بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں پانی کی قلت کی باتوں میں کوئی سچائی نہيں ہے، لیکن اس کی علامات پاکستان کے تقریباً ہرکونے میں نظر آرہی ہیں، پانی کی قلت، وسائل کی کمی اور آلودگی اس کی واضح مثالیں ہیں۔

ممکن ہے کہ جلد ہی نلکوں میں سے نکلنے والے پانی کا نظارہ صرف امیر ہی دیکھ سکیں، ایک طرف ایک طبقے روزمرہ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ٹینکر کے سامنے کئی گھنٹے قطار میں کھڑے رہنے کے باوجود پانی کی صرف ایک بالٹی حاصل کر سکیں، اور دوسری جانب امراء کے گھروں میں ڈی سیلینیشن پلانٹس سے پانی آرہا ہو، جس کے لیے وہ حجم کے لحاظ سے ادائيگی کررہے ہوں۔

مستقبل کی اس ہولناک تصویر میں بہتری لانے کے لیے غیر منافع بخش تحقیقاتی تنظیم انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر عارف انور کی اولین ذمہ داری شہروں کے پانی کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی کی ناکافی فراہمی ان لوگوں کو سب سے زيادہ متاثر کرتی ہے، جن کو مسلسل روزگار میسر نہيں ہے، بلکہ کئی سال سے کراچی کی درجنوں آبادیوں میں یہ تصویر حقیقت کی شکل پہلے ہی اختیار کرچکی ہے۔

محمد ریاض ایک دہائی پہلے اپنے خاندان سمیت جنوبی پنجاب کے علاقے میاں چنوں کے چھوٹے سے گاؤں سے کراچی کی شیرین جناح کالونی کے 2 کمرے کے مکان میں آکر آباد ہوئے تھے، اس وقت سے وہ، ان کی اہلیہ اور 5 بچے بڑے حساب کتاب سے پانی استعمال کررہے ہيں۔

ریاض کی بیٹی آسیہ کا کہنا ہے کہ ہمارے گاؤں میں ہمیشہ بے حساب پانی ملتا تھا، اور اس وجہ سے ہمیں یہ بات بہت عجیب لگتی تھی کہ ہمارے والد کو ہمارے لیے پانی خریدنے کی ضرورت پیش آتی ہے’’ ۔ آسیہ کی اب شادی ہوچکی ہے، اور وہ اپنے شوہر اور ایک سالہ بیٹے کے ساتھ اپنے والدین کے ہمراہ ہی رہتی ہیں۔ ان کی بڑی بہن راشدہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ پڑوس والے کوارٹر میں رہتی ہیں۔

ریاض کی اہلیہ اور تینوں بیٹیاں قریب میں واقع کلفٹن نامی رہائشی علاقے میں ملازماؤں کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ان کا ایک بیٹا ایک ریستوران میں کام کرتا ہے، جبکہ دوسرا بیٹا معذور ہے اور گھر پر ہی رہتا ہے۔

ریاض اور اس کے دونوں داماد ہر مہینے 5,500 روپے کا میٹھے پانی کا ٹینکر خریدتے ہيں جس میں انہيں دو ہزار لیٹر پانی ملتا ہے جس سے آٹھ بڑوں اور تین بچوں کی ضروریات بمشکل پوری ہوتی ہيں۔ ریاض کے خاندان کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ پانی خریدنے میں خرچ ہوتا ہے اور اس کے باوجود بھی، آسیہ کے مطابق، پانی میں بدبو ہوتی ہے اور ململ کے کپڑے سے گزارنے کے باوجود بھی اس میں کیڑے نظر آتے ہيں۔

کراچی میں بڑی آبادی واٹر ٹینکر خریدنے پر مجبور ہے — فوٹو: بشکریہ فیصل
کراچی میں بڑی آبادی واٹر ٹینکر خریدنے پر مجبور ہے — فوٹو: بشکریہ فیصل

راشدہ بتاتی ہیں ‘‘ہم نہانے کے لیے ایک ایک بالٹی پانی استعمال کرتے ہیں اور میری والدہ، والد اور بھانجا وہیں نہاتے ہيں جہاں وہ کام کرتے ہيں۔ وہ پیسے بچانے کی خاطر پینے کے پانی کی بوتلیں بھی وہیں سے بھرلاتے ہيں۔ ہم شام کے کھانے کے بعد گندے برتن بھی نل کے پانی سے نہیں دھوتے۔’’ وہ کپڑے دھونے کے لیے نمکین زیرزمین پانی استعمال کرتے ہیں، لیکن آخری دفعہ کنگھالتے وقت ٹینکر کا پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح ٹینکر کے پانی کا قطرہ قطرہ بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

وہ ایک قریبی دکان سے بغیر برانڈ کا فلٹرشدہ پینے کا پانی خریدتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’25 لیٹر کے ایک بڑی بوتل کی قیمت 70 روپے ہے، اور گرمی کے موسم میں یہ صرف دو دن چلتی ہے۔‘‘

پانی کی یہ سخت بچت ریاض کے گھر کے علاوہ دوسرے گھروں میں بھی نظر آتی ہے۔ کراچی کی غیر رسمی بستیوں میں، جن میں شہر کی 60 فیصد آبادی رہتی ہے، کئی خاندانوں نے پانی کی پچت کے انوکھے طریقے ڈھونڈ نکالے ہيں۔

پانی کی ضرورت پوری کرنے میں وافر مقدار میں پیسہ اور توانائی خرچ کرنے کی وجہ سے ان رہائشیوں کے لیے غربت کے چنگل سے نکلنا بہت مشکل ہوگيا ہے۔ آسیہ کا کہنا ہے ’’اگر ہم پانی پر اتنا زیادہ پیسہ خرچ نہیں کررہے ہوتے تو میں اتنی بچت کر لیتی کہ میں اپنے لیے گھر بناتی۔‘‘

کراچی کے بیشتر شہری پینے کے صاف پانی کی پیداور، ترسیل اور تقسیم کے علاوہ نظام نکاسی کے لیے ذمہ دار تنظیم کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو پانی کی عدم فراہمی کے لیے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

بورڈ کے مطابق اس قلت کی وجوہات میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، پرانی اور ٹوٹی پھوٹی پائپ لائنز، ان پائپ لائنز کی مرمت کے لیے وسائل کی کمی، اور پانی کی چوری شامل ہيں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اس مسئلے کے حل کے لیے اکثر میدان میں اتر کر حکومت کو ‘صاف پانی کی فراہمی کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے’ کھڑکاتی ہے، لیکن عوام کی پریشانی اسی طرح برقرار ہے۔

کراچی واٹر بورڈ کے مطابق شہر کی 1.5 کروڑ کی آبادی کی پانی کی یومیہ مانگ 110 کروڑ گیلن ہے، لیکن اسے صرف 45 سے 48 کروڑ گیلن کے درمیان پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ پچاس فیصد سے زیادہ کی اس کمی کو پورا کرنے کے لیے، یہاں غیر قانونی طور پر ہائیڈرنٹس چلانے والے گروپس موجود ہیں، جو رہائشیوں کو پانی مہیا کرکے خوب منافع کمارہے ہيں۔

فوٹو: بشکریہ نوشاد عالم
فوٹو: بشکریہ نوشاد عالم

انور پیشگوئی کرتے ہيں کہ آنے والے کئی سالوں میں ‘انتشار’ میں اضافہ ہوگا اور اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے ٹینکر مالکان سے بھی زيادہ مکار ‘مافیا’ اٹھ کھڑا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں ‘‘میں کراچی کی بہت خوبصورت سی ایک تصویر کھینچنا چاہتا ہوں جس میں خوبصورت آبی گزرگاہيں، ایک صاف ستھرا ساحل اور ہر طرف فوارے ہوں گے۔ لیکن اس سب کو ممکن بنانے کے لیے بہت کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔

دیہی سندھ میں صورتحال کچھ خاص بہتر نہیں ہے، جہاں نہروں کے اختتام کے قریب موجود چھوٹے کسانوں کی زمین تک پانی نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے ان کے لیے کاشت بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ انہیں بمشکل جو پانی ملتا ہے وہ سمندری پانی ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ان کی زمین ناقابل کاشت بن جاتی ہے۔ جن افراد کی زمینیں برلب نہر واقع ہیں، ان کے اکثر اوقات سیاسی تعلقات بھی ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے لیے محمکہ آبپاشی کو متاثر کرنا، قوانین کو نظرانداز کرنا اور پانی کا رخ اپنی زمین کی طرف موڑنا ممکن ہو جاتا ہے۔

پانی کی قلت کی علامات

ایسے کئی افراد موجود ہيں جو سمجھتے ہيں کہ پانی کی قلت اور ہمارے مستقبل پر اس کے اثرات کے متعلق باتوں میں کوئی سچائی نہيں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 7,259 گلیشیئرز (جن میں 2,066 مکعب کلومیٹر برف موجود ہے) پر مشتمل اور 11,780 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلے، یعنی ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم، کی موجودگی کی وجہ سے اس ملک میں پانی کی مقدار لامحدود ہے۔ یہ گلیشیئرز دریائے سندھ اور اس کے 11.2 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے بیسن کو پانی فراہم کرتے ہيں، جس کا 47 فیصد حصہ پاکستان میں، 39 فیصد حصہ بھارت میں، 8 فیصد حصہ چین میں اور 6 فیصد حصہ افغانستان میں موجود ہے۔

تاہم، پاکستان میں پانی کی قلت، وسائل کی کمی حتٰی کہ آلودگی کی شکل میں پانی کی کشیدگی کی علامات ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ صورتحال ماحولیاتی تبدیلی کے علاوہ پاکستان کے محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی) کی ملک میں 2025ء تک پانی کی قلت کے متعلق پیش گوئی کی وجہ سے مزید غیر یقینی ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں پانی کی سالانہ دستیابی 1,017 مکعب میٹرز فی کس ہے، اور جلد ہی 1,000 مکعب میٹرز تک پہنچ جائے گی، جو اس بات کی علامت ہے کہ اس ملک میں پانی کی شدید کمی ہے۔ پانی کے متعلق تحقیق کرنے والی حکومتی ایجنسی پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 1990ء ہی میں ‘پانی کی کشیدگی’ کی صورتحال پیدا ہونا شروع ہوچکی تھی، اور 2005ء میں ‘پانی کی کمی’ کی نوبت آگئی تھی۔

ڈاکٹر انور بتاتے ہيں ‘‘ جب پاکستان میں آبی ماہرین کہتے ہیں کہ پانی کی کمی ہو رہی ہے تو ہم عام طور پر فالکن مارک واٹر سٹریس انڈیکیٹر کا حوالہ دے رہے ہوتے ہیں جس کے ذریعے فی کس دستیاب قابل تجدید پانی کے حجم کی پیمائش کی جاتی ہے۔ وہ مزید بتاتے ہيں کہ پاکستان میں پانی کی تنگی کی وجہ حجم میں کمی نہيں بلکہ آبادی میں اضافہ ہے۔

حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 20.77 کروڑ ہے، اور اگر یہ اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو2047ء میں، یعنی پاکستان کی100 ویں سالگرہ تک ،39.5 کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔ اس تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے پانی کی مانگ میں بھی تیزی سے اضافہ ہوجائے گا۔ 2015ء میں جاری ہونے والی آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق، پانی کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کا 2025ء تک 27.4 کروڑ ایکڑ فٹ تک پہنچنے کا امکان ہے، جبکہ پانی کی فراہمی 19.1 کروڑ ایکڑ فٹ ہی رہے گی، جس کی وجہ سے مانگ اور فراہمی میں تقریباً8.3 کروڑ ایکڑ فٹ تک کا فرق ہوگا۔

زیر زمین پانی بے دریغ نکالا جارہا ہے

کراچی میں رہائشیوں کو جو تھوڑا بہت پانی ملتا ہے وہ سطح کا پانی ہے، جبکہ لاہور میں زمینی پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ آب اندوخت (aquifer) کو جس رفتار سے خالی کیا جارہا ہے، اسے اس رفتار سے دوبارہ بھرا نہيں جارہا۔ اس میں سے پانچ سے ساڑھے پانچ کروڑ ایکڑ فٹ پانی نکالا جاتا ہے، لیکن صرف چار سے ساڑھے چار کروڑ ایکڑ فٹ پانی دوبارہ بھرا جاتا ہے۔ اس کی تصدیق ناسا کے زیر قیادت ایک مطالعے کے ذریعے بھی ہوچکی ہے۔ محققین نے 2003ء اور 2013ء کے درمیان دنیا کے سب سے بڑے 37 آب اندوختوں پر تحقیق کی، جس کے ذریعے انہیں معلوم ہوا کہ دریائے سندھ کا بیسن کشیدگی کے لحاظ سے دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے، اور اسے دوبارہ بھرے بغیر خالی کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ، اسے ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ کے پانی کی کشیدگی کے انڈیکس میں بھی شامل کیا گیا ہے۔

لاہور کی 1.1 کروڑ کی آبادی کو روزانہ 12.9 لاکھ ایکڑ فٹ زمینی پانی فراہم کیا جاتا ہے جو دستی پمپس، موٹر پمپس اور ٹیوب ویلز کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔ 1960ء میں پنجاب میں تقریباً 20,000 ٹیوب ویلز تھے، لیکن آج، آبی ماہرین کے مطابق، ٹیوب ویلز کی تعداد دس لاکھ سے بھی زیادہ ہے!

فائل فوٹو: سمیرا شیکل
فائل فوٹو: سمیرا شیکل

ڈبلیوڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق لاہور میں زمینی پانی کی سطح میں ہر سال 2.5 سے 3 فٹ تک کی کمی ہوتی ہے، اور اب یہ شرح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ شہر کے مرکزی حصے میں پانی 130 فٹ سے نیچے آگیا ہے اور گلبرگ کے علاقے میں تقریباً147 فٹ نیچے چلا گیا ہے۔ اگر زیرزمین پانی کو محفوظ نہ کیا گیا اور پانی نکالنے کی موجودہ شرح برقرار رہی تو 2025ء تک زیادہ تر علاقوں میں پانی 230 فٹ نیچے جانے کی توقع کی جاتی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی گہرائی پر، کوئی بھی گنجائش رکھنے والا ٹیوب ویل لگا کر جتنا چاہے پانی نکال سکتا ہے۔ تاہم یہ صورتحال جلد ہی تبدیل ہونے والی ہے۔ صوبائی حکومت کے محکمہ آبپاشی نے اس قیمتی وسیلے کے بے در یغ استعمال کی روک تھام کے لیے پنجاب گراؤنڈ واٹر پروٹیکشن، ریگولیشن اور ڈیولپمنٹ ایکٹ 2017 تیار کیا ہے اور اس وقت مختلف اداروں سے مشاورت کا مرحلہ جاری ہے۔ اس ایکٹ کے نافذ ہوجانے کے بعد تجارتی اور صنعتی اداروں کو زمینی پانی نکالنے کے لیے اجازت حاصل کرنی پڑے گی۔ بلدیاتی پانی کے انتظام کے لیے 2014ء میں پنجاب میونسپل واٹر ایکٹ متعارف کرایا گیا تھا لیکن اب تک اس کو نافذ نہیں کیا جا سکا۔

مسئلے کا تعلق صرف زیر زمین پانی کی مقدار کم ہونے سے نہیں ہے بلکہ اس کی صنعتی اور گھریلو فضلے کی وجہ سے آلودہ ہونے سے بھی ہے۔

پچھلے سال سائنس ایڈوانسز میں شا‏ئع ہونے والی ایک تحقیق نے پورے پاکستان سے تقریباً 1200 زمینی پانی کے نمونے کے تجزیے کے بعد بتایا کہ چھ کروڑ افراد کو مہلک آرسینک کا خطرہ لاحق ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے پینے کے پانی میں آرسینک کی جو حد مقرر کی ہے، وہ 10 مائیکرو گرام فی لیٹر پانی ہے، لیکن پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ 50 مائیکروگرام فی لیٹر پانی قابل قبول ہے۔ اس تحقیق میں بتایا گیا ہے ‘‘آرسینک کا بہت زیادہ تناسب ، یعنی تقریباً 200 مائیکروگرام فی لیٹر خصوصی طور پر ملک کے جنوبی حصے میں پایا جاتا ہے’’، اور تنبیہہ کی ہے کہ آرسینک والے پانی کا باقاعدگی سے استعمال جلد کے امراض، پھیپھڑوں کے کینسر اور دل کی بیماریوں کی وجہ بن سکتا ہے۔

اس سال کے شروع میں، پنجاب حکومت نے تمام 36 اضلاع میں کارروائی کا آغاز کیا اور ہزاروں ایکڑ پر پھیلے ہوئے گندے صنعتی پانی اور فضلے سے سیراب ہونے والی کھڑی فصلوں کو تباہ کردیا۔ آگے چل کر ان کسانوں کو صرف غیرخوردنی فصلیں، جیسے کہ بانس، پھول اور گھر میں ا گائے جانے والے پودوں کی کاشت کی اجازت دی جائے گی۔

آبپاشی میں قیمتی پانی استعمال ہوتا ہے، لیکن فائدہ بہت کم ہے

آبی وسائل کی پالیسی کے ماہر اور تربیت اور معلومات کے اشتراک کے لیے قائم کردہ بین الاقوامی مرکز برائے اجتماعی ترقی پہاڑ (International Center for Integrated Mountain Development - ICIMOD) کے سینیئر مشیر ڈاکٹر خالد مہتداللہ کا کہنا ہے کہ پانی کی سب سے زیادہ ضرورت شعبہ زراعت کو ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا ’’تقریباً 95 فیصد تازہ پانی زراعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے باوجود بھی پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن میں زرعی پیداوار سب سے کم ہے۔‘‘ فصلوں کو بہت زیادہ پانی دینے کے باوجود پاکستان کی فی ایکڑ پیداوار بہت کم ہے۔ واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے مطابق اس ملک میں پانی کی فی یونٹ پیداوار 0.13 کلوگرام فی مکعب میٹر ہے، جو پورے قطعے میں سب سے کم ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں پیداوار کی شرح 0.39 کلوگرام فی مکعب میٹر اور چین میں 0.82 کلوگرام فی مکعب میٹر ہے۔

انور بتاتے ہيں ’’پاکستان نے اپنے آبپاشی کے علاقے کو (برطانوی سامراج کے زمانے سے) بڑھانے کا آغاز کیا لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان قطعوں سے مزید فائدہ اٹھانے کے بجائے، زیادہ زمین کو سیراب کرنے کی کوشش کی۔‘‘ انہوں نے کچھی کینال پراجیکٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کا بھی مقصد زیادہ زمین کو سیراب کرنا ہے۔

مہتداللہ کہتے ہیں، ’’زراعت کے پانی کو دیگر سماجی اور اقتصادی شعبوں میں پانی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرنا ریاست کا بہت بڑا چیلنج ہے۔ لیکن یہ آسان نہیں ہے کیونکہ اس میں پانی کے بہتر انتظام اور سائنسی علوم میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی اور اس سب کے لیے عزم کے علاوہ وسائل کی بھی ضرورت ہے۔‘‘

اس کے علاوہ، انور کا کہنا ہے کہ ایسے کئی ممالک ہیں جن میں پاکستان کے مقابلے میں کم پانی ہونے کے باوجود جی ڈی پی اور معیار زندگی بہت بہتر ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فالکلینڈ واٹر سٹریس انڈیکٹر کے پیمانے کے ذریعے پانی کی قلت کی پیمائش کے قطع نظر اچھا معیار زندگی ممکن ہے۔

ان ممالک میں بہتر معیار زندگی معیشت میں زراعت کا تناسب کم کرنے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایسے کئی ممالک ہیں، لیکن انور نے پاکستان کے ساتھ موازنے کے لیے مصر کا انتخاب کیا۔ وہ کہتے ہیں ’’مصر میں پانی کی دستیابی کا کوٹہ کم ہوتے ہوتے سالانہ بنیاد پر 666 مکعب میٹر ہوگیا ہے، یعنی کہ 43 سال میں 60 فیصد سے زائد کمی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود مصر میں 2016ء میں جی ڈی پی 3,685 ڈالر فی کس تھا، جبکہ پاکستان میں صرف 1,441 ڈالر رہا۔ مصر کی معیشت میں زراعت کا حصہ محض دس فیصد ہے۔‘‘

اسرائیل صحرا کے بیچوں بیچ واقع ہے، لیکن وہ بھی صحیح ٹیکنالوجی، اقتصادی وسائل اور سیاسی عزم کے بل بوتے پر اپنی زمین کے تقریبا 40 فیصد حصے کو فضلے کے پانی سے سیراب کرنے کی صلاحیت پیدا کرچکے ہیں۔ ہم ان کے شفدان ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ فیسلیٹی (Shafdan Wastewater Treatment Facility) سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اس پراجیکٹ کے ذریعے جنوبی اسرائیل میں واقع صحرائے نقب کو سالانہ 14 کروڑ مکعب میٹر پانی فراہم کرکے 50,000 ایکڑ زمین کو سیراب کیا جاتا ہے۔

پانی کی قیمت کا تعین

اقتصادیات کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ جب کوئی چیز کم ہو جائے اور اس کی مانگ بڑھ جائے تو اس کی قیمت وصول کی جاتی ہے۔ آج پانی کی قیمت لگانے کو قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ مہتداللہ کے مطابق اس مسئلے کا حل یہی ہے۔ وہ کہتے ہيں ’’اگر پانی کو موثر طور پر استعمال کرنا ہے تو اس کی قیمت کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘

پاکستان کی نمایاں ترین اہم آبی ماہرسیمی کمال کہتی ہیں، ’’میں سمجھتی ہوں کہ پانی تک رسائی کے بنیادی حقوق اور گھریلو، ماحولیات، ثقافتی اور بلدیاتی استعمالات کے علاوہ، دیگر تمام استعمالات کے لیے بل بھجوا کر ادائيگی وصول کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی سب سے زيادہ ضرورت زراعت کے شعبے میں ہے، جس میں 97 فیصد تک سطح پر موجود پانی اور زمین دوز پانی استعمال ہوتا ہے۔‘‘

انور اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر شہر میں پانی کی بلنگ ہونی چاہئیے، چاہے اس کی فراہمی کہیں سے بھی ہو۔ اس سلسلے میں ماحولیاتی وکیل اور کارکن احمد رافع عالم کہتے ہیں، ’’جب پانی کے بل کی بات کی جائے تو محکمہ آبپاشی کے زیراستعمال انفراسٹرکچر کے عملیات اور مرمت کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے زرعی ٹیوب ویلوں کے نرخوں کی نظرثانی اور ترمیم کرنے کی ضرورت ہے۔ سیمی کمال کا خیال ہے کہ جب ہر کوئی پانی کا بل ادا کرے گا تو ’’پانی کا استعمال کم ہوگا، ضیاع کم ہوگا، فصل اگانے کے پیٹرن تبدیل ہوں گے اور مارکیٹ ایڈجسٹ ہو جائے گی۔‘‘

وہ کہتی ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ ریاستوں اور عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے کلیاتی معیشیاتی اقدام اور نچلی سطحوں پر شہریوں کے طور طریقے اقتصادی حقیقتوں کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وافر مقدار میں پانی استعمال کرنے والی فصلیں، جیسے کہ گنا، ترک کردینی چاہیے کیونکہ چینی بازار سے زيادہ سستے داموں خریدی جاسکتی ہے۔

پانی کا تحفظ ہی پانی کی بچت ہے

موجودہ پانی کے وسائل کی بدانتظامی کے علاوہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بارش کے پیٹرن کی تبدیلی اور ذخائر میں سرمایہ کاری ناکافی ہونے کے باعث پاکستان میں شدید سیلاب، قحط سالی اور قدرتی آفات کے اضافے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔

مہتداللہ کے نزدیک ہر سطح پر پانی کے ذخائر کے ذریعے پانی کی بچت کرکے پانی کی قلت کے مسائل کافی حد تک حل کیے جاسکتے ہيں۔ وہ ’’بند‘‘ کے لفظ کے حساس ہونے اور ’’ذخیرے کا مکمل احساس فراہم نہ کرنے’’ کی وجہ سے اس کے استعمال سے گریز کرتے ہوئے کہتے ہيں ’’ہم اس وقت دستیاب سطح کے پانی میں سے آٹھ فیصد سے بھی کم پانی ذخیرہ کر رہے ہیں۔ دریائی نظام کی ماحولیاتی بہاؤ کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد ہم اضافی پانی کو بغیر استعمال کیے سمندر میں ضائع کردیتے ہيں، جبکہ ہمیں ایک دیرپا نظام آبپاشی کے قیام کے لیے تقریباً 40 فیصد پانی ذخیرہ کرنا چاہیئےپورا سال ہمارے دریاؤں میں پانی کی فراہمی ناہموار رہتی ہے، جس کی وجہ سے ہر سطح پر مناسب ذخیرے کی عدم فراہمی کی صورت میں پانی کے وسائل کا تسلی بخش انتظام ناممکن ہوجاتا ہے۔‘‘

وہ یہ بھی کہتے ہيں کہ اس طرح دریاؤں کے نچلے حصوں میں، جہاں سال کے تین مہینے 75 سے 80 فیصد پانی دستیاب ہوتا ہے، لیکن باقی نو مہینے پانی دستیاب نہيں ہوتا، ڈیلٹا کے سوکھنے کا بہانہ ختم ہوجائے گا۔ ان کے مطابق پانی کے ذخائر کے ذریعے پانی کی بچت کے اصول پر عمل کرنے کی وجہ سے ڈیلٹا کا تحفظ اور سمندری پانی کے داخلے کی روک تھام ممکن ہے۔ ذخیرہ ہونے والے پانی کے بہتر انتظام اور برابری کے اصولوں کے تحت پورا سال یا حسب ضرورت خارج کیا جاسکتا ہے۔

1976ء میں دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد اب تک کوئی نیا بند تعمیر نہيں کیا گيا ہے۔ آج دریائے سندھ کے بیسن کے دونوں بڑے ذخائر، یعنی تربیلا ڈیم اور منگلا ڈیم (جسے دریائے جہلم پر 1961ء اور 1967ء کے درمیان تعمیر کیا گيا تھا)، پاکستان میں سالانہ بنیاد پر گزرنے والے 4.5 کروڑ ایکڑ فٹ پانی میں سے صرف 1.4 کرو‌ڑ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرتے ہيں، اور وہ بھی صرف 30 روز کے لیے، جبکہ بین الاقوامی معیاروں کے مطابق یہ میعاد 120 دن ہونی چاہیئے۔

تاہم، انور کہتے ہیں کہ زیادہ انفراسٹرکچر قائم کرنے کی حکمت عملی ہمیشہ ہی سے مقبول رہی ہے، اور یہ شاید ضروری بھی ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان کو اپنے موجودہ پانی کے انتظام کو بہتر بنا کر انفراسٹرکچر میں بہتری لانے کی بھی ضرورت ہے۔ حکومتی اداروں میں پانی کے شعبے کو بہتر بنانے کی صلاحیت محدود ہے، لیکن انہيں ٹھیک کرنے کی متعدد کوششیں اور سرمایہ کاری ناکام رہے ہيں۔ وہ پانی کے انتظام کے لیے نجی شعبے کی مداخلت کی حمایت کرتے ہيں، اور کہتے ہيں ’’ہمیں کوئی مزید اختراعی حل نکالنا ہوگا۔ سہولیات کی تقسیم کرکے غیرریاستی شعبوں کے ہاتھ میں دے کر ان مسائل کے حل کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔‘‘


یہ مضمون ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو پاکستان میں شائع ہوا تھا، جو قارئین کے لیے اُن کی اجازت سے پیش کیا گیا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Murad Mar 31, 2018 06:57pm
Thanks for sharing a well researched paper from a pristine journal. Excellent translation and in-depth coverage of the topic.