ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا

کراچی میں منعقد ہونے والی عالمی اردو کانفرنس میں صدر آرٹس کونسل جناب احمد شاہ کے خطاب کو جس انداز میں محترم ابنِ مستقیم نے صاحب اپنے بلاگ کے ذریعے بیان کیا ہے اُس پر مرزا غالب کے شعر کا مندرجہ بالا مصرعہ یاد آگیا اور جب جنابِ من میزبان صاحب کے خطاب کے اقتباس پڑھے تو مرزا غالب کا یہ شعر زبان پر آگیا۔

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں

مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں

عالمی کانفرنس میں بات ہوئی ہے پاک ہند بٹوارے کی، اُس بٹوارے سے ملے زخموں کی، ایسے زخم جو تازہ ہیں اور 70 برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی بھر نہیں پائے۔

ابوالکلام آزاد کی نصیحت اور انتباہ کی بات ہوئی۔ تقریر اور بلاگ بیشک گڈمڈ ہوچکے، لیکن زور رہا ہجرت، قافلوں اور اُن قافلوں پر ڈھائے گئے مظالم پر۔ بات چلی، ابوالکلام آزاد کی، اُن کی نصیحت اور پھر اُس پر عمل سے انکار، اور نافرمانی کی، اور پھر جب بات نافرمانی کی ہوئی تو اُس کے نتائج بھگتنے اور پھر پچھتاوے سے چلتی ہوئی اشک باری پر رُکی، جہاں تقریر اور اُس کا حوالہ ہی نہیں، بلکہ بلاگ بھی اختتام کو پہنچا۔

گویا ہوا یہ کہ اسٹیج سے جو بات نکلی وہ دور تک گئی۔ اُسی بات کو دہراتے دہراتے بلاگر صاحب بھی جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے اور اُن کے آںسو ٹپک پڑے، یعنی درد ایک ہی ہے بیاں کا انداز اور فورم اپنا اپنا، لیکن یہ بات طے ہے کہ برسوں پہلے ملا درد اب بھی تھما نہیں، تاریخ کا گھاؤ ابھی تک بھرا نہیں، جیسے مرض لاعلاج ہو کوئی۔

پڑھیے: "نانو، یہ ہجرت کیا ہوتی ہے؟"

درد تو تھا، جس کی ہر ٹیس سے آہ نکلتی ہے۔ لیکن صرف دُکھڑا ہی نہیں، اُس تقریر میں قربانیوں اور نعمتوں کا بھی ذکر ہے، وہ نعمتیں جو اِس نئے وطن کی نئی بستیوں میں لائی گئیں اور قربانیاں وہی جن کا ذکر الطاف حسین سے لے کر مصطفیٰ کمال بھی کرتے رہتے ہیں۔ قربانیوں اور نعمتوں کی بات مان لیتے ہیں، لیکن کچھ ادھورا ادھورا سا ہے، بیان کیا گیا قصہ پورا نہیں، ذکر بھی آدھا ادھورا ہے، کئی ایسی باتیں تھیں جو محترم مقرر اور محترم بلاگر دونوں سے رہ گئیں۔

وطنِ عزیز کے لیے دی گئی قربانیوں سے کوئی کیسے انکار کرسکتا ہے؟ لیکن ہم نے تو بچپن سے یہ سنا ہے کہ ہمیشہ سچ اور وہ بھی پورا سچ بولا جائے، آدھا سچ، سچ نہیں کہلاتا۔ یہ سچ ہے کہ نئے نویلے وطن کے پرپیچ و مشکل راستوں اور خطرے سے گھری پگڈنڈیوں سے گزرتے قافلوں کے سینکڑوں مسافروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ وہی بربریت کا عالم تھا جو مقرر نے بیان فرمایا، 17 مسلم نشستوں کو سینے میں سنبھال کر رکھنے پر کسی کو اعتراض نہیں اور اُن 56 فیصد ووٹرز کو بھی یاد رکھا جائے۔ لیکن اِن ناانصافیوں اور مظالم کے ساتھ ہم تحریکِ پاکستان کے اُن کرداروں کی تعریف میں ایک لفظ نہیں بولتے جن کی محنت، تحریک، جدوجہد اور قربانیوں کی بدولت ہمیں یہ وطنِ عزیز نصیب ہوا۔

جنابِ من سندھ اسمبلی میں جی ایم سید، میران محمد شاہ، بندہ علی خان اور تحریکِ پاکستان کے ہیروز کے کردار کو کیسے نظرانداز کردیں جن کا شمار اِس دیس کے بنانے والوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان تو سندھ اسمبلی کی قرارداد سے بھی 4 سال بعد بنا جو قرارداد جی ایم سید نے سندھ اسمبلی سے 3 مارچ 1943ء کو منظور کروائی تھی۔

اِس قرارداد کا ذکر کرتے ہوئے جی ایم سید اپنے آخری عدالتی بیان ’سندھ گالھائی تھی‘ کے صفحہ نمبر 64 پر لکھتے ہیں کہ اُس دن اجلاس میں اللہ بخش سومرو کراچی سے باہر ہونے کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکے، جبکہ اسمبلی کے آزاد ہندو گروپ کے ممبران اجلاس سے واک آؤٹ کرکے باہر نکل گئے، دو ہندو وزراء اور ایک پارلیمانی سیکریٹری نے قرارداد کی مخالفت کی۔

پڑھیے: جی ایم سید اور ضیاء الحق کی 'سیاسی' ملاقاتیں

قربانیوں کے بغیر کسی قرارداد پر عمل ہونے یا نہ ہونے پر بحث نہیں، لیکن کیا وطنِ عزیز کا یہ وجود بنگال، سندھ اور سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) کی مرضی کے بغیر ممکن تھا؟ اِس لیے پاکستان کی بنیاد رکھنے والوں کی جدوجہد کو بھی قربانیوں دینے والی بات کے ساتھ ہی لیکر چلنا پڑے گا۔

ہمیں اُن کی قربانیاں یاد ہیں جو یو پی، سی پی، دہلی، دکن، کاٹھیاواڑ، میرٹھ اور بیکانیر سمیت کئی دیگر علاقوں سے پاکستان پہنچے، لیکن سندھ اور پنجاب سے اپنی زندگی اور کُل کائنات کی کمائی پونجی چھوڑ کر دور دیس کو جانے والوں کی قربانیاں بھی تو ایک حقیقت ہے۔ اِس سوال کا تو اب بھی جواب نہیں مل سکا کہ بٹوارے کے دوران اُن لاکھوں ہندوؤں اور سِکھوں کا کیا قصور تھا جو اپنا بسا بسایا وطن چھوڑ کر ایک اجنبی دیس کو چل دیے؟ دُکھ تو جناب دُکھ ہوتا ہے، اور دربدری کا دُکھ تو بالکل ایک جیسا ہوتا ہے۔ اُن کے درد کو اگر محسوس نہیں کیا جاسکتا تو کم سے کم ذکرِ خیر ہی ہونا چاہیے، جنہوں نے اپنے اباؤ اجداد کی زمینیں، ملکیتیں، جائیدادیں اور اپنی سات پُرکھوں کی قبریں چھوڑدیں۔

بٹوارے کی لکیروں سے ظلم مقدر بن جاتے ہیں، یہ ایک سچ ہے، لیکن دوسرا سچ یہ بھی ہے کہ ایک دن سفر کا اختتام ہونا ہوتا ہے، نیا ٹھکانا ملتا ہے، ایک نیا گھر بس جاتا ہے، پھر اُسی نئے گھر میں نئی زندگی شروع ہوتی ہے، اندھیرے ختم اور اُجالے شروع ہونے لگتے ہیں۔ مستقبل سنورتا ہے تو نسلیں آباد ہوتی ہیں، ترقی ہوتی ہے تو دُکھوں کا مداوا ہوجاتا ہے، زخم بھرنے لگتے ہیں تو غموں کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور آنگن میں خوشیاں آجاتی ہیں۔ اب کوئی نہ مانے تو الگ بات ہے۔

بٹوارے سے جُڑی کئی خون آلود داستانیں اپنی جگہ، اور اُن خون آلود یادوں سے جُڑی یہ آخری نسل ہی ہے، لیکن جب دوسری اور تیسری نسل بھی اُن خونی یادوں سے چمٹی رہے، تاریخ کے اَن دیکھے اور بے رحم ظلم کا رونا روئے تو کیا کیا جائے؟ وہ سفر کٹھن اور طویل تھا، لیکن منزل بھی ملی۔ اِس لیے جب کہیں تپتی ریت میں چلتے اور سائے کی تلاش میں نکلے کسی مسافر کو مستقل آستان مل جائے تو اُس کا ذکر بھی ہوجانا چاہیے۔ جب کسی ہچکی کھاتے، لُٹے قافلے کو ہاتھ کی تھپکی سے کوئی ڈھارس بندھائے، کسی اجنبی کو کوئی میزبان گلے لگائے اور اپنا سب کچھ اُس کے حوالے کردے تو زیادہ نہیں تو دو لفظ شکریہ ادائیگی کے بھی ہونے چائیے۔ پیاسے مسافر کو ایک گھونٹ پانی پلانے والا بھی تو محسن ہوتا ہے، اپنا گھر کسی کے لیے خالی کرنا یا اُس گھر میں کسی کو جگہ دینا، کوئی معمولی بات نہیں، ابوالکلام کی نصیحت کو یاد کرنا جی جلانے کے مترادف نہیں؟ کیوں کہ پاکستان ہم سب کا گھر ہے، اور ہم جتنا جلدی اِس کو اپنا گھر تسلیم کرلیں، یہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔

ابوالکلام آزاد کی نصیحت بعد میں یاد آنی چاہیے، مگر اِس سے پہلے ذکر اُس جی ایم سید کا ہونا چاہیے، جنہوں نے اعلان کیا تھا کہ ہندوستان سے آنے والے مہمان ہمارے مسلمان بھائی ہیں، اُن کے لیے دل اور گھر کے دروازے کھلے ہیں۔ سندھ میں اُن مسلم بھائیوں کے استقبال کے حوالے سے ’سندھ گالھائی تھی‘ کتاب کے صفحے 196 پر جی ایم سید کی زبانی کہا گیا ہے کہ وہ سندھ ہی تھا جس نے محبت کے پر کھولے، فسادات سے متاثر ہزارہ ستم رسیدہ بہاری و مہاجرین بھائیوں کو اپنے سینے سے لگایا، اُن کے آرام و آسائش کا مکمل بندوبست کیا۔ لاکھوں کی تعداد میں ان بھائیوں کا استقبال کیا گیا۔

پڑھیے: لازمی سروسز ایکٹ اور ملُو مہارانی

اُس پیر الاھی بخش کو نہیں بھولنا چاہیے جنہوں نے دہلی سے دکن تک جاکر پریس کانفرنسز کرکے مہمانوں کے لیے سندھ کے آنگن، گھر اور راستے کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ اُن کی دہلی میں 11 جون 1947ء کو کی گئی ایک پریس کانفرنس 14 جون کے اخبار ’ایسٹرن ٹائمز‘ میں شایع ہوئی جس میں اُنہوں نے کہا کہ میں ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ کراچی آئیں، سندھ میں کارخانوں اور عمارتوں کو تعمیر کرنے کے لیے اسٹیٹ ٹریڈنگ بورڈ قائم کیا ہے، میں آپ کو لینے آیا ہوں۔

جی یہ وہی پیر تھے جو ہر اُس بات پر آمنا صدقنا کہا کرتے تھے جو بات مولانا شبیر عثمانی کے منہ سے نکلتی تھی، جی ہاں یہ وہی پر الاہی بخش تھے جن کی زیرِ صدارت 4 جنوری 1948ء کو مولانا شبیر عثمانی کی جمیعت المہاجرین بنی تھی، حسن جعفر زیدی کی مرتب کردہ نفاذ اسلام کے نام پر ملائیت اور فرقہ واریت کتاب کے صفحے 71 پر اِس بات کا ذکر موجود ہے۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ پیر علی محمد راشدی سے لے کر سندھ کے اکثر حُکمران اور سیاستدان اُن مہمانوں کے لیے ہاتھوں میں پھول لیے کھڑے تھے۔

تھوڑا ذکر اُس پیرزادہ عبدالستار کا بھی ہونا چاہیے جنہوں نے پاکستان بننے سے پہلے بار بار کہا کہ یہ ملک سب کا ہے، جب ’سندھ صرف سندھیوں کا‘ نعرہ لگا تو پیرزادہ نے کہا کہ ہم اقلیتی مسلم صوبوں کے مسلمانوں کا کشادہ دلی سے خیر مقدم کریں گے۔ سندھی، غیر سندھی، ملکی اور غیر ملکی کہنے سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ پاکستان اُن کا بھی ایسا ہی وطن ہے جیسا کہ ہمارا ہے۔ یہ بیان 22 مارچ 1947ء کو نوائے وقت میں شایع ہوا جس کا حوالہ زاہد چودہری کی کتاب ’سندھ مسئلہ خود مختاری کا آغاز‘ کے صفحہ 202 پر موجود ہے۔

دسمبر 1947ء میں وزیرِاعظم لیاقت علی خان کی صدارت میں مہاجرین کی بحالی معاملے پر ایک بین الصوبائی اجلاس ہوا، جس میں تمام وزراء اعلیٰ اور گورنر شریک ہوئے۔ اُس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ سندھ میں 5 لاکھ مہاجرین کو آباد کیا جائے گا، سرحد میں ایک لاکھ، بلوچستان، بہاولپور اور خیرپور ریاست میں 50، 50 ہزار مہاجرین کو آباد کیا جائے گا۔ جب وہ 5 لاکھ آباد ہوئے تو مزید آبادی کا پلان بنایا گیا، 2 مارچ 1948ء کو خانبہادر کھڑو نے بیان دیا کہ سندھ میں 10 لاکھ مہاجرین کو آباد کیا جاچکا ہے اور مرکز نے سندھ کو بحالیات کی مد میں صرف ڈیڑہ کروڑ روپے دیے ہیں۔ جب ایوب کھڑو نے سندھ میں زیادہ لوگوں کے آنے کی مخالفت کی تو اُن کو وزارت سے ہاتھ دھونا پڑا اور مقدمے کا سامنا کرکے جیل جانا پڑگیا۔

یہ سارا قصہ پڑھ کر مجھے مشتاق وجدی صاحب یاد آگئے جو اگست 1947ء کو بمبئی ریلوے میں اسسٹنٹ اکاؤنٹنٹ مقرر ہوئے، لیکن پاکستان بننے کے بعد یہاں چلے آئے۔ اُنہیں یہاں ایک اچھی نوکری ملی، وہ ترقی کرتے کرتے پاکستان کے کنٹرولر اکاؤنٹنٹ اور آڈیٹر جنرل کے عہدے تک پہنچے اور وہاں سے رٹائرڈ ہوئے۔ رٹائرٹمنٹ کے بعد وجدی صاحب نے اپنی سوانح حیات لکھی، ہنگاموں میں زندگی نامی اِس کتاب میں انہوں نے اپنی جنم بھومی، یو پی، الہ آباد ،گنگا جمنا کے کناروں، اپنے گاؤں، پڑوس، دوست، عزیز و اکارب، اپنے شہر، اپنے عزیز و اکارب، اپنے ماضی کی ہر چیز کا قصہ کہانی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے، اُنہوں نے نہرو، گاندھی سے لے کر سب کا ذکر تعریفی انداز میں کیا ہے، بھارت اور پاکستان کے سیاستدانوں کا ذکر کیا ہے، قصہ مختصرا یہ کہ اِس کتاب میں پُرانے دیس سے جڑی ہر بات کا ذکر تعریفی کلمات میں ہے، لیکن پاکستان سے جُڑی ہر بات میں دُکھ کا پہلو عیان ہے۔

اِس کتاب میں کئی شعر ہیں جن میں ایک یہ بھی کہ،

دشمن کو بھی اللہ نہ چھڑائے وطن سے

جانے وہی بلبل جو بچھڑ جائے چمن سے

لیاقت علی خان کے پولیٹکل سیکریٹری نواب صدیق خان نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ، کچھ لوگ چڑانے کی نیت سے ہمیشہ سوالات کرتے تھے کہ کیا قیامِ پاکستان کا فیصلہ درست تھا؟ اب اُنہیں کون سمجھائے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو وہ انڈر سیکریٹری یا ڈپٹی سیکریٹری کے عہدے پر نہیں پہنچتے، وہ ہندوؤں کے غلام ہی ہوتے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (7) بند ہیں

Mustafa Jan 03, 2018 07:01pm
Great Column.........that depicts truth reality and hospitality.........that made all the migrants from Indian soil to Pakistan (Sindh) soil. Loving it saeen.
یمین الاسلام زبیری Jan 03, 2018 07:34pm
ابراہیم صاحب کا مضمون خیال کو مہمیز کرتا ہے۔ اقبال کا شعر یاد آتا ہے: یہ تگا پوئے دمادم زندگانی کی دلیل۔ کچھ بھی ہو ہمیں موجودہ پاکستان کے علاقوں کے انصار کو نہیں بھولنا چاہیئے۔ ہمیں یقینا اپنی تاریخ کو یاد رکھنا چاہیئے، اور اس کے ساتھ ہی ہمیں آج کے مسئلوں اور اپنے مستقبل کے لیے کام کرنا چاہیے۔ پاکستان میں آکر سب شیرو شکر ہوگئے تھے اور اسلام کے نام پر۔ اب لگتا ہے کہ میرا اور تیرا اسلام ہی ہمیں ایک دوسرے سے الگ کر رہا ہے۔ پاکستان نے یقینا ترقی کی ہے۔ لیکن امیر غریب کے بیچ خلیج بڑھی ہے۔ اگر یہ اردو کانفرینس کے تعلق سے مضمون ہے تو پاکستان میں اردو اور تمام مقامی زبانوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔ آخر یہ زبانیں کس کے مفاد میں نہیں؟ بہت سے مسائل ہیں اگر ہمارے رہبر ان پر نہیں سوچ رہے تو عوام کو سوچنا ہوگا۔
Tipu Jan 03, 2018 07:51pm
Baat app nay mazi hi ki hay. 1947 aur us kay kuch arsay baad tak to jazba kabil e did tha. Baat to 20/25 saal baad ki ho rahi hay. Blogger ka eshara bhi esi taraf tha.
Nadeem Jan 03, 2018 09:44pm
Mohtaram in sb ka zikr krne k liye to aap smeet tamam hukumati forums including education syllabus maujood hain. Aur doisri baat yeh k dooosro ne bhi qurbaniya dee, to mohtaram wo aone hissay ki qurbani se kaheen ziyada blkay poora ka poora samraat simait rahe hain.
NavedYasir Jan 04, 2018 10:35am
"اب اُنہیں کون سمجھائے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو وہ انڈر سیکریٹری یا ڈپٹی سیکریٹری کے عہدے پر نہیں پہنچتے، وہ ہندوؤں کے غلام ہی ہوتے۔" جناب! اگر آپ جذبات سےہٹ کر،اس وقت کے زمینی حقائق اور آبادی کے تناسب اورآبادی میں اضافے کی شرح کا بغور مطالۂ فرمائیں - اورابوالکلام آزاد کے اُس حکومتی فورمولے کو سامنے رکھیں جسے "کانگریس کے شو بواۓ" کہکر مستردکردیا گیا تھا - اگر مان لیا جاتا۔ مسلمانانے ہند اس وقت بھی اور آج بھی بہت مضبوط پوزیشن میں ھوتے، اور آزاد بار صغیرمیں "ہندوؤں کے یا کسی اور کے غلام ھونے کا سوال ہی نہی ھوتا"
NavedYasir Jan 04, 2018 10:38am
اگر آپ جذبات سےہٹ کر اس وقت کے زمینی حقائق , آبادی کے تناسب اور آبادی میں اضافے کی شرح کا بغور مطالۂ فرمائیں - اورابوالکلام آزاد کے اُس حکومتی فورمولے کو سامنے رکھیں جسے "کانگریس کے شو بواۓ" کہکر مستردکردیا گیا تھا - اگر مان لیا جاتا۔ مسلمانانے ہند اس وقت بھی اور آج بھی بہت مضبوط پوزیشن میں ھوتے، اور آزاد بار صغیرمیں "ہندوؤں کے یا کسی اور کے غلام ھونے کا سوال ہی نہی ھوتا"
NavedYasir Jan 04, 2018 11:38am
بلکہ میرا خیال ہے! آج کل ان عظیم فرزندان سندھ (جی ایم سید، پیر الاھی بخش، میران محمد شاہ، بندہ علی خان،مخدوم محمد زمان طالب المولا۔۔۔۔) کے وارسوں نے اپنے بڑوں کےکیے ہوے وعدوں اورمھما ن نوازی کو بھلاکر عصبیت کی چادر اوڑھ لی ھے۔ یھی وجہ ھے کے آج بے پنہا قربانیاں دے ، اپناگھربار، اپنے بزرگوں کی قبریں چھوڑ کر ہجرت کرکےآنے والوں کو ابوالکلام آزاد کی نصیحتین شددت سے یاد آتی ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج ابوالکلام آزاد کی ہر کہی بات لفظ بہ لفظ صحیح ثابت ہورھی یے۔