رواں برس کے مارکیٹ اشاریوں سے معلوم ہورہا ہے کہ عید الاضحیٰ کے اخراجات میں کمی واقع ہوئی، جبکہ گذشتہ کئی دہائیوں میں ان میں اضافہ دیکھا جاتا تھا۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی تہواروں کے موقع پرمارکیٹ کو چلانے کے لیے صرف جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ یا جانوروں کی قربانی کا جذبہ کافی نہیں ہے۔

تاجروں کے مطابق گذشتہ سال کے مقابلے میں رواں برس عید سے متعلق سرگرمیوں میں کمی دیکھنے میں آئی جبکہ مارکیٹ کے اعداد وشمار بھی اس بات کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔

ترسیلات کے بہاؤ میں کمی اور پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کی جانب سے لائیو اسٹاک مارکیٹ میں 350 ارب روپے تخمینے میں کمی کی وجہ سے بھی اس خیال کو تقویت ملتی ہے۔

ابتدا میں قربانی کے جانوروں کی قیمتیں 30 فیصد زائد تھیں اور ممکنہ طور پر معمول کی سرگرمیاں ممکن تھیں، لیکن قابل قدر اعداو شمار کی غیر موجودگی میں اخراجات کے گراف کی سمت میں اچانک تبدیلی سے متعلق تفصیلات معلوم نہیں ہوسکتیں کیونکہ مویشیوں کی خرید و فروخت زیادہ تر نقد رقم کے عوض ہوتی ہے، لہذا یہ مشاہدہ اندازوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

ویڈیو دیکھیں: عیدالاضحیٰ پر 81 لاکھ جانوروں کی قربانی

تاجر برادری عیدالاضحیٰ کے موقع پر اس کمی کے حوالے سے تذبذب اور تعجب کا شکار رہی، جبکہ حکام لاتعلق نظر آئے، اس حوالے سے جب سیاستدانوں سے رابطہ کیا گیا تو وہ اپنی پارٹی کے موقف پیش کرنے لگے۔

اس حوالے سے جب اسٹیٹ بینک کے اعلیٰ عہدیداران سے رابطہ کیا گیا تو انہوں ںے ڈان کو بتایا کہ اگرچہ ابھی تک اعداد وشمار جاری نہیں کیے گئے، لیکن رواں ماہ ترسیلات کے بہاؤ میں بہتری آئی ہے۔

انہوں نے عوام میں نمود و نمائش کے رجحان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر مارکیٹ اسی طرح سست رہی، تو یہ عید کے حوالے سے معیشیت سے متعلق وسیع تشویش کا باعث ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ برا ہو، عوام کی جانب سے بچت کی سرمایہ کاری معیشت کے حوالے سے زیادہ پختہ اقتصادی رویے کی عکاسی کرتی ہے‘۔

دوسری جانب معاشی وزارتوں کے حکام نے اس موضوع میں کسی قسم کی دلچسپی ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ ہمارا معاملہ نہیں'۔

ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا، 'یہ لوگوں کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اپنی رقم کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں اور مذہبی تہواروں کو وہ کس طرح مناتے ہیں اور میرا نہیں خیال کہ یہ موضوع اسلام آباد میں کسی بھی پالیسی فورم پر ڈسکس ہوا ہو'۔

ویڈیو دیکھیں: اجتماعی قربانی کے رحجان میں اضافہ

وفاقی وزیر برائے فوڈ سیکیورٹی اور ریسرچ سکندر حیات بوسن سے صحت کی کچھ وجوہات کی بناء پر رابطہ نہیں ہوسکا جبکہ حکمران جماعت کے چند دیگر وزراء نے اس کا ملبہ سیاسی حریفوں پر ڈال دیا اور کہا 'لوگ ایک منتخب وزیراعظم کی نااہلی پر دل گرفتہ ہیں، عید پر اس رجحان سے لوگوں کے موڈ کا اندازہ ہوتا ہے'۔

تاہم آزاد ماہرین نے سیاستدانوں کے اس بیان کو مسترد کردیا، ایک بینکار نے کہا 'میرا نہیں خیال کہ مذہبی فریضہ سرانجام دینے والا کوئی شخص سیاسی خدشات کی بناء پر قربانی سے دستبردار ہوگا، وہ متعدد وجوہات کی بناء پر اپنا ارادہ تبدیل کرسکتا ہے'۔

کچھ لوگوں نے قربانی سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں جیسے کہ میٹ ون، زینتھ، میٹ پرو وغیرہ پر انحصار کیا کیونکہ ان کے پاس گھر میں قربانی کرنے کا وقت یا دلچسپی نہیں تھی۔

جبکہ کچھ لوگ اس خیال کا پرچار بھی کرتے نظر آئے کہ قربانی کے لیے مخصوص رقم کو سماجی اور فلاحی کاموں کے لیے عطیہ کردینا چاہیے۔

لیکن مارکیٹ پر قریبی نظر رکھنے والوں کے لیے عید مارکیٹ میں کمی کوئی حیران کن بات نہیں تھی کیونکہ انہوں نے پہلے ہی رواں برس مویشی مارکیٹ میں ریٹیل سرمایہ کاری میں کمی کی نشاندہی کردی تھی۔


یہ تجزیہ ڈان اخبار کے 'دی بزنس اینڈ فنانس ویکلی' میں 5 ستمبر 2017 کو شائع ہوا، مکمل رپورٹ یہاں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں