ہیمبرگ کی دھوپ چھاؤں اور وہاں بار بار جانے کی خواہش

جس شہر میں آنا جانا لگا رہے، اس شہر کو کسی سیاح کی طرح دیکھنے کا موقع کم ہی ملتا ہے۔ میں اب تک 4 سے 5 مرتبہ جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں رُکا ہوں، لیکن ہر بار گھر واپس آنے کی جلدی تھی یا پھر کہیں کام سے جانا ہوتا، اس لیے کبھی بھی اس کو تسلی سے دیکھ نہ سکا۔ اس ویک اینڈ کو بڑے بھائی جرمنی تشریف لائے تو ان سے ملنے ہیمبرگ نامی اس شہر کو چلا آیا اور یوں اس بہانے اس شہر کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل گیا۔

ہیمبرگ جرمنی کا دوسرا بڑا شہر ہے اور دوسری جنگِ عظیم میں اس کا بڑا حصہ تباہی کی زد میں آیا تھا، شاید اسی لیے بہت سی عمارتیں نئے زمانے کی آن بان لیے ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک پورٹ سٹی ہے جو وینس کی طرز پر بہت سے پلوں سے جڑی ہوئی ہے، بلکہ اعداد و شمار کے حساب سے اس کے پلوں کی تعداد وینس کے پلوں سے زیادہ ہے، لیکن وقت کی قلت کے باعث ہم تمام پلوں تک نہیں پہنچ پائے۔

آپ نے سن رکھا ہوگا کہ نئے شہروں کی بنیاد آنے والی نصف صدی کو مدِنظر رکھتے ہوئے رکھی جاتی ہے، شہر کی گلیوں میں گھومتے ہوئے اور گاڑی چلاتے ہوئے مجھے جا بجا اس کی پلاننگ کرنے والوں پر پیار آتا رہا۔ میرے ہوٹل کے بالکل نزدیک ہی اسٹیٹ پارک تھا، اس لیے ناشتہ کرنے کے بعد میں اس کی سیر کو نکل کھڑا ہوا۔ اتوار کی صبح 10 یا 11 بجے کا وقت ہوگا، پارک تک جاتے جاتے سڑک کے ساتھ ساتھ چلنے والی درختوں کی قطاریں کسی وسیع النظر آرکیٹیکٹ کے فن کا منہ بولتا ثبوت تھیں۔

ہیمبرگ کہیں کہیں وینس کی جھلک دیتا ہے—تصویر رمضان رفیق
ہیمبرگ کہیں کہیں وینس کی جھلک دیتا ہے—تصویر رمضان رفیق

اسٹیٹ پارک کا ایک منظر—تصویر رمضان رفیق
اسٹیٹ پارک کا ایک منظر—تصویر رمضان رفیق

پارک سے متصل سڑک —تصویر رمضان رفیق
پارک سے متصل سڑک —تصویر رمضان رفیق

پارک کو جاتی سڑک کے درمیان موجود گرین بیلٹ—تصویر رمضان رفیق
پارک کو جاتی سڑک کے درمیان موجود گرین بیلٹ—تصویر رمضان رفیق

بظاہر عام سی اس سڑک کے ایک کونے پر پیدل چلنے والوں کو راستہ دیا گیا تھا، اس کے بعد 6 بڑے درخت لگا کر ایک بڑی گرین بیلٹ بنائی گئی تھی، اس کے بعد ایک فٹ پاتھ، سائیکل پاتھ اور پھر 3 لینوں والی ایک سڑک، درمیان میں ایک گرین بیلٹ، پھر 3 لینوں والی سڑک، پھر پیدل چلنے اور سائیکل کا کچا ٹریک، ہمارے ہاں کوئی من چلا اتنی جگہ پر شاید ایک کالونی ہی بنا دیتا۔

پارک میں درختوں کے جھنڈ مجھے ان سڑکوں کے شور سے دور لے آئے تھے۔ یہاں جاگنگ کرنے والے ابھی اکا دکا ہی دکھائی دے رہے تھے، کچھ فاصلے پر کسی کھیل کے میدان سے جوشیلے نعروں کی آوازوں نے میری توجہ کھینچی تو میں پارک سے متصل اُسی میدان تک چلا آیا، جہاں فریسبی کا میچ ہو رہا تھا۔ گراؤنڈ کی رونق دیکھ کر احساس ہو رہا تھا کہ یہاں کھیل کے میدان خوب آباد ہیں، سوچوں میں ڈوبا میرا وجود واپس اسی کھلے بلیووارڈ پر چلا آیا، ہر شہر بسانے والے کو ایسی سڑک بنانے کا ضرور سوچنا چاہیے۔

پارک سے متصل کھیل کا میدان—تصویر رمضان رفیق
پارک سے متصل کھیل کا میدان—تصویر رمضان رفیق

ہیمبرگ میں زندگی کے رواں دواں ہونے کا احساس ہوتا ہے—تصویر رمضان رفیق
ہیمبرگ میں زندگی کے رواں دواں ہونے کا احساس ہوتا ہے—تصویر رمضان رفیق

ہیمبرگ کی عمارتوں میں جدت کا رنگ صاف نظر آتا ہے—تصویر رمضان رفیق
ہیمبرگ کی عمارتوں میں جدت کا رنگ صاف نظر آتا ہے—تصویر رمضان رفیق

یہ شہر جدید زمانے کی جھلک پیش کرتا ہے—تصویر رمضان رفیق
یہ شہر جدید زمانے کی جھلک پیش کرتا ہے—تصویر رمضان رفیق

ہیمبرگ میں اس دن بہار اپنے پورے جوبن پر نظر آئی، درختوں پر نئی کونپلوں نے رنگ بھرنا شروع کردیا تھا، چیری کے پھولوں سے کئی گھروں کے دریچے گلابی ہوئے دکھائی دے رہے تھے، اور سب سے بڑھ کر یورپ کے سردی زدہ لوگ کو تازہ گرم دھوپ نے مدہوش کر رکھا تھا۔ آپ نے اگر کبھی یورپ میں قدم نہیں رکھا تو آپ ان دھوپ بھری دوپہروں کے حسن سے ناواقف ہیں۔ گوروں کے قد و قامت خد و خال کے ساتھ دیکھنے ہوں تو ایسے ہی کسی موسم میں یورپ کا سفر کرنا چاہیے۔

ہیمبرگ سینٹر میں ہمیشہ سیاحوں کا رش رہتا ہے، لیکن ایسی گرم دوپہریں تو کسی میچ یا میوزیکل کنسرٹ کا سا ساماں رکھتی ہیں، ٹاؤن ہال سے کچھ فاصلے پر جہاں ہیمبرگ کی سیر کروانے والی کشتیاں چلتی ہیں، لوگوں کا ایک میلہ لگا رہتا ہے، اور اس دن تو ایسا لگا کہ جیسے شہر کسی اسٹیڈیم کے کنارے آ بسا ہو۔

ہیمبرگ سینٹر—تصویر رمضان رفیق
ہیمبرگ سینٹر—تصویر رمضان رفیق

ٹاؤن ہال —تصویر رمضان رفیق
ٹاؤن ہال —تصویر رمضان رفیق

ٹاؤن ہال کا اندرونی حصہ—تصویر رمضان رفیق
ٹاؤن ہال کا اندرونی حصہ—تصویر رمضان رفیق

ٹاؤن ہال کا احاطہ یا بیک یارڈ—تصویر رمضان رفیق
ٹاؤن ہال کا احاطہ یا بیک یارڈ—تصویر رمضان رفیق

سامنے لگے ہوئے فوارے کا پانی چمکدار دھوپ سے 7 رنگوں میں بٹا جارہا تھا۔ درجنوں لوگ کشتی میں بیٹھے کینال ٹؤر پر نکلنے کے متمنی تھے۔ سیکڑوں لوگ سامنے سیڑھیوں پر بیٹھے دھوپ سے بدن سینک رہے تھے، مشروبات کی بوتلیں کھل رہی تھیں، آئس کریم پارلر کے باہر لمبی قطار لگ چکی تھی، اور سامنے پولین پر بنے ہوئے کیفے میں ایک بھی سیٹ فارغ نہ تھی۔ ہم بھی انہی سیڑھیوں پر بیٹھ کر اس بھیڑ کا حصہ ہوگئے، یورپ کی اس ایک دوپہر کے تذکرے میں کچھ ایسی گرمی ہے کہ موسمِ سرما کی درجنوں سرد سہانی راتیں اس پر قربان کرنے کو جی چاہے۔

اس کنارے پر بیٹھ کر اس موسم کو سراہنے میں جتنا بھی وقت صَرف کرلیا جائے کم ہے، مگر کیا کیجیے بلاگ کی خاطر شہر کی گلیوں کی خاک ابھی چھاننی ہے۔

کینال ٹؤر اکثر سیاحوں کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے—تصویر رمضان رفیق
کینال ٹؤر اکثر سیاحوں کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے—تصویر رمضان رفیق

ٹاؤن ہال کے سامنے اکثر لوگوں کا رش نظر آتا ہے—تصویر رمضان رفیق
ٹاؤن ہال کے سامنے اکثر لوگوں کا رش نظر آتا ہے—تصویر رمضان رفیق

دھوپ سینکتے لوگ اور قوس قزح جیسا نظارہ—تصویر رمضان رفیق
دھوپ سینکتے لوگ اور قوس قزح جیسا نظارہ—تصویر رمضان رفیق

فوارے کا پانی چمکدار دھوپ سے 7 رنگوں میں بٹا جا رہا تھا—تصویر رمضان رفیق
فوارے کا پانی چمکدار دھوپ سے 7 رنگوں میں بٹا جا رہا تھا—تصویر رمضان رفیق

یہیں سے سامنے پھیلی ہوئی گلیوں میں درجنوں برانڈز کی دکانیں ہیں، جہاں سے گزرتے ہوئے ہم جیسے لوگ نام بھی پڑھنے کا تکلف نہیں کرتے۔ ان گلیوں میں ان دکانوں کے علاوہ سب سے دلکش چیز یہاں گزرنے والی گاڑیاں ہیں۔ ہیمبرگ کا شمار جرمنی کے خوشحال شہروں میں ہوتا ہے، جس کا اندازہ یہاں کی سڑکوں پر نظر آنے والی گاڑیوں سے ہی کیا جاسکتا ہے۔

ایک سے بڑھ کر ایک گاڑی پر نگاہ پڑتی ہے، لیکن اس عمر میں آکر دل مچلتا نہیں، کیونکہ اب ہمیں 80 فیصد یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے وہی سب سے قیمتی ہے، اس کی سب سے زیادہ قدر کی بھی جانی چاہیے، لیکن خوبصورتی کو نہ سراہنا بھی زیادتی کے زمرے میں آتا ہے، یہیں پر آپ کو عام سی پارکنگ میں درجنوں قیمتی گاڑیاں یوں ساتھ ساتھ کھڑی نظر آتی ہیں جیسے یہ بیش قیمت گاڑیوں کی ورکشاپ ہے۔

ان گلیوں میں چلتے چلتے میں ٹاؤن ہال تک چلا آیا، جنگ کے ظلم و ستم سے محفوظ رہنے والا یہ ٹاؤن ہال صنعت و حرفت اور یورپ کے دروازے کے طور پر جانے پہچانے والے شہر کا بلاشبہ ایک انمول موتی ہے۔ اسے یورپ کے چند خوبصورت ٹاؤن ہالز میں سے ایک سمجھا جاسکتا ہے۔ 2 سال پہلے کے ایک ٹؤر میں بھی اس ٹاؤن ہال کی اچھی تصویر لینے میں ناکام رہا تھا کیونکہ اس وقت یہاں تعمیراتی کام جاری تھا، اور آج سورج ٹاؤن ہال کی پشت پر تھا، اس لیے تصویر میں اس کے سبھی رنگوں کو سمونا مشکل ہو رہا تھا۔

سڑک کنارے ترتیب سے ایک کے ساتھ 5 مرسڈیز گاڑیاں آپ کو جرمنی میں ہی دکھائی دیں گی—تصویر رمضان رفیق
سڑک کنارے ترتیب سے ایک کے ساتھ 5 مرسڈیز گاڑیاں آپ کو جرمنی میں ہی دکھائی دیں گی—تصویر رمضان رفیق

ہیمبرگ کا ایک منظر—تصویر رمضان رفیق
ہیمبرگ کا ایک منظر—تصویر رمضان رفیق

ٹاؤن ہال کے آس پاس—تصویر رمضان رفیق
ٹاؤن ہال کے آس پاس—تصویر رمضان رفیق

ٹاؤن ہال کے آس پاس—تصویر رمضان رفیق
ٹاؤن ہال کے آس پاس—تصویر رمضان رفیق

چند سیاح نما لوگوں کو ٹاؤن ہال کے اندر جاتے دیکھا، ہم نے بھی ان کی دیکھا دیکھی دروازے کو دھکیلا تو کھلا پایا، اندر ٹاؤن ہال کے متعلق ایک تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔ وہاں ایک گیسٹ بک بھی رکھی ہوئی تھی، اس گیسٹ بک کے سبھی صفحے لکھنے والوں کی محبت کے گواہ تھے، اس کے آخری صفحے پر میں نے مشہور پاکستانی کرکٹ کمینٹریٹر کے الفاظ میں لکھا کہ، ’ہمبرگ یو بیوٹی، فرام پاکستان۔‘

ٹاؤن ہال جیسا باہر سے دلکش ہے ویسا ہی سحر انگیز اندر سے بھی ہے۔ پرانے طرز کی گیلری میں اونچی اونچی کھڑکیوں سے دھوپ چھن چھن کر اندر آ رہی تھی اور یہ ہال بغیر کسی مصنوعی روشنی کے ہی بہت روشن اور کھلا کھلا دکھائی دے رہا تھا۔ اسی گیلری کے اندر ایک بار اور ریسٹورنٹ بھی بنا ہوا ہے۔ اب یورپ کے کئی شہروں میں پرانی اور تاریخی عمارتوں میں کیفے کھولے جانے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔

ٹاؤن ہال سے نکل کر سامنے ایک عظیم الشان چرچ کے مینار پر نظر پڑتی ہے، 10ویں اور 11ویں صدی میں تعمیر ہونے والے اس چرچ کا نام سینٹ پیٹرس چرچ ہے، اس کے 132 میٹر بلند ٹاور کو کیمرے کے فریم میں لانے میں کافی دشواری ہو رہی تھی، ایسے میں بجلی کی کیبلز کے لیے بنائے ہوئے لوہے کے باکس پر ایک مقامی مصور کے ہاتھوں سے بنی ہوئی ایک پینٹنگ کو تصویر کرنا غنیمت جانا۔

سینٹ پیٹرس چرچ—تصویر رمضان رفیق
سینٹ پیٹرس چرچ—تصویر رمضان رفیق

سینٹ پیٹرس چرچ کی پینٹنگ—تصویر رمضان رفیق
سینٹ پیٹرس چرچ کی پینٹنگ—تصویر رمضان رفیق

چرچ کا دروازہ کھلا تھا، کبھی کبھی کوئی راہگیر اندر جاتا ہوا بھی دکھائی دیتا تھا۔ میں نے خدا کو دل میں یاد کیا اور ایک انجانی گلی کی راہ چل پڑا، کچھ ایک دو چوراہے پار کرکے ایک اور عظیم الشان مینار پر نظر پڑی، جس پر صلیب طرز کے ڈیزائن دیکھ کر یہ تو اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ یہ کسی چرچ کا ہی مینار ہے، لیکن اس مینار کا کالا رنگ میرے لیے کچھ زیادہ ہی باعثِ کشش تھا۔ چلتے چلتے میں اس جگہ بھی چلا آیا، یہ سینٹ نکولس کا چرچ ہے، جس کا اب صرف مینار والا حصہ ہی سلامت ہے۔

دوسری جنگِ عظیم میں اس چرچ کے باقی حصے تباہ ہوگئے تھے، لیکن اس کا یہ 147 میٹر بلند مینار کسی نہ کسی طرح قائم رہا۔ مینار کے در و دیوار پر سیاح طرز کا رنگ بھی شاید اسی تباہی کی ایک تصویر کشی ہے۔

سینٹ نکولس چرچ، ہیمبرگ—تصویر رمضان رفیق
سینٹ نکولس چرچ، ہیمبرگ—تصویر رمضان رفیق

ہیمبرگ کی ایک سڑک—تصویر رمضان رفیق
ہیمبرگ کی ایک سڑک—تصویر رمضان رفیق

صفائی اور نفاست میں یہ شہر اسکینڈی نیویائی شہروں جیسا معلوم ہوتا ہے—تصویر رمضان رفیق
صفائی اور نفاست میں یہ شہر اسکینڈی نیویائی شہروں جیسا معلوم ہوتا ہے—تصویر رمضان رفیق

اسی مینار کے احاطے میں آکر اس چرچ کی تعیمراتی خوبصورتی کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ چرچ کی یہ عمارت ایک صدی پہلے ایک یا 2 سال کے لیے دنیا کی سب سے اونچی عمارت کا اعزاز بھی حاصل کرچکی تھی۔

اس مینار کی اچھی تصویر ایک فاصلے سے لینے کے لئے میں کچھ دور چلتا آیا اور بالآخر اس علاقے کی طرف نکل آیا جہاں منی ایچر ونڈرلینڈ ہے۔ اگرچہ وہاں دنیا کے مختلف شہروں میں موجود منی ایچر کی طرز پر نمونے بنانے کی سعی کی گئی ہے، لیکن ہیمبرگ کی ونڈرلینڈ اپنی مثال آپ ہے، جو ایک الگ باب کی متقاضی ہے۔ اس ونڈرلینڈ کی سیر کرتے ہوئے میں ایک نئے راستے سے ہوتا ہوا، شہر کے سینٹر کی طرف روانہ ہوا۔

منی ایچر ونڈرلینڈ کا کار پارک—تصویر رمضان رفیق
منی ایچر ونڈرلینڈ کا کار پارک—تصویر رمضان رفیق

ہوٹل کے کمرے کی مدد سے قید کیا گیا ہیمبرگ کا ایک منظر—تصویر رمضان رفیق
ہوٹل کے کمرے کی مدد سے قید کیا گیا ہیمبرگ کا ایک منظر—تصویر رمضان رفیق

ہیمبرگ میں ایک چرچ—تصویر رمضان رفیق
ہیمبرگ میں ایک چرچ—تصویر رمضان رفیق

واپسی پر ٹاؤن ہال کے سامنے سے پھر گزر ہوا، سیاحوں کی تعداد پہلے سے بھی زیادہ تھی، وہاں سے ہوتا ہوا میں پھر انہی سیڑھیوں کی طرف پلٹ آیا، جہاں ایک ہجوم دھوپ سیکنے میں منہمک تھا، اس عیاشی کی قیمت وہی جان سکتا ہے جسے سال میں صرف چند ماہ ایسی دھوپ اور سورج نصیب ہوتا ہے۔

میں جب جب ہیمبرگ آیا ہوں، ان سیڑھیوں کو آباد پایا ہے، یہاں رات گئے تک یونہی رونق لگی رہتی ہے، لیکن ہمارے دن کا اختتام ہوا چاہتا تھا۔ آخر میں گوگل کی مدد سے ایک پاکستانی ریسٹورنٹ ڈھونڈا اور کھانا کھایا، اور پھر اپنے ہوٹل کی راہ لی۔ 4 یا 5 بار یہاں آچکا ہوں، لیکن اب بھی لگتا ہے میری ہیمبرگ سے ملاقات ادھوری ہے۔


رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل کوپن ہیگن میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں شجر کاری اور مفت تعلیم کے ایک منصوبے سے منسلک ہیں۔ انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں اور ان کا یوٹیوب چینل یہاں سبسکرائب کریں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔