Dawnnews Television Logo

کیا کراچی گرمی کی اگلی شدید لہر کے لیے تیار ہے؟

ضروری یہ ہے کہ اس کے وقوع پذیر ہونے کو روکا جائے اور ساتھ ساتھ اس کے وقوع پذیر ہونے کے لیے تیار بھی رہا جائے۔
اپ ڈیٹ 05 مئ 2018 01:20pm

گرمیاں ابھی شروع ہی ہوئی ہیں مگر کراچی کے زیادہ تر حصے ابھی سے ہی بھٹی کی طرح گرم ہونے لگے ہیں۔

محکمہ موسمیات نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ خود کو اوسط سے ایک ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ درجہ حرارت کے لیے تیار رکھیں۔ مگر یہ اس شہر کے لیے گرمی کی پہلی لہر نہیں ہے۔

2015 میں لاشوں کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار

تین سال قبل پاکستان میں 50 سال کی بدترین گرمی کی لہر آئی تھی۔ اس سال 19 جون سے اس ساحلی شہر میں 5 دن سے زیادہ تک وہ گرمی پڑی کہ 1200 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے اور 40 ہزار افراد ہیٹ اسٹروک اور گرمی کی وجہ سے تھکان کا شکار ہوئے۔

قیامت خیز گرمی کے پہلے دن کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے کراچی کے جناح ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی کہتی ہیں کہ "مرنے والوں میں زیادہ تعداد عمر رسیدہ افراد کی تھی جو پہلے ہی دوسرے عارضوں کا شکار تھے جو گرمی کی وجہ سے شدت اختیار کر گئے۔ یہ لوگ گنجان آبادیوں سے تعلق رکھتے تھے اور معاشرے کے دیوار سے لگے ہوئے طبقات سے تھے۔"

وہ کہتی ہیں کہ "اگر فوج نہ آتی تو ہم حالات کو قابو نہیں کر سکتے تھے۔" اگلے 4 سے 5 دن تک درجہ حرارت 42 سے 45 ڈگری سینٹی گریڈ کے بیچ میں رہا اور اس نے کم ہونے کا نام ہی نہیں لیا۔

جناح ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی میں 29 سال سے اسٹاف نرس کے طور پر ذمہ داریاں سرانجام دینے والی نسیم اختر یاد کرتی ہیں کہ ہسپتال میں "لاشوں کی ختم نہ ہونے والی قطار آ رہی تھی۔"

وہ بتاتی ہیں کہ وہ گرم ہواؤں یعنی لو اور اس صورت میں احتیاطی تدابیر سے تو واقف تھیں مگر کہتی ہیں کہ "میں نے اس سے پہلے ہیٹ ویو کا لفظ نہیں سنا تھا۔ یہ نہایت مختلف صورتحال تھی۔ ہوا چل ہی نہیں رہی تھی۔"

جناح ہسپتال کی ہیڈ نرس ڈیزی نسرین کہتی ہیں "موت کا تجربہ کبھی بھی آسان نہیں ہوتا مگر اس دن تو نہایت بے چارگی کی صورتحال تھی۔"

"جب ہمارے پاس اسٹریچر ختم ہوگئے تو ہم نے لاشوں کو فرش پر رکھنا شروع کر دیا۔ ہم نے ایدھی فاؤنڈیشن سے لاشیں لے جانے کے لیے درخواست کی مگر انہوں نے کہا کہ ان کی ایمبولینسیں زندہ افراد کو لانے میں مصروف تھیں۔ ان کے پاس (ایدھی) سردخانے مین مزید لاشیں رکھنے کی گنجائش نہیں تھی۔ وہ ایک خوفناک، نہایت خوفناک ہفتہ تھا۔"

موسمیاتی تبدیلی کا دور

محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل غلام رسول کہتے ہیں کہ ہیٹ ویوز اب "مستقل، شدید، اور زیادہ طویل عرصے کے لیے آیا کریں گی۔"

گزشتہ سال نیچر کلائمیٹ چینج جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں "مہلک" ہیٹ ویوز کا تسلسل اب بڑھے گا۔ تحقیق میں مزید پایا گیا کہ اونچے عرض البلد کے برعکس خطِ استوا کے قریبی علاقوں میں ہیٹ ویوز زیادہ بدترین ہوں گی۔

2015 کی گرمیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے غلام رسول کہتے ہیں کہ کراچی میں ماضی میں زیادہ درجہ حرارت (43 ڈگری سینٹی گریڈ) اور ہیٹ ویوز بھی آ چکی تھیں، "مگر ان کا 4 سے 5 دن تک باقی رہنا بے مثال تھا۔"

ان کے مطابق اس کے علاوہ نمی کے زیادہ تناسب کی وجہ سے ہیٹ انڈیکس لیول (جسے 'فیلز لائک' یعنی گرمی کتنی محسوس ہو رہی ہے کہا جاتا ہے۔)

وہ خبردار کرتے ہیں کہ "تین سال قبل رونما ہونے والا اربن ہیٹ آئلینڈ افیکٹ اب مستقبل میں زیادہ تسلسل اور شدت کے ساتھ رونما ہو سکتا ہے۔"

جب درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تھا تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ 50 تک جا پہنچا ہے۔ سندھ میں یہ درجہ حرارت اکثر کئی شہروں میں ہوتا ہی ہے مگر اس سے اموات نہیں ہوتیں۔

یہ اس لیے ہوتا ہے کیوں کہ گرم ہوا تندور کی طرح پھنس جاتی ہے اور باہر نہیں نکل پاتی۔

اور جب باہر گرمی اور نمی کا تناسب زیادہ ہو تو انسانی جسم اپنی گرمی پسینے کے ذریعے باہر نکال کر خود کو ٹھنڈا نہیں کر سکتا۔ اس سے ہیٹ ٹوکزیسٹی کہلائی جانے والی حالت پیدا ہوتی ہے جس سے انسانی اعضاء کو نقصان پہنچتا ہے۔

اس لیے زیادہ تر عمر رسیدہ افراد جو دل اور گردوں کے امراض اور کینسر کا شکار تھے، ان کی حالتیں مزید بگڑیں جس سے اموات میں اضافہ ہوا۔ ان تمام اموات میں موت کی بنیادی وجہ ایک سے زائد اعضاء کا ناکام ہونا تھا، ہیٹ اسٹروک نہیں۔

کیا کراچی اس کے لیے تیار ہے؟

زیادہ تر لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ 2015 میں شہر اس کے لیے تیار نہیں تھا، اور موسمیاتی تبدیلی کی پہلے سے توقع ہونے میں اجتماعی ناکامی کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہوا۔

کراچی کے شہریوں میں مہلک ہیٹ ویو کے خطرات سے متعلق آگاہی کی کمی کے ساتھ ساتھ اموات کی ایک اور بڑی وجہ بجلی کی طویل بندش، اور ماہِ رمضان میں لوگوں کا روزے سے ہونا بھی تھا۔

پر اگر یہ اب معمول بننے والا ہے، تو 2015 سے اب تک کے اشاریے بتاتے ہیں کہ ایسا ہی ہے، تو یہ منصوبہ سازوں اور صحت کی خدمات فراہم کرنے والوں کے لیے ایک تازہ چیلنج ہے۔

تین سال گزر چکے ہیں، کیا کراچی کے پاس منصوبہ ہے؟ اور کیا یہ اسی شدت کی ایک اور ہیٹ ویو سے نمٹنے کے لیے تیار ہے؟

کراچی کا ہیٹ ویو مینیجمنٹ پلان

اسسٹنٹ کمشنر کراچی ڈاکٹر امبر میر، جو کہ کمشنرز آفس میں ہیٹ ویو مینیجمنٹ کی فوکل پرسن ہیں، کہتی ہیں کہ: "2015 میں ہیٹ ویو کے تجربے سے سیکھتے ہوئے ہم نے 2016 میں ایک جامع اور مؤثر منصوبہ تیار کیا۔ اور حکومت اور ڈویژنل انتظامیہ کی کوششوں کی وجہ سے اس سال اور اس سے اگلے سال (یعنی 2017) میں ہیٹ ویو کی وجہ سے کوئی اموات رپورٹ نہیں ہوئیں۔"

وہ کہتی ہیں کہ تب سے لے کر اب تک اس منصوبے کو دوسرے شراکت داروں اور ماہرین کی تجاویز کی روشنی میں مزید بہتر بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر امبر کہتی ہیں کہ "ہم سیکھتے اور ایڈجسٹ کرتے رہتے ہیں مگر ہم آج پہلے کے مقابلے میں زیادہ پراعتماد ہیں۔"

یہ ایک تین سطحی منصوبہ ہے جس کا مقصد خطرے کی زد میں موجود علاقوں کی مدد اور حفاظت کرنا ہے۔ اس کے لیے ان علاقوں کے لوگوں کو درجہ حرارت میں اضافے اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہ کرنا شامل ہے۔

اس میں ان علاقوں میں گھروں اور مرکزی شاہراہوں کے پاس کولنگ سینٹرز کا قیام بھی شامل ہے، اور یہ بھی یقینی بنانا شامل ہے کہ شہر کے ہسپتال کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہوں۔

اس سال کا منصوبہ نہایت احتیاط سے تیار کیا گیا ہے اور اس میں کئی بین الاقوامی ماہرین کی بھی تجاویز شامل کی گئی ہیں جنہوں نے احمد آباد ہیٹ ایکشن پلان تیار کیا تھا۔

یہ منصوبہ ان 1000 سے زائد گھرانوں کے انٹرویوز سے حاصل شدہ معلومات کا بھی استعمال کرتا ہے جنہوں نے 2015 کی ہیٹ ویو میں اپنے خاندان کے کسی رکن کو کھویا تھا۔

"اس منصوبے میں جیوگرافک انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) کے ذریعے ہیٹ ویو کے حوالے سے سب سے اہم مقامات کی نشاندہی کی جائے گی تاکہ فرسٹ رسپانس سینٹر (ایف آر سی) قائم کیے جا سکیں۔ یہ ایف آر سی ہیٹ ویو کے شکار افراد کو تیز ترین ابتدائی طبی امداد ان کے دروازے پر ہی فراہم کرے گا اس سے پہلے کہ نازک حالت والے مریضوں کو بڑے ہسپتالوں میں بھیجا جائے۔

اور یہ منصوبہ صرف کاغذ پر نہیں ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ "ہمارے پاس رضاکاروں کی فہرست ہے جن کی خدمات ضرورت پڑتے ہی حاصل کر لی جائیں گی؛ ہمارے ساتھ کئی خیراتی ادارے، این جی اوز اور ہسپتال ہیں تاکہ ہماری ایمبولینسوں، طبی عملے اور رسد کے حوالے سے مدد کر سکیں۔"

اسسٹنٹ کمشنر مزید بتاتی ہیں کہ "مختلف حکومتی اداروں بشمول قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار متعین کر دیے گئے ہیں تاکہ تمام ادارے منصوبے پر عملدرآمد میں ہماری مدد کر سکیں۔ یہ منصوبہ نہایت جامع ہے اور باریک بینی سے تیار کیا گیا۔ پاکستان کا کوئی بھی شہر اس میں ذرا سی تبدیلی کے ساتھ اسے اپنا سکتا ہے۔"

2015 میں موسم کی قیامت خیزی کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ واضح ہوگیا تھا کہ تین سطحی منصوبے کے علاوہ کراچی کو آفات اور خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک کثیر الجہتی اور جامع منصوبے کی ضرورت ہے، اور اس منصوبے کے حوالے مؤثر انداز میں متعلقہ اداروں کی صلاحیتیں بڑھائی جائیں۔

شہری منصوبہ ساز فرحان انور اس نکتے کی مزید وضاحت کرتے ہیں:

"ہیٹ مینیجمنٹ پلان کا ہونا اچھی بات ہے مگر اس سانحے سے سیکھے گئے سبق کو ہمیں انتہائی خراب موسمی حالات کے علاوہ بھی استعمال کرنا چاہیے، اور اس میں آفات سے نمٹنے والا ایک ادارہ شامل ہونا چاہیے جو قدرتی اور انسانی، دونوں طرح کی آفات، مثلاً آگ لگنا، شہری سیلاب، عمارتوں کا گرنا، زلزلہ وغیرہ سب کو ایک ہی ادارے سے سنبھال سکے، جیسا کہ امریکا میں فیڈرل ایمرجنسی مینیجمنٹ ایجنسی (ایف ای ایم اے) ہے۔"

پاکستان میں نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) ہے جس کی صوبائی اور ضلعی سطح پر شاخیں بھی موجود ہیں۔ مگر فرحان انور نشاندہی کرتے ہیں کہ ان میں سے "کسی کے پاس بھی فیلڈ میں کچھ کرنے کا نہ مینڈیٹ ہے اور نہ ہی صلاحیت، اور یہ صرف رابطہ کاری کا کام سرانجام دیتے ہیں۔"

"یہ اس لیے قابلِ عمل نہیں ہے کیوں کہ حکومتوں کے متعلقہ محکمے حکومتوں کی مختلف سطحوں پر پھیلے ہوئے ہیں، اور ان کے لیے این ڈی ایم اے یا اس کے صوبائی دفاتر کے احکامات تسلیم کرنا ضروری نہیں ہے۔

طویل المدتی حکمتِ عملیاں

کراچی اگلی بے رحم ہیٹ ویو کا شکار کب ہوگا؟ محکمہ موسمیات کے سربراہ غلام رسول کہتے ہیں کہ ہیٹ ویو کے وقوع پذیر ہونے یا اس کی شدت کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے، اور گرم دنوں کی تعداد میں اضافے کا مطلب یقینی طور پر زیادہ اموات نہیں ہیں۔

ضروری یہ ہے کہ وقت ہوتے ہوئے اس کے وقوع پذیر ہونے کو روکا جائے اور ساتھ ساتھ اس کے وقوع پذیر ہونے کے لیے تیار بھی رہا جائے۔

2015 کے بعد آنے والی ہیٹ ویوز میں ہلاکتوں کی تعداد خاصی کم تھی۔ ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ شہری انتظامیہ اور شہری، دونوں ہی زیادہ تیار تھے۔

لوگ اکثر کام کے اوقات، امتحانی شیڈول اور گرمیوں کی چھٹیوں کے دورانیے میں تبدیلیوں، اور شہر میں مختلف جگہ پینے کے پانی کی سہولیات فراہم کرنے کی باتیں کرتے ہیں۔ کچھ تو ضیاء دور میں لائے گئے احترامِ رمضان آرڈیننس میں ترمیم کا بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں مطالبہ کرتے ہیں جسے 1981 میں نافذ کیا گیا تھا۔

مگر غلام رسول کی طرح کے لوگ طویل المدتی حکمتِ عملیوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

"ہمارے لیے سب سے بہتر یہی ہوگا کہ زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس پر سیاست کھیلی جائے، یا اگائے گئے درختوں کی تعداد گنی جائے۔ اس کے بجائے ہمیں ہر اس شخص کی تعریف کرنی چاہیے جو درخت اگا رہا ہو۔"

وہ کہتے ہیں کہ "5 سال کے اندر ایک پوری طرح بڑا ہو چکا درخت معقول سایہ فراہم کرے گا، فضا میں موجود کاربن جذب کرے گا، آکسیجن فراہم کرے گا اور برساتوں کو معمول پر لائے گا۔" غلام رسول کے مطابق کراچی کے مسائل میں سے ایک مسئلہ کنکریٹ کی تعمیرات اور سبزے میں عدم توازن بھی ہے۔

انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے ایکوسسٹم مینیجمنٹ کمیشن کے ماہرِ ماحولیات، اور پاکستان ہارٹیکلچر سوسائٹی کی ایگزیکٹیو کونسل کے ممبر رفیع الحق نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے کراچی کے مختلف ضلعوں میں زمین کی اقسام گنوائیں، اور مقامی پودوں کی وہ اقسام گنوائیں جنہیں شہر میں مختلف مقاصد کے لیے لگایا جا سکتا ہے۔

شہروں میں سبزے کی ضرورت

آرکیٹیکٹ یاسمین لاری کے پاس ایک دلچسپ خیال ہے اور وہ یہ کہ "اگر آپ کثیر المنزلہ عمارات ختم نہیں کر سکتے تو انہیں سرسبز کر دیں۔"

وہ کثیر المنزلہ عمارات کے بارے میں کہتی ہیں کہ انہیں مکمل طور پر سبزے سے ڈھک دینا چاہیے۔ "یہ عمارات نہ صرف گرمی جمع کرتی ہیں بلکہ خارج بھی کرتی ہیں جس کی وجہ سے کراچی ایک ناقابلِ رہائش شہر بن جاتا ہے۔ شہر کے درجہ حرارت کو کم کرنے کا ایک طریقہ عمارتوں کے سامنے والے حصوں پر بیلیں اور پودے اگانا ہے۔

جس تکنیک کی وہ حامی ہیں اسے ہائیڈروپونیکس کہا جاتا ہے جس میں پودوں کو مٹی کے بغیر پانی میں صرف معدنی محلول ملا کر اگایا جاتا ہے۔

کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی کے آرکیٹیکچر اینڈ منیجمنٹ سائنسز فیکلٹی کے ڈین پروفیسر نعمان احمد کہتے ہیں کہ "اگر اونچی عمارات بننی ہی ہیں تو ہمیں ہوا کی مرکزی راہداریوں پر نظر رکھنی ہوگی۔"

ان کے مطابق تعمیراتی مٹیریل کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔

"عام پورٹ لینڈ سیمینٹ (او پی سی) اندرونی فنشنگ اور تعمیر کے لیے استعمال ہونے والا سب سے عام مٹیریل ہے۔ اندرونی حصے میں درجہ حرارت کے حوالے سے سب سے زیادہ سکون مختلف مٹیریلز کو ملا کر، خلا والی دیواریں بنا کر، کھوکھلی اینٹوں، اور سفید رنگ کے استعمال سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت اگر تحفظ کا خیال رکھا جائے تو سفید رنگ باہر کے لیے بھی کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔"

مگر لاری سمجھتی ہیں کہ اب مزید اونچی تعمیرات نہیں ہونی چاہیئں۔ اور ان کے نزدیک انہیں کم سے کم کرنے کا ایک طریقہ ورثہ قرار دی گئی پرانی عمارتوں کو محفوظ رکھنا ہے۔

"جیسے ہی انتظامیہ کی جانب سے کسی پرانی عمارت کو خطرناک قرار دیا جاتا ہے تو اسے فوراً گرا کر ایک نیا نویلا کثیر المنزلہ پلازا تعمیر کر دیا جاتا ہے۔"

یاسمین کو یہ دیکھ کر تکلیف ہوتی ہیں کیوں کہ ان کے مطابق وہ جانتی ہیں کہ ورثہ قرار دی گئی کئی عمارتوں کو مرمت کے بعد بحال کیا جا سکتا ہے۔

یاسمین نے ایسی 600 تعمیرات کی فہرست تیار کی ہے جنہیں گزشتہ ڈھائی دہائیوں میں دی ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی جانب سے "زیرِ حفاظت" قرار دیا گیا ہے۔ ان میں ہندو جمخانہ، موہٹہ پیلس اور قائدِ اعظم ہاؤس شامل ہیں۔

اب اور گاڑیاں نہیں

یوں تو کرہءِ ارض کے گرم ہونے کی وجہ فوسل ایندھن ہیں جنہیں زمین میں ہی دفن رہنے دینا چاہیے، مگر کاربن کے اخراج کے ذمہ دار صرف یہ ایندھن نہیں ہیں۔

مثال کے طور پر امریکا میں کاربن کے اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ بجلی کی پیداوار نہیں بلکہ ٹرانسپورٹ، بشمل گاڑیاں، ٹرک، ہوائی جہاز، ٹرینیں اور بحری جہاز ہیں۔

غلام رسول کہتے ہیں کہ فوری طور پر فوسل ایندھن کو صاف ایندھن سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر شہروں میں جنگی بنیادوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام وضع کیا جائے اور نجی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی تعداد میں کمی کی جائے تو گرین ہاؤس گیسوں سے ہونے والی آلودگی کو کچھ حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

تجزیہ نگاروں کے نزدیک پبلک ٹرانسپورٹ کا خراب نظام شہر کے اندرونی اور کم آمدنی والے علاقوں میں رش بڑھنے کی ایک اہم وجہ ہے۔


گرافکس : بشکریہ نبیل احمد، ڈان ڈاٹ کام


انگلش میں پڑھیں