لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری ڈان کے سابق ایڈیٹر ہیں۔

بلوچستان میں حکومت میں ایک تبدیلی لانے کے لیے ایک بھرپور کوشش جاری ہے جہاں گزشتہ چار سالوں سے اقتدار کی شراکت کا ایک سیاسی انتظام خطرے میں ہے۔

یہ کوشش صوبائی وزیر سرفراز بگٹی کے استعفے/برطرفی کے بعد عوام میں سامنے آئی۔ سرفراز بگٹی کو ایک عرصے سے صوبے میں غالب فوج کی زیرِ سربراہی سیکیورٹی نظام کے سویلین ترجمان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ وزیرِ اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے والوں میں سے بھی ایک شخص ہیں۔

2013 کے عام انتخابات کے بعد نواز شریف کی مسلم لیگ ن اور میر حاصل بزنجو کی نیشنل پارٹی نے اقتدار کی شراکت کا ایک سمجھوتہ کیا تھا جس میں وزیرِ اعلیٰ کے عہدے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلے حصے میں نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک وزیرِ اعلیٰ بنے جبکہ دوسرے اور آخری حصے میں نواب ثناء اللہ زہری نے صوبے کا اعلیٰ ترین عہدہ سنبھالا۔

دونوں جماعتوں کے ساتھ ایک جونیئر شراکتدار، یعنی محمود خان اچکزئی کی قیادت میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی بھی شامل ہوئی، جبکہ گورنر کا عہدہ محمود خان کے بڑے بھائی کو دیا گیا۔ ایک قوم پرست رہنما ڈاکٹر عبدالمالک (بلوچ) کے دفتر میں ہونے سے بلوچستان میں امن کی امید جاگی تھی۔

اپنے پورے دور میں ڈاکٹر مالک اشارہ دیتے رہے کہ بیرونِ ملک مقیم ناراض بلوچ قیادت کے ساتھ کچھ رابطہ قائم ہوا تھا اور مذاکرات کے بعد ایک سمجھوتے کا امکان موجود تھا۔

پڑھیے: 2017: بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 242 افراد جاں بحق ہوئے

وہ امید اس وقت بے بنیاد ثابت ہوئی جب براہمداغ بگٹی کو چھوڑ کر باقی کی سخت گیر بلوچ قیادت اس طرح کے سمجھوتے کے لیے گرم جوش نظر نہیں آئی۔ انہوں نے کسی بھی مذاکرات سے پہلے سخت شرائط رکھیں جن میں صوبے سے فوج اور نیم عسکری فورسز ہٹانے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

دیگر علیحدگی پسند رہنماؤں سے قربت رکھنے والے ذرائع نے عندیہ دیا کہ جب ان میں سے کچھ رہنما 'قابلِ عزت' (شرمندگی سے بچانے والے) ایک سمجھوتے کے لیے تیار تھے، کیوں کہ وہ یہ بھی سمجھ رہے تھے کہ ایک مسلح جدوجہد عوام کے لیے مشکلات پیدا کر رہی تھی، وہاں میدان میں اپنی کامیابی پر پُریقین فوج نے اس مرحلے میں جلد بازی کی۔

پردے کے پیچھے ہونے والے واقعات کے بارے میں مکمل سچ شاید کبھی سامنے نہ آئے، مگر اس پورے معاملے میں براہمداغ بگٹی کے مؤقف میں تبدیلی اس بات کا ثبوت ہو سکتی ہے۔ بی بی سی کو ایک انٹرویو میں انہوں نے مذاکرات کے لیے اپنی رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

حقیقت میں جب وہ فوج واپس بلانے کی شرط پر لچکدار دکھائی دیے تو دوسرے علیحدگی پسند رہنماؤں نے ان کی سخت مخالفت کی، بھلے ہی علیحدگی پسند رہنماؤں کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ وہ ایک ساتھ یا ہم آہنگی سے کام نہیں کرتے۔

لیکن پھر مرکزی علیحدگی پسند رہنماؤں کے درمیان اس 'دراڑ' کا فائدہ اٹھانے کے بجائے پاکستانی حکام نے بظاہر حقارت بھرا رویہ اختیار کیا، اور براہمداغ اور صوبائی و وفاقی حکومت کے ایک دو وزراء کے درمیان ہونے والی ابتدائی ملاقاتوں کے بعد معاملہ آگے نہیں بڑھایا گیا۔

اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2016 کے اختتام میں براہمداغ نے بلوچستان کا مسئلہ اٹھانے کے لیے ہندوستانی وزیرِ اعظم نریندرا مودی کا عوامی طور پر شکریہ ادا کیا اور یہ بھی اعلان کیا کہ وہ اور ان کے کچھ ساتھی ہندوستان میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دیں گے۔

اس سب سے یہ اشارہ ملا کہ کوئٹہ اور اسلام آباد کی سویلین حکومتیں بلوچستان میں اہم پالیسی مسائل پر کافی بے اختیار ہیں۔ تو پھر الیکشن سے صرف چھے ماہ قبل ایک منتخب وزیرِ اعلیٰ کو تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی کوشش کیوں؟

فی الوقت کوئٹہ میں دو اہم توجیہات پیش کی جا رہی ہیں۔ پہلی تو ان کے بارے میں ہے جو نواز شریف کو ہر جگہ سے بے دخل کرنے پر تلے ہوئے ہیں، تاکہ نااہل کیے گئے وزیرِ اعظم کو اگلے چند ہفتوں میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں اکثریت نہ مل سکے۔

مارچ میں آدھے سینیٹر اپنا چھے سالہ دور مکمل کر کے ریٹائر ہو جائیں گے اور ان کے الیکٹورل کالج ان کی نشستیں پر کریں گے۔ فی الوقت بلوچستان کی جو 11 نشستیں (ساتھ جنرل اور دو دو نشستیں خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی) خالی ہوں گی، ان میں سے توقع ہے کہ مسلم لیگ ن اور اتحادی کم از کم 7 نشستیں جیت لیں گے۔

اس عدد کو اگر مسلم لیگ ن کی پنجاب اور وفاقی دارالحکومت سے متوقع نشستوں کے ساتھ ملایا جائے تو یہ جماعت (اور اس کے وفادار اتحادیوں) کو سینیٹ میں سادہ اکثریت فراہم کر دے گا۔ یہ وہ لگژری ہے جو مسلم لیگ ن کو اپنے پانچ سالہ دورِ حکومت میں اب تک نہیں مل پائی ہے۔

پڑھیے: 'بلوچستان کے سیاسی بحران کا اثر سینیٹ انتخابات پر نہیں ہوگا'

اگر مسلم لیگ ن کے وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کو ہٹا دیا جاتا ہے، اور ان کے جانشین گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، اور مسلم لیگ ن مخالف حکومتیں سندھ اور خیبر پختونخواہ میں بھی یہی کرتی ہیں، تو اس صورتحال میں سینیٹ انتخابات بہت مشکل ہوجائیں گے۔

باخبر مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان اور ان کی کابینہ کے چند وزراء نے بھی اپنے اراکینِ صوبائی اسمبلی کو نظرانداز کر کے اپنے مخالفین کا کام آسان کیا ہے۔ وہ اپنی بات کے ثبوت کے طور پر دو مثالیں پیش کرتے ہیں۔

پہلی سردار اختر مینگل کی ہے، جو تحریکِ عدم اعتماد کے دستخط کنندہ ہیں۔ "وہ کسی کے تابعدار نہیں ہیں، مگر وزیرِ اعلیٰ جو خود بھی خضدار سے تعلق رکھتے ہیں، نے اختر مینگل کے حلقے کو ترقیاتی فنڈز سے محروم کر کے اپنے حلقے میں کھلے ہاتھ سے خرچہ کیا ہے۔"

اس وقت کے وزیرِ ترقیات حامد اچکزئی (پی کے میپ) پر بے انتہا ترقیاتی فنڈز قلعہ عبداللہ-گلستان میں اپنے آبائی ضلعے میں لگانے کا الزام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے وہاں 100 سے زائد چھوٹے ڈیم بنانے پر تقریباً 2 ارب روپے خرچ کیے ہیں، مگر دوسری جگہوں پر ایسی ضروریات کو نظرانداز کر دیا۔

ثناء اللہ زہری کی قسمت جے یو آئی ف کے (عددی اعتبار سے فیصلہ کن) ہاتھوں میں ہے، اور وفاقی حکومت کے ساتھ فاٹا کے انضمام کے منصوبے پر اختلافات کی وجہ سے مولانا فضل الرحمان اپنا فائدہ حاصل کرنے کے لیے سخت کوشش کر رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ان کی جماعت آخر میں کس کی حمایت کرتی ہے۔

پڑھیے: 'دنیا کی سب سے بڑی سونے کی کان پر ڈاکے' کی کہانی

اگر یہ پوری صورتحال کافی نہیں تھی، تو ایک اور ذریعے نے ثناءاللہ زہری اور 'بوائز' کے درمیان کشمکش کا بھی نکتہ اٹھایا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ کشمکش ثناءاللہ زہری کی جانب سے ریکوڈک منصوبے پر ایک غیر ملکی کان کن کمپنی کے ساتھ گفتگو کی بحالی کے بعد شروع ہوئی ہے۔

چیف جسٹس افتخار چودھری نے وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کے دور میں اس کے ٹھیکے کو منسوخ کردیا تھا جس کے بعد اس کان کن کمپنی نے بین الاقوامی ثالث سے اپنے حق میں فیصلہ حاصل کرلیا۔ ذریعے کے مطابق، ’بوائز‘ سیاستدانوں کو اس معاملے سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔

طاقت کے یہ کھیل ایسے وقت میں کھیلے جا رہے ہیں جب ملک کے اندر داخلی استحکام کی ضرورت ہے، کیونکہ امریکی صدر پاکستان کے لیے زیادہ خیر خواہ دکھائی نہیں دے رہے اور مشرقی اور مغربی سرحدوں پر تناؤ کی صورتحال ہے۔ ہوشمندی کی امیدیں تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہیں۔

یہ مضمون 6 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں