شریف برادران کی اچانک سعودی عرب روانگی اور سعودی ولی عہد کے ساتھ ان کی مبینہ ملاقات نے ملک میں طویل عرصے سے جاری سیاسی ڈرامے کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔ واضح طور پر یہ ایک معمول کا سرکاری دورہ نہیں تھا؛ چنانچہ یہ حیران کن نہیں ہے کہ اس پر اتنی چہ مگوئیاں کیوں ہوئی ہیں۔

ملاقات میں جو کچھ بھی ہوا ہو، اس کا شریف خاندان کے سیاسی سفر کے مستقبل پر انتہائی گہرا اثر ہونے کا امکان ہے۔

یہ دیکھنا نہایت دلچسپ ہوگا کہ آیا نواز شریف واپس آ کر بھی ٹکراؤ کی سیاست جاری رکھتے ہیں یا اعتدال کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وسیع پیمانے پر پھیل رہی افواہوں کے باوجود کوئی این آر او سامنے نہ آئے۔ مگر پھر بھی کسی قسم کی ڈیل کے طے پاجانے کو رد نہیں کیا جاسکتا۔

اس حوالے سے کافی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ سعودی عرب نے حکمراں جماعت کے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے نواز شریف پر زور دیا ہے کہ وہ خود ایک طرف ہوجائیں اور پارٹی قیادت اپنے چھوٹے بھائی کو سونپ دیں۔

مزید پڑھیے: شہباز شریف کا سعودی عرب کا ہنگامی دورہ

مگر پھر بھی اس حوالے سے کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ آیا نااہل قرار پاچکے سابق وزیرِ اعظم اپنے کرپشن کے مقدمات جھیلتے ہوئے اپنی پارٹی قیادت کے حوالے سے کسی دباؤ کو قبول کریں گے یا نہیں۔ ان کے لیے چیلنج قبول کرنے اور لڑائی آخر تک لڑنے کے اعلان کے بعد پیچھے ہٹنا اب آسان نہیں ہوگا۔ انہیں سیاسی منظرنامے سے خاموشی سے ہٹتا ہوا تصور کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ مگر سخت گیر مؤقف کے ان کی جماعت اور ان کے خاندان کی موروثی سیاست پر سنجیدہ نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔

یہ کوئی دعوت نہیں تھی اور نہ ہی شریف برادران کو علاقائی سیکیورٹی مسائل پر بحث کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ یہ حقیقت کہ دونوں رہنماؤں کو سعودی عرب بلایا گیا تھا، ان اطلاعات کو تقویت فراہم کرتا ہے کہ خطے میں سعودی عرب کے اہم ترین اتحادی ملک پاکستان میں بڑھتے سیاسی عدم استحکام پر سعودی عرب کو تشویش ہے۔ یہ کافی حد تک ممکن ہے کہ یہ میٹنگ نواز شریف کی عدالتی نااہلی اور ان کی تصادم کی سیاست کی وجہ سے جنم لینے والے بحران سے متعلق تھی۔

جہاں پاکستان کی داخلی سیاست میں سعودی مداخلت نئی نہیں ہے، وہاں اِس کی بھی کوئی مثال نہیں کہ سیاسی رہنماؤں کو ملک کے مکمل طور پر داخلی سیاسی معاملے پر گفتگو کے لیے سعودی عرب بلوایا گیا ہو۔ اِس کی وجہ یقیناً نوجوان سعودی ولی عہد کا سخت رویہ ہے جو کہ اب حقیقی طور پر سعودی عرب کے حکمراں ہیں۔ واقعات کے تسلسل نے بھی اِس پورے معاملے سے منسلک تجسس کو بہت بڑھا دیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی حکومت نے شہباز شریف کو ریاض لانے کے لیے ایک خصوصی طیارہ بھیجا جہاں انہوں نے اپنے بڑے بھائی کے آنے سے پہلے سینیئر سعودی حکام کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ نواز شریف کو یہی پروٹوکول نہیں دیا گیا اور انہیں سعودی ولی عہد سے ملاقات کے لیے انتظار کرنا پڑا۔ پارٹی رہنماؤں کے متضاد بیانات کی وجہ سے شک کے سائے مزید گہرے ہوجاتے ہیں۔

مزید پڑھیے: نواز شریف، سعودی ولی عہد سے ملاقات کے بعد پاکستان پہنچ گئے

لگتا ہے کہ سعودی حکمرانوں نے شہباز شریف کی مکمل حمایت کردی ہے۔ مگر یہ ابھی یقیناً نہیں کہا جاسکتا کہ آیا اعلیٰ ترین سطح پر بھی سعودی مداخلت پاکستانی سیاست میں توازن کا جھکاؤ پیدا کرسکتی ہے یا نہیں۔ لیکن یہ ضرور واضح ہے کہ اس طرح کی تجویز کی کچھ سینیئر مسلم لیگی رہنما اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ حمایت کریں گے، مگر صورتحال اِس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔

لیکن اِس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ نااہلی اور کئی مالی بدعنوانیوں کے الزامات کے باوجود نواز شریف اب بھی ملک میں سب سے مضبوط سیاسی قوت ہیں اور اِنہیں سیاست سے مکمل طور پر باہر رکھنے کا کوئی بھی منصوبہ اتنا آسان نہیں ہوگا۔ ہاں پاکستانی سیاست، خاص طور پر شریف خاندان پر سعودی عرب کے اثر و رسوخ کو کم نہیں سمجھنا چاہیے، مگر اِس اثر کے باوجود کوئی بھی منصوبہ تھوپنا آسان نہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ جنرل مشرف کی قید سے چھڑوانا اور جلاوطنی کے دوران پناہ دینا سعودی عرب کا شریف خاندان پر بہت بڑا احسان ہے، مگر جب شریف حکومت نے سعودی عرب کی درخواست پر پاکستانی فوجی یمن بھیجنے سے انکار کیا تو یہ تعلق تناؤ کا شکار ہوگیا۔ سعودی عرب میں شاہ عبداللہ کی وفات اور سلمان بن عبدالعزیز اور اُن کے بیٹے محمد بن سلمان کے اقتدار میں پہنچنے سے بھی اِس قریبی تعلق پر اثر پڑا ہے۔

مزید پڑھیے: طاقتور ترین سعودی شہزادے محمد بن سلمان کو عروج کیسے ملا؟

تعلقات میں اِس سرد مہری کا عکس تب دکھائی دیا جب مبینہ طور پر سعودی حکومت نے جے آئی ٹی کی تحقیقات کے دوران شریف خاندان کی مدد کو آنے سے انکار کردیا۔ شریف خاندان کی سعودی عرب میں قائم اسٹیل مل کی جلاوطنی کے دوران فروخت بیرونِ ملک جائیدادوں کی خریداری کے لیے رقم کے ذریعے کے طور پر تصور کی جارہی تھی مگر سعودی حکمراں اِس فروخت کے ریکارڈ کی تصدیق نہیں کرسکے۔

یہ بھی واضح ہے کہ سعودی بادشاہوں کا پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ قریبی تعلق رہا ہے۔ تمام فوجی حکمرانوں کے سلطنت کے ساتھ نہایت قریبی تعلقات رہے ہیں۔ ریٹائرڈ جنرل مشرف نے عوامی سطح پر اقرار کیا ہے کہ اقتدار چھوڑنے کے بعد اُنہیں شاہ عبداللہ نے دبئی اور لندن میں جائیدادیں خریدنے کے لیے لاکھوں ڈالر دیے۔

گزشتہ سال میں دونوں ممالک کے تعلقات میں تناؤ کے باوجود سعودی حکومت کے پاکستانی فوج کے ساتھ تعلقات کمزور نہیں ہوئے ہیں۔ اِس قریبی تعلق کی ایک مثال جنرل (ر) راحیل شریف کی اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ کے طور پر تقرری ہے۔ اطلاعات کے مطابق شریف برادران کو بلانے کا مقصد اُنہیں تصادم کے بجائے مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنے کا مشورہ دینا تھا۔ یہ بھی واضح ہے کہ ریاض کے لیے سب سے اچھا انتخاب شہباز شریف کی زیرِ قیادت مسلم لیگ (ن) ہے۔

اِن سب باتوں سے ہٹ کر ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ سعودی عرب ہمارے جتنا بھی قریب ہو، لیکن کسی دوسرے ملک کی داخلی سیاست میں اِس قدر مداخلت سخت تشویش کا باعث ہے، اور بدقسمتی یہ ہے کہ غیر ملکیوں کو ہماری داخلی سیاست میں ثالث کا کردار ادا کرنے دینا ایک قابلِ قبول رویہ بن چکا ہے۔

یہ معاملہ صرف سعودی عرب تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر غیر ملکی قومیں بھی اپنا اثر و رسوخ مختلف سیاسی جماعتوں پر ڈال کر پاکستان کی سیاست پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ اس طرح کی غیر ملکی مداخلت جمہوری عمل پر بہت بُرے اثرات ڈالتی ہے۔ سعودی عرب کی ثالثی میں ہونے والے کسی بھی سیاسی سمجھوتے کو مسترد کردینا چاہیے اور سعودی عرب کی جانب دیکھنے کے بجائے شریف خاندان کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 3 جنوری 2018 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں