پاکستان میں کاروباری حضرات مغربی طرز کی کاروباری اصلاحات اور شراکت داری کے عادی ہیں لہٰذا ان کے لیے اپنی چینی شراکت دار کمپنیوں کی جانب سے پہلے سے مقرر شدہ اور محدود شرائط کے ساتھ چلنا پریشان کُن ہے۔

دوسرے لفظوں میں پاکستانی تاجر برادری کے لیے کاروباری معاملات چلانے میں چینی بہت زیادہ سخت اور مکینیکل ہیں۔

یہ کوئی اتفاق نہیں کہ پاکستان میں کاروبار کی وسعت ہونے کے باوجود پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت پاکستان کے نجی شعبے کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

سندھ بورڈ آف انویسٹمنٹ کی چیئرپرسن ناہید میمن نے ڈان کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ جیسے ہی یہ (سی پیک) خصوصی اقتصادی زون فعال ہوجائے گا تو اس میں نجی سیکٹر کی شراکت داری میں بھی نمایاں حد تک اضافہ ہوگا۔

دوسری جانب کاروباری برادری کے ایک نمائندے نے اس مسئلے کا الزام چینی کمپنیوں پر لگاتے ہوئے کہا کہ بیجنگ سی پیک منصوبے میں نجی سیکٹر کو نقصان پہنچا رہا ہے اور اس کی زیادہ تر توجہ سرکاری کمپنیوں کے ساتھ معاہدے پر ہے۔

مزید پڑھیں: ’سی پیک سے مقامی صنعت کو چیلنجز کا سامنا‘

گذشتہ 4 برسوں میں سی پیک معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد سے اب تک منصوبے پر جاری کام چینیوں کی سنجیدگی کا عکاس ہے۔

اب تک سی پیک کے تحت پاکستان میں کُل 59 منصوبوں پر کام شروع کیا جا چکا ہے جن میں توانائی شعبے کے 17 منصوبے، گوادر میں 11، انفرااسٹرکچر کے 8، ریل کے 4 منصوبے، صوبوں میں سڑک، بندرگاہ، پانی اور کان کنی کے 6 منصوبے، اقتصادی زون کے 9 خصوصی منصوبے، سماجی ترقی کے 2 منصوبے جبکہ ڈیجیٹل انڈسٹری سے متعلق 2 منصوبے شامل ہیں۔

ان منصوبوں میں سے توانائی شعبے کے 4 منصوبے فعال ہو چکے ہیں جن میں ساہیوال میں تعمیر کیا گیا کوئلے سے چلنے والا پاور پلانٹ جو 1 ہزار میگا واٹ کی بجلی نظام میں شامل کرے گا، اس کے علاوہ گھارو میں 50 میگا واٹ کا ہائیڈرو چائنا وِنڈ فارم، جِھمپیر میں 50 میگا واٹ کا سچل وِنڈ فارم اور یو ای پی وِنڈ فارم شامل ہیں۔

سرکاری متعین کردہ ویب سائٹس کے مطابق دیگر منصوبے ابھی تکمیل کے مراحل میں ہیں۔

چین متعین کردہ منصوبوں پر نجی کمپنیوں کے ساتھ یا ان کے بغیر سرمایہ کاری کرنے کے لیے پُر عزم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گوادر سی پیک کے ماتھے کا جھومر ہے، نواز شریف

پاکستان میں کاروباری حضرات کے لیے ایک کشمکش کی صورتحال ہے جبکہ سی پیک کے تحت ہونے والی وسیع سرمایہ کاری کی اقدار اور وسعت سے باخبر یہ حضرات سمجھتے ہیں کہ وہ اس منصوبے کو دور سے دیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے جبکہ چینی سرمایہ کاروں کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے کا چیلنج بھی حل طلب نہیں ہے۔

ایک سرکاری عہدیدار کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان سی پیک منصوبے میں نجی شعبوں کے لیے سرمایہ کاری کی راہیں ہموار کرنے کے لیے مداخلت کرے گی۔

اینگرو پاور جین اور سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کے سی ای او شمس الدین شیخ دو چینی کمپنیوں کے ساتھ سی پیک منصوبے میں شراکت دار ہیں اور ان کمپنیوں کے ساتھ جاری کام اور تعلقات پر مطمئن ہیں۔

انہوں نے چینی کمپنیوں کے ساتھ طویل المدتی تعلقات بڑھانے اور ساتھ کام کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔

شمس الدین نے بتایا کہ ان کی کمپنی نے جاپان، یورپ اور امریکا کی کمپنیوں کے ساتھ کام کیا لیکن ان کے سیکھنے کے گراف میں نمایاں تبدیلی نہیں آئی مگر چینیوں کے ساتھ معاملہ تھوڑا پیچیدہ ہے اور چینی کاروباری شراکت داروں کے ساتھ سرمایہ کاری میں اعتماد قائم رکھنا ایک مشکل عمل ہے۔

مزید پڑھیں: صنعتکاروں کا سی پیک روٹ پر چینی صنعتوں کے قیام پر اعتراض

ان کا مزید کہنا تھا کہ بیرونِ ملک شراکت داروں کے بدلتے ہی تعلقات اور کاروبار کی سمت میں بھی تبدیلی آتی ہے۔

ایک اور نجی سرمایہ کار کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ چین نے اپنے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ منصوبے میں پاکستان کا انتخاب کیا جس سے پاکستان میں کاروباری حلقے میں ایک جذبہ پیدا ہوا تھا لیکن اب چینی مطالبات کو پورا کرنے میں پاکستانی کمپنیوں کی ناکامی نے ملک کے سرمایہ کاروں کو مایوس کردیا ہے۔

ایک اور سرمایہ کار کا کہنا تھا کہ گذشتہ ہفتے امریکی صدر کے پاکستان کے خلاف سخت الفاظ کے خلاف چین نے عالمی سطح پر گرم جوشی کے ساتھ شدید ردِ عمل کا اظہار کیا لیکن جیسے ہی بات اقتصادی مفادات کی آتی ہے تو چین کا رویہ ٹھنڈا اور خودغرض ہو جاتا ہے۔

سی پیک معاملات کو دیکھنے والے پاکستان اور چین کے سرکاری حکام اپنے نقطہ نظر کی توثیق کرتے ہیں لیکن پاکستان میں پسماندگی کو ختم کرنے کی غرض سے چین کو متحرک کرنے کے پاکستانی موقف کے پیش نظر چینیوں کا رویہ محدود ہو جاتا ہے اور وہ ایسی شرائط لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے ان کے اپنے مفادات ظاہر ہوتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں پاکستانی کمپنیوں کی چینی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری میں مبینہ طور پر گرم جوشی کی کمی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک کا سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کو ہوگا، وزیراعظم

ایک سرمایہ کار کا کہنا تھا کہ چینی اپنے منصوبوں کو اپنے مفاد میں خود سے مکمل کرنا چاہتے ہیں جبکہ انہیں اس منصوبے کے تحت ملکی سطح پر ہونے والے فوائد کی کوئی فکر نہیں۔

پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کی سطح پر تعاون نیا ہے جس میں دونوں ممالک میں ایک جستجو پائی جاتی ہے لیکن سیاسی نظام میں پریشانیاں بھی ابھر رہی ہیں۔

چین کی مرکزی حکومت کے اہداف پاکستان میں کثیر الجماعتی جمہوری نظام کے اہداف سے کافی مختلف ہیں۔


یہ رپورٹ 28 اگست 2017 کو ڈان اخبار کے میگزین ’بزنس اینڈ فنانس ویکلی‘ میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

riz Aug 28, 2017 01:07pm
private chinese companies ka sath business krna boht mushkil hooga,, yeh nahi k woh competative hain but us ko un ki govt ki pori support hai aur woh yahan Pak main bhi khasosi marart chaht y hain,, khasosi marart k sath local business community ko bohat mushkil hoga compete krna,, Pak ko apny business interest ki hifazt krni hogi,