لاہور میں واقع دائی انگہ اور بدھو کے مقبروں کی پُراسرار کہانی

لاہور میں واقع دائی انگہ اور بدھو کے مقبروں کی پُراسرار کہانی

ابراہیم کنبھر

دہلی، آگرہ، فتح پور سرکی، ڈھاکہ، لاہور اور چنیوٹ سے لے کر ٹھٹہ کی بادشاہی مسجد تک مغلیہ دور کی بنی ہوئی تمام شاہی شاہکار عمارتیں آج بھی دیکھنے والوں پر حیرت طاری کر دیتی ہیں۔

اکبر سے لے کر اورنگزیب تک سب نے بلند و بالا عمارات اور حسین فن تعمیرات میں اپنا حصہ ڈالا۔

اپنے دادا اکبر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شاہ جہان نے بھی اس شوق میں نئی داستانیں رقم کیں۔ 30 سالہ شہنشاہ شاہ جہان نے جو جو عمارتیں، قلعے، مساجد اور مقبرے تعمیر کرائے، ان کی فن تعمیر، نقوش اور مختلف تہذیبوں کو ظاہر کرنے والے عمدہ ڈیزائن کا کوئی ثانی نہیں۔

ان بلند و بالا، خوبصورت اور حیرت انگیز فن و تعمیرات کے لیے اینٹیں، سمینٹ، پتھر، لکڑی، کاشی گری، نقاشی، سنگ تراشی اور کتابت کا ضرور کوئی بندوبست رہا ہوگا۔ برسا برس گزرتے گئے اور کئی کاریگر، مستری، مزدور، محنت کش کی محنت سے عمارتیں اور قلعے بنتے رہے، لیکن ان شاہکار عمارات میں ان کا کوئی خاطر خواہ نام و نشان تک نہیں ملتا۔

بدھو کا مقبرہ — تصویر ابراہیم کنبھر
بدھو کا مقبرہ — تصویر ابراہیم کنبھر

بدھو کا مقبرہ — تصویر ابراہیم کنبھر
بدھو کا مقبرہ — تصویر ابراہیم کنبھر

لاہور میں جی ٹی او روڈ سے جاتے ہوئے یونیورسٹی آف انجنئیرنگ ٹیکنالوجی کے کچھ فاصلے پر سامنے ایک خستہ حال مقبرہ اب بھی اپنی شناخت کے بارے میں پریشان حواس باختہ کھڑا ہے۔

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ مغلیہ دور کی بلند و بالا حسین عمارتوں میں جو اینٹیں لگی ہوئی ہیں وہ سب اینٹیں اس مقبرے میں دفن بُدھو میاں کے بٹھے میں تیار ہوتی تھیں۔ بُدھو کے والد کا نام سُدھو تھا، جنہوں نے لاہور میں ہی ایک بڑا بَٹھا قائم کیا۔ کہتے ہیں کہ شاہ جہان کے دور میں اس بٹھے کی آگ ایک دن بھی نہیں بُجھی۔

سدھو نے جہانگیر کی حکومت میں فنِ تعمیر کے لیے اینٹیں فراہم کی تھیں تو بُدھو نے بھی شاہ جہان سے وہی کاروباری معاملات جاری رکھے اور شاہی محل سے اینٹوں کی لین دین جاری رکھی۔

کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ مغلپورہ سے واہگہ تک ساری زمیں پر بُدھو کا آوا ہوا کرتا تھا۔ آج اس کے نہ کوئی آثار ملتے ہیں اور نہ ہی تاریخی حوالے، لیکن اس مقبرے کے قریب ہی ایک ایسا گھرانہ بھی آباد ہے جس کے افراد بُدھو اور سدھو کو اپنا بڑا مانتے ہیں۔ ہم کوشش کے باوجود اس گھرانے کے کسی فرد تک نہیں پہنچ سکے۔

بُدھو شاہ جہان کے زمانے میں اینٹیں بنا کر شاہی محل کو دیتا تھا۔ لاہور میں مغلیہ ادوار اور خاص طور پر شاہ جہان کے زمانے میں جو مساجد، عمارتیں اور مقبرے بنے وہ اسی بٹھے سے تیار ہو کر آئی ہوں گی۔

بدھو کا مقبرہ— تصویر ابراہیم کنبھر
بدھو کا مقبرہ— تصویر ابراہیم کنبھر

بدھو کا مقبرہ — تصویر ابراہیم کنبھر
بدھو کا مقبرہ — تصویر ابراہیم کنبھر

بدھو کے مقبرے کے باہر آویزاں ایک بورڈ— تصویر ابراہیم کنبھر
بدھو کے مقبرے کے باہر آویزاں ایک بورڈ— تصویر ابراہیم کنبھر

لیکن اب اس مقبرے کی حالت دیکھیں تو خستہ حالی اپنے حال پر روتے محسوس ہوتی ہے، وہ جس کے بٹھے سے عالیشان اور مضبوط شاہی محل بنتے تھے آج اس کے مقبرے کی اینٹیں نازک ہو چکی ہیں، کئی گر بھی چکیں ہیں۔

بُدھو تو اینٹ ساز تھا، لیکن یہ بُدھو کا مقبرہ ہے بھی کہ نہیں، یہ ایک ایسا سوال ہے کہ صدیوں سے اس کا جواب نہیں ملا۔ اس مقبرے پر محکمہ آثارِ قدیمہ کا جو سرکاری بورڈ آویزاں ہے اس پر لکھی ہوئی عبارت خود بھی اس مقبرے کے بارے میں شکوک پیدا کرتی ہے۔

اس بورڈ پر لکھا ہوا ہے کہ، "یہ مقبرہ بُدھو کے نام سے منسوب ہے لیکن تاریخی اعتبار سے یہ مقبرہ مغلیہ دور کے اہم عہدیدار خانِ دران کی بیوی خان خانان نصرت جنگ کا ہے، جس کے بعد خانِ دران کو بھی یہاں دفن کیا گیا۔"

اس مقبرے کے اندر واقع دو مزاریں ہیں اور پنجاب محکمہ آثار قدیمہ کے پاس یہ مقبرہ خان دران اور ان کی بیوی کا ہونے کی سب سے بڑی دلیل بھی دو قبروں کا ایک ساتھ ہونا ہے۔

ورکشاپس میں گِھرا یہ مقبرہ کسی زمانے میں بڑے وسیع عریض علاقے پر محیط تھا جس کا اندرونی دروازہ باغ میں کھلتا تھا، مگر گذرتے وقت اور تجاوزات کی تیزی نے اب اس مقبرے کو محض ایک کنال تک ہی محدود کر دیا ہے۔ سنا تو یہ ہے کہ باغبانی اور آثارِ قدیمہ نے اس مقبرے کی دیکھ بھال کے لیے چار عدد ملازمین بھی رکھے ہیں، لیکن ہم نے اس مقبرے کو مفقل دیکھا، باہر بڑا سا تالا لگا دیکھ کر ہم نے ارد گرد موجود ورکشاپس کے مستریوں سے معلوم کیا کہ کبھی کوئی اندر آیا بھی کہ نہیں؟

بدھو کے مقبرے کے دروازے پر تالا لگا ہے — تصویر ابراہیم کنبھر
بدھو کے مقبرے کے دروازے پر تالا لگا ہے — تصویر ابراہیم کنبھر

ورکشاپ والوں نے بتایا کہ کبھی کبھی اس مقبرے کا تالا کُھلتا ہے اور اندر دیکھ بھال کرنے والے ایک چکر لگا کر پھر اسے تالا لگا دیتے ہیں۔

دن بہ دن اس مقبرے کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ اینٹیں بیچنے والے اس بُدھو کے مقبرے کی اینٹیں بھی بیچ دی جائیں گی، جیسا کہ بورڈ پر بھی لکھا ہوا ہے کہ اس مقبرے کا گنبد سنہری اینٹوں سے سجایا گیا تھا، لیکن اب گنبد بھی گرنے کو ہے۔ سنہری اینٹیں بھی گر کر ختم ہو چکیں لیکن مقبرہ خود جن پکی اینٹوں پر کھڑا ہے وہ بھی گرنے کو ہیں۔

ہمایوں سے اورنگزیب اور ان کے بعد والے شہزادوں اور شہزادیوں کے مقبرے فنِ تعمیر کا نمونہ تو اپنی جگہ لیکن آج بھی اسی رنگ و ڈھنگ سے قائم و دائم ہیں، بس لاوارث مقبرہ ہے تو بُدھو کا ہے، جو بُدھو کا ہے بھی اور نہیں بھی، یہ میرا نہیں سرکار کا مؤقف ہے۔

یہ مقبرہ کس کا ہے؟ شاید اس سوال کا جواب ملنے کے بعد ہی پنجاب سرکار اس مقبرے کی تزین و آسائش کا کام شروع کرے گی۔

لاہور میں جی ٹی روڈ پر یونیورسٹی آف انجنئیرنگ اینڈ ٹیکنالاجی کے برابر میں اورنج لائین کی زد میں آیا ہوا دائی انگہ کا مقبرہ ہے۔ یہ جگہ گلابی باغ کے نام سے بھی مشہور ہے، مغل سلطنت میں بیکانیر کے مجسٹریٹ جو ان دنوں میں مقامی حکمران ہی سمجھے جاتے تھے، ان کی اہلیہ زیب النساء کی شاہی محل میں اتنی رسائی تھی کہ جہانگیر کے بیٹے شاہجہان کی دایہ بن گئیں۔

دائی انگہ کا مقبرہ — تصویر ابراہیم کنبھر
دائی انگہ کا مقبرہ — تصویر ابراہیم کنبھر

دائی انگہ کا مقبرہ — تصویر ابراہیم کنبھر
دائی انگہ کا مقبرہ — تصویر ابراہیم کنبھر

مقبرے کے اندر موجود دو قبریں — تصویر ابراہیم کنبھر
مقبرے کے اندر موجود دو قبریں — تصویر ابراہیم کنبھر

مغل شہزادے شاہ جھان کا جنم لاہورمیں 1592 میں ہوا۔ شہنشاہ جہانگیر کی راجپوت گھرانے سے بیاہی بیگم بلقیس مکانی عرف من متی رانی کے ہاں شاہ جہان کی پیدائش ہوئی۔

شاہ جہان کے فن تعمیرات و فن، تاج محل سے تو سب واقف ہیں لیکن اس دایہ انگہ کے نام سے چند ہی لوگ واقف ہیں۔ دایہ انگہ، ان سے جڑے کردار اور پھر ان کا مقبرہ تعمیر کروانے والے امیر سلطان بیگ اور ان سے جڑی کئی کہانیاں موجود ہیں۔

بیکانیر کے مجسٹریٹ مراد خان اپنے دور میں اثر رسوخ کا حامل اور مغل شہنشاہوں کی بھروسہ مند شخصیت تھے۔ ان کی اہلیہ انگہ صرف شاہ جہان کی دایہ ہی نہیں بلکہ کئی سال مغل شہزادے کی پرورش کی ذمہ دار رہی تھیں۔ یہی نہیں، انگہ دایہ نے شاہ جہان کے ساتھ اپنے بیٹے راشد خان کی بھی ساتھ تربیت کی تھی۔ پھر وہی راشد خان شاہ جہان کے بیٹے دارہ شکوہ کا رکھوال بن گیا، انگہ کے بیٹے راشد خان کی تیر اندازی کا تو شہنشاہ شاہ جہان بھی متعرف تھے۔

دائی انگہ کے مقبرے کی خستہ حالی — تصویر ابراہیم کنبھر
دائی انگہ کے مقبرے کی خستہ حالی — تصویر ابراہیم کنبھر

پہلے یہ مقبرہ وسیع و عریض رقبے پر محیط تھا جو اب تجاوزات کی زد میں ہے— تصویر ابراہیم کنبھر
پہلے یہ مقبرہ وسیع و عریض رقبے پر محیط تھا جو اب تجاوزات کی زد میں ہے— تصویر ابراہیم کنبھر

مقبرے کے اوپر موجود بارہ دری — تصویر ابراہیم کنبھر
مقبرے کے اوپر موجود بارہ دری — تصویر ابراہیم کنبھر

کہتے ہیں کہ راشد خان کی موت بھی داراشکوہ کی حفاظت کرتے ہوئے ہوئی تھی۔ شہر لاہور میں نو لکھا کے علاقے میں ایک مسجد بھی دایہ انگہ کے نام سے مشہور ہے۔

انگہ کا مقبرہ بھی شاہ جہان کی منظوری سے ان کی زندگی میں بن گیا، اس وقت کے لاہور کے امیر سلطان بیگ مرزا نے 1665 میں یہ مقبرہ تعمیر کروایا۔ اسی امیر سلطان بیگ مرزا کی بھی ایک الگ کہانی ہے، وہ ایران سے چلے لاہور پہنچے اور شہنشاہ ہند شاہ جہان کے داماد بنے۔

تاریخ لاہور پر انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھنے والی کتاب ’تحقیقات چشتی’ کے مصنف نور احمد چشتی نے لکھا ہے کہ، "سلطان بیگ امیر ایران غیاث الدین کے چچا زاد بھائی اورشاہ جہان کی بیٹی سلطان بیگم کے شوہر تھے۔ شاہ جہان نے انہیں لاہور کا امیر مقرر کیا، وہ شکار کے بڑے شوقین تھے، شاہ جہان نے انہیں ایک ولایتی بندوق بھی تحفے میں دی۔ وہ ایک دن بادشاہ کے ہمراہ شیخوپورہ شکار پر گئے، بندوق اس جگہ پھٹی اور اس میں سلطان بیگ جان بحق ہو گئے۔

مائی انگہ کے مقبرے پر سال 1672 درج ہے، یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سال اس پر نقش و نگاری، تزین آرائش کا کام مکمل ہوا ہو، مگر یہ بھی روایت ہے کہ مغلیہ سلطنت میں یہ گلابی باغ دایہ انگہ کے حوالے کردیا گیا تھا پھر یہ ان کی رہائش بن گئی اور ان کی وفات کے بعد ان کی تدفین بھی یہیں پر ہوئی۔

مقبرے پر موجود کاشی گری— تصویر ابراہیم کنبھر
مقبرے پر موجود کاشی گری— تصویر ابراہیم کنبھر

مقبرے کے اندرونی حصے میں موجود نقش و نگاری — تصویر ابراہیم کنبھر
مقبرے کے اندرونی حصے میں موجود نقش و نگاری — تصویر ابراہیم کنبھر

اس مقبرے کے خوبصورتی اب تو مدھم پڑ گئی ہے لیکن آثار بتاتے ہیں کہ اسے بڑی دل لگی سے بنایا گیا ہوگا۔ اب بھی ان کی خوبصورتی اور دلکشی کو مرمت اور تزین آرائِش سے بحال کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ عمارت اورنج ٹریں کے تھرتھراہٹ سے بچی۔

داخلی دروازے سے اندر جاتے ہی مقبرے کے اوپر والے حصے میں دو مزاریں نظر آتی ہیں، جن میں سے ایک تو دایہ انگہ کی ہے اور دوسری مزار زیب النساء کی بیٹی کی بتائی جاتی ہے۔

برسوں سے ان مقبرے پر کام چل رہا ہے، اس کی خستہ حالت اپنی جگہ لیکن اس وقت تو قبروں پر سے اوپر سے مٹی ہٹانے والا بھی کوئی نہیں، مقبرے کے آس پاس موجود عمارتوں کی تعمیر اور دیواروں کا تیزی سے مقبرے کی طرف بڑھتا رخ بتا رہا ہے کہ یہ مقبرہ بھی جلد تجاوزات کی نظر ہو جائے گا۔ اس سے بھی زیادہ خدشہ اس مقبرے کے ساتھ والی سڑک پر بننے والے ستون اور ان پر سے گزرنے والے اورنج لائین ٹرین کی دھڑ دھڑ ہے۔


ابراہیم کنبھر اسلام آباد میں مقیم ہیں اور سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این سے وابستہ ہیں۔

ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: [email protected]


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔