لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اس ہفتے کے اختتام پر کراچی کی سیاست کا تازہ ڈرامہ کسی بڑے پلاٹ کی اسکرپٹ کا حصہ تھا یا نہیں۔ یہ بھی واضح نہیں تھا کہ آیا یہ صرف ایک مذاق ہے، ڈھونگ ہے، یا ایک سانحہ۔

سب سے پہلے بدھ کے روز کراچی پریس کلب میں اعلان سامنے آیا کہ فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم پاکستان اور سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال کی قیادت میں پاک سرزمین پارٹی متحد ہو کر اگلا الیکشن لڑنے والے ہیں۔

دونوں رہنماؤں کی مشترکہ پریس کانفرنس آپس میں ایک طویل میٹنگ کے بعد ہوئی، جو کہ مبینہ طور پر ڈیفنس میں ایک ایجنسی 'سیف ہاؤس' میں ہوئی۔ فاروق ستار سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے سابقہ خدشات کے باوجود میٹنگ میں شرکت کریں، کمال سے ملاقات کریں، اور اختلافات کا خاتمہ کریں۔

پریس کانفرنس کے مندرجات سے ہر کوئی واقف ہے اس لیے دہرانے کا فائدہ نہیں۔ مگر جو کچھ بھی کہا گیا ہو، دونوں رہنماؤں کی باڈی لینگوئیج الگ ہی کہانی بتاتی ہے۔ فاروق ستار دبے دبے سے نظر آئے اور اپنے معمول کے برخلاف زیادہ بولنے کے خواہشمند نہیں دکھائی دیے، جبکہ مصطفیٰ کمال صاف طور پر فاتحانہ انداز میں نظر آئے۔

لگتا ہے کہ پی ایس پی، جس نے اب تک ایم کیو ایم پاکستان کے اندر تک رسائی حاصل نہیں کی ہے، جس کا سوشل میڈیا پر اکثر مذاق اڑایا جاتا ہے اور جسے ہر گناہ دھو دینے والی لانڈری قرار دیا جاتا ہے، کے رہنما مصطفیٰ کمال نے ایم کیو ایم کی زیادہ ہی مخالفت کر ڈالی ہے۔

کیا یہ اعتماد ان کے طاقتور پشت پناہوں کی وجہ سے تھا یا حیران و پریشان کرنے کے حربوں میں سے ایک اور زبردست اسکرپٹ والا حربہ تھا، یہ بتانا آسان نہیں ہے، مگر مصطفیٰ کمال کی واضح خودسری کے جواب میں ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کا ردِعمل متوقع ہی تھا۔

ایم کیو ایم پاکستان پر جو بھی دباؤ ہوں، یہ اپنے سابق رہنما الطاف حسین کی 22 اگست والی تقریر کے بعد سے شہری سندھ میں اب بھی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے۔ یہ سب کے سامنے تھا کہ جمعرات کی صبح تک فاروق ستار اپنے مؤقف میں سب سے علیحدہ ہوچکے نظر آنے لگے تھے۔ اتنے زیادہ کہ آخر رات دیر سے ہونے والی پریس کانفرنس میں انہوں نے "دل ٹوٹ جانے اور مایوس ہوجانے" کی بناء پر سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا، کیوں کہ ان کے مطابق ان کے دوستوں اور دشمنوں نے "مقصد سے 35 سالہ غیر متزلزل وابستگی کے باوجود" ان پر حملے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

اپنے فیصلے کا اعلان کرنے اور باہر نکل جانے کے آدھے گھنٹے بعد انہوں نے بدنام ہوچکے اور ٹھکرا دیے گئے ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پارٹی سے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا، اور کہا کہ ان کی عمر رسیدہ والدہ نے ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کی اپیل پر انہیں استعفیٰ واپس لینے کا حکم دیا تھا۔

اپنی پریس کانفرنس کے اختتام میں، تقریباً اضافی خیال کی طرح انہوں نے ہلکے پھلکے انداز میں، اور اس حقیقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہ ان کے خطاب کا زیادہ تر حصہ کمال کے خلاف تھا، کہا کہ پی ایس پی کے ساتھ ان کا انتخابی اتحاد قائم رہے گا۔

یہی وہ آخری ٹکڑا تھا جس سے یہ تاثر ابھرا کہ جیسے پورا ڈرامہ اس لیے تیار کیا گیا تھا تاکہ پہلے ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کے اتحاد یا ایک دوسرے میں ضم ہونے کی حیران کن خبر پہنچائی جائے تاکہ نہ صرف حمایتیوں کا ردِعمل جانچا جا سکے، اور پھر استعفیٰ دے کر انہیں نئی حقیقت سے مصالحت پر آمادہ کیا جا سکے۔

آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب بہت زیادہ گہری باتیں ہیں اور پریس کانفرنس صرف سندھ کی شہری سیاست میں کچھ نئے تیکھے موڑ پر مشتمل تھی۔ مگر کیا آپ یہ بھی کہیں گے کہ ملک کی طاقتور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے کراچی کے معاملات میں اتنا وقت اور سرمایہ اس لیے لگایا ہے تاکہ فارغ کھڑے رہیں اور ناکامی کا سامنا کریں؟

اسکرپٹ کے لکھاریوں کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ جلد بازی میں ہوئی یہ تند و تیز شادی کیوں تیزی سے ناگزیر بنتی جا رہی تھی۔ گذشتہ سال اگست میں الطاف حسین کی خودکش تقریر کے بعد جتنے بھی دھڑے بنے اور جتنے بھی رہنما سامنے آئے، ان میں سے مصطفیٰ کمال ہی اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک سب سے زیادہ قابلِ اعتبار ہیں۔

ان کی عوامی شخصیت، ایم کیو ایم کے سابق قائد کے خلاف ان کی زبان، ایم کیو ایم کا نام اور الطاف کی نمائندہ تمام چیزوں کو دفن کر دینے کی ان کی برملا خواہش سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے نظریات کی عکاس سمجھی جاتی ہے۔

دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان نے الطاف حسین کی تقریر کے بعد ان سے کھلم کھلا لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان کے نظریات قابلِ قبول نہیں تھے، اس لیے وہ لندن قیادت سے اپنے تعلقات 'توڑ' رہے تھے۔ مگر اس دھڑے کے رہنماؤں نے سابق قائد کی مذمت اس جوش و جذبے سے نہیں کی جیسی کہ اب تک مصطفیٰ کمال نے کی ہے۔

مگر اس 'اتحاد'، جیسا کہ ایک جماعت نے کہا، یا انضمام، جیسا کہ دوسری جماعت نے کہا، تیار کرنے کی جلد شاید اس لیے بھی تھی کیوں کہ پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری مبینہ طور پر ایم کیو ایم پاکستان کے قانون سازوں سے رابطے بڑھا رہے تھے۔

دیہی سندھ میں پی پی پی کی ناقابلِ تقسیم حمایت کو دیکھتے ہوئے پیپلز پارٹی اگر اگلے انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان کے مضبوط امیدواروں کو حاصل کر لیتی، تو مشکل حلقوں میں اس کے جیتنے کے امکانات میں اضافہ ہو سکتا تھا۔ یہ اس منظرنامے سے مطابقت نہیں رکھتا جو 2018 کے انتخابات کے لیے انجینیئر کیا جا رہا ہے۔

مبینہ گیم پلان مذہبی اتحاد ایم ایم اے کی بحالی میں بھی نظر آ سکتا ہے جو کہ 2002 میں خیبر پختونخواہ میں کامیابی کے بعد 2008 کے انتخابات تک بکھر چکا تھا۔

کہا جا رہا تھا کہ اس بکھرنے کا فائدہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کو ہوا تھا کیوں کہ دوسری صورت میں دائیں بازو کا مذہبی ووٹ پی پی پی یا اے این پی کی جانب منتقل نہیں ہونا تھا۔ اب ان تمام گروہوں کے آپس میں مل جانے سے نسبتاً چھوٹی سیاسی تنظمیوں کے ووٹ مجتمع ہوجائیں گے، اور ہوسکتا ہے کہ کوئی جماعت اکیلے حکومت نہ بنا سکے، دو تہائی اکثریت تو دور کی بات ہے۔

سیاست کو ناممکنات کا کھیل کہا جاتا ہے۔ مجھے یہی بات سیاسی تجزیات کے بارے میں بھی کہنے دیں۔ یہ میرے لیے دونوں صورتوں میں جیت ہے۔ اگر میں غلط ہوا اور میرے سارے تجزیے صرف میرے تخیل کی پیداوار ہیں تو پاکستان غیر یقینی سیاسی صورتحال کے ایک اور تباہ کن دورانیے سے بچ جائے گا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں