہاڑ کے دامن میں سپین خوڑ جھیل واقع ہے— تصویر امجد علی سحاب
وادئ لدو کا ایک دلفریب منظر، نظر آنے والے پہاڑ کے دامن میں سپین خوڑ جھیل واقع ہے— تصویر امجد علی سحاب

وہ مقام جہاں کنڈول اور سپین خوڑ جھیل سے نکلنے والے پانی کا سنگم ہوتا ہے—تصویر امجد علی سحاب
وہ مقام جہاں کنڈول اور سپین خوڑ جھیل سے نکلنے والے پانی کا سنگم ہوتا ہے—تصویر امجد علی سحاب

کہا جاتا ہے کہ مذکورہ دوست رات گزارنے کی خاطر اپنے ساتھ خیمہ، جلانے کی غرض سے سوکھی لکڑیاں اور اشیائے خورد و نوش لے گئے۔ سر شام کھانا تیار کر کے کھا یا گیا۔ ساتھ چائے کا دور بھی وقتاً فوقتاً چلتا رہا۔ پھر جیسے ہی رات کو پہاڑ کی اوٹ سے چاند نکل آیا، تو سماں بندھ گیا۔

دوست کمبل اوڑھ کر خیمہ سے باہر نکل آئے اور روشن کی ہوئی آگ کو تاپنے لگے۔ چاند سرکتے سرکتے جیسے ہی جھیل کے عین وسط میں جھلملانے کے لیے پر تولنے لگا، تو وہاں موجود تمام دوستوں کو ایک خوفناک تیز آواز نے آ لیا، جس کے ساتھ ہی ان کے اوسان خطا ہوگئے اور سر پر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ بعد میں پتا چلا کہ ان میں سے ایک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے ہوش و حواس کھو چکا تھا اور تا دمِ آخر گم صم سا رہتا۔

کنڈول تک پہنچنے کے لیے وادئ کالام سے فور بائے فور گاڑی کے ذریعے یہی کوئی 24 کلومیٹر کا کچا راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اگلا مقام ’وادئ اتروڑ‘ ہوتا ہے۔ وہاں اتروڑ بازار کے وسط میں ایک کچی سڑک بائیں سمت جنوب مغرب کی طرف نکلتی ہے۔ گاڑی آڑھے ترچھے راستوں سے ہوتی ہوئی وادیءِ لدو تک پہنچتی ہے۔ جہاں سے آگے ٹریکرز یا سیاحوں کو پیدل جانا پڑتا ہے۔

وادئ لدو جہاں جیپ ایبل ٹریک ختم ہوجاتا ہے—تصویر امجد علی سحاب
وادئ لدو جہاں جیپ ایبل ٹریک ختم ہوجاتا ہے—تصویر امجد علی سحاب

2010 میں آنے والے سیلاب کے بعد راستے کا منظر— تصویر امجد علی سحاب
2010 میں آنے والے سیلاب کے بعد راستے کا منظر— تصویر امجد علی سحاب

وادیءِ لدو بذات خود ایک خوبصورت وادی ہے جس میں موسم بہار میں جنگلی پھول اور مختلف النوع خوشبودار پودے مشام جاں کو معطر کر دیتے ہیں۔ یہاں سے راستہ تقسیم ہو جاتا ہے۔ ایک بائیں ہاتھ پر سپین خوڑ جھیل کی طرف گھنے جنگل کے بیچوں بیچ نکلتا ہے جب کہ دوسرا دائیں ہاتھ پر کنڈول کی طرف مڑتا ہے۔

کنڈول اور سپین خوڑ جھیل سے نکلنے والا صاف و شفاف پانی مل کر ایک اچھی خاصی ندی کی شکل میں اتروڑ گاؤں کو سیراب کرتا ہے۔

اتروڑ گاؤں میں اسی پانی پر ایک غیر حکومتی ادارے سوات شرکتی کونسل نے پاور جنریٹنگ پلانٹس لگا رکھے ہیں، جو پورے اتروڑ گاؤں کو بلا تعطل بجلی فراہم کرتے ہیں۔ انہی پاور جنریٹنگ پلانٹس کی وجہ سے اتروڑ پورے پاکستان کا وہ واحد گاؤں ہے جہاں لوگ لوڈشیڈنگ کے نام سے ناواقف ہیں۔

وادئی اتروڑ سے گائیڈ باآسانی مل جاتا ہے، جو سیاحوں کے ساتھ سفری بیگ وغیرہ بھی اٹھاتا ہے اور انہیں منزل مقصود تک بھی پہنچاتا ہے۔ گائیڈ چوں کہ مقامی ہوتا ہے، اس لیے غیر مقامی سیاحوں کو ایک طرح سے تحفظ کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ان گائیڈز کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ بہت جلد سیاحوں میں گھل مل جاتے ہیں اور بالکل فیملی ممبرز کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔

2010 میں آنے والے سیلاب کے بعد راستے کا منظر— تصویر امجد علی سحاب
2010 میں آنے والے سیلاب کے بعد راستے کا منظر— تصویر امجد علی سحاب

وہ مقام جہاں سے راستہ تقسیم ہوکر ایک سپین خوڑ جھیل جبکہ دوسرا کنڈول کی طرف نکلتا ہے—تصویر امجد علی سحاب
وہ مقام جہاں سے راستہ تقسیم ہوکر ایک سپین خوڑ جھیل جبکہ دوسرا کنڈول کی طرف نکلتا ہے—تصویر امجد علی سحاب

جھیل پر پہلی نظر پڑتے ہی انسان دم بخود رہ جاتا ہے۔ جھیل کا صاف و شفاف نیلگوں پانی آدمی پر ایک عجیب سی سرخوشی طاری کر دیتا ہے۔ یہاں پہنچتے ہی سیاح اپنی تھکاوٹ بھول جاتے ہیں اور پہلی فرصت میں کیمروں کی آنکھ سے خوبصورت مناظر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قید کرنے میں جت جاتے ہیں۔

اول اول یہاں کشتی رانی بھی کی جاتی تھی۔ 2006 میں جب میں نے پہلی بار کنڈول کی سیر کی تو اس وقت بھی ایک بڑی سی کشتی کا شکستہ مستول پڑا دکھائی دیتا تھا۔ اس کے بعد 2010 کے سیلاب نے نہ صرف جھیل کی ہیئت تبدیل کر کے رکھ دی بلکہ وہاں تک جانے والا راستہ بھی خراب ہو گیا۔

کنڈول جھیل کی طرف نکلنے والے راستے کا منظر—تصویر امجد علی سحاب
کنڈول جھیل کی طرف نکلنے والے راستے کا منظر—تصویر امجد علی سحاب

وادئ لدو میں چوری چھپے جنگلات کی کٹائی کا حال دیکھا جاسکتا ہے— تصویر امجد علی سحاب
وادئ لدو میں چوری چھپے جنگلات کی کٹائی کا حال دیکھا جاسکتا ہے— تصویر امجد علی سحاب

سیلاب سے پہلے وادئ لدو سے جھیل تک سیاح ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی مسافت کے بعد رسائی حاصل کرتے تھے۔ اب یہ راستہ ڈھائی تین گھنٹے میں طے کیا جاتا ہے۔

کنڈول کو سوات کی سب سے بڑی جھیل کے طور پر مانا جاتا ہے۔ فضل ربی راہیؔ نے جھیل کی وسعت کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی لمبائی تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر جبکہ چوڑائی ایک کلومیٹر ہے۔

جھیل کی لمبائی کے حوالے سے ایک مقامی شخص کا انتہائی سادگی سے کہنا تھا کہ انہوں نے بذات خود کلاشنکوف کو کئی دفعہ آزمایا ہے مگر گولی کو ایک بار بھی جھیل کے دوسرے سرے تک پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔

کنڈول جھیل—تصویر امجد علی سحاب
کنڈول جھیل—تصویر امجد علی سحاب

کنڈول جھیل—تصویر امجد علی سحاب
کنڈول جھیل—تصویر امجد علی سحاب

جھیل کو تین اطراف سے فلک بوس پہاڑوں نے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ سردیوں میں مذکورہ پہاڑ برف کی سفید چادر اوڑھ لیتے ہیں اور پھر گرمیوں میں سورج کی تمازت میں جھیل کے دامن کو نیلگوں پانی سے بھرنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

جھیل کی سیر کے لیے مئی کے وسط سے لے کر ستمبر کے آخر تک کا عرصہ سب سے بہترین ثابت ہو سکتا ہے۔


امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو کو بطور مضمون پڑھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔