لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

اس پیر راجیو گاندھی کے قتل کو 27 سال مکمل ہوگئے۔ وہ دن ہندوستان اور گاندھی خاندان، دونوں کے لیے ہی ایک افسوسناک دن تھا۔ راہول گاندھی یاد کرتے ہیں کہ کس طرح ان کے والد انہیں نفرت کے خلاف خبردار کرتے تھے کیوں کہ یہ ان لوگوں کے لیے قید بن جاتی ہے جو دلوں میں نفرت رکھتے ہیں۔ وہ لوگ جو ایک دوسرے خلاف نامعقول اور نفرت انگیز خیالات سے بھرے ہوئے ہیں، انہیں چاہیے کہ اس کارآمد کلیے پر توجہ دیں۔

ریکارڈ کے لیے عرض ہے کہ نوجوان راہول گاندھی میں قابلِ رشک ہندو، پارسی اور عیسائی روایات کا ملاپ موجود ہے مگر کسی غلط مشورے کی وجہ سے وہ ایک کو بڑھا چڑھا کر اور دیگر 2 کی اہمیت گھٹا کر پیش کرتے ہیں۔ ایک کارآمد عیسائی جملہ بھی ہے جو انہوں نے شاید اپنی والدہ سے سنا ہو۔ اگر وہ اس پر عمل کریں تو ان کے لیے اور اس ملک کے لیے یہ ایک اہم مقصد بن سکتا ہے جس کی وہ قیادت کرنا چاہتے ہیں۔

’تنکا اور شہتیر‘ حضرت عیسیٰ کی تعلیم ہے جو کہ پہاڑ پر ایک خطبے کے دوران انہوں نے ارشاد فرمائی تھی۔ یہ انجیلِ متی کے ساتویں باب میں آیات 1 سے لے کر 5 تک میں بیان کیا گیا ہے۔ بات چھوٹی ہے اور اپنے پیروکاروں کو دوسروں کے بارے میں رائے قائم کرنے سے خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ایسا کیا تو ان کے خلاف بھی ایسے ہی رائے قائم کی جائے گی۔

جب راہول گاندھی نے سرشاری سے کہا کہ اگر انہیں کسی نے پیشکش کی تو وہ خوشی خوشی وزیرِاعظم بن جائیں گے، تو اگلے ہی دن ان کی جماعت ریاست کرناٹک میں انتخابات ہار گئی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جیسے اس بے نتیجہ انتخابات کو اپنی صفوں میں موجود ریاستی اداروں کی مدد سے اپنے حق میں کیا، اس پر ایک حوصلہ افزاء غصہ موجود ہے۔

مگر تاریخ اپنا حساب خود برابر کرنا جانتی ہے۔ جیسا کہ بی جے پی کے کرناٹک میں خود نامزد کردہ وزیرِ اعلیٰ کے ساتھ ہوا۔ اٹل بہاری واجپائی اور نتیش کمار بھی یاد آگئے جنہیں قبل از وقت باہر جانے کی شرمندگی اٹھانی پڑی تھی۔ اقتدار پر ان کا دعویٰ بھی ضروری اعداد و شمار کی وجہ سے پورا نہ ہوسکا۔

پڑھیے: کیا راہول گاندھی ہندوستان کے ’مذہبی فاشسٹوں‘ کا مقابلہ کرسکیں گے؟

مگر راہول گاندھی کے والد ہندوستانی جمہوریت کے لیے ایک غیر معمولی راست باز اقدام اٹھانے کے حوالے سے ممتاز ہیں۔ پارلیمنٹ میں بے مثال اکثریت حاصل کرکے اقتدار میں آنے والی جماعت اگلے انتخابات میں ہار گئی اور پھر 1989ء کے انتخابات میں بھلے ہی کانگریس اکلوتی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی، مگر راجیو گاندھی نے اپوزیشن میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔ شاید کانگریس میں ان کے بعد آنے والوں کو بھی منصفانہ کھیل سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔

نرسمہا راؤ نے پارلیمنٹ پر کچھ دوسرے لوگوں کی طرح مجرمانہ حملہ کرتے ہوئے رشوت دے کر سادہ اکثریت حاصل کی۔ ان کے ساتھ ملوث نائبین کو بعد میں جیل بھیج دیا گیا مگر نرسمہا راؤ کے لیے کارپوریٹ میڈیا (اور کون؟!) نے ملک میں کاروبار دوست پالیسیاں متعارف کروانے پر تعریفوں کے پل باندھ دیے۔

راہول گاندھی کے لیے اچھا رہے گا کہ وہ یاد رکھیں کہ راؤ اور من موہن سنگھ کی اقتصادی پالیسیاں ایک کم درجے کے جرم پر قائم تھیں۔ اگر 13 روزہ واجپائی حکومت نے اینرون کے ساتھ ایک بدنامِ زمانہ معاہدہ کیا تھا تو راؤ اور سنگھ کی جوڑی نے ہندوستان میں مینڈیٹ کے بغیر بدعنوانی کے دروازے کھولے۔ اس سیاسی واقعے کی بہت اچھی فہم سے ہی کرناٹک سے کوئی کارآمد سبق سیکھے جاسکتے ہیں۔

اگر بی جے پی کے زیرِ اثر موجود کرناٹک میں صوبائی ارکان کی ہارس ٹریڈنگ ہوسکتی ہے تو دہلی میں کانگریس کی اکثریت والی پارلیمنٹ میں ارکانِ پارلیمنٹ کی نیلامی بھی ہوئی۔ یہ بہت خطرناک ہوگا اگر ہم ایک معلق اسمبلی میں خبرداری سے کام نہ لیں، کیوں کہ شرارت بہترین ارادوں کو برباد کرنے کے لیے اکثر انتظار میں رہتی ہے۔ بی جے پی کے پاس پیسہ تھا اور وہ جنوبی ریاست میں اقتدار حاصل کرنے کے لیے شدید بے تاب تھی، سو اس نے وہ کیا۔

یہ سچ ہے کہ لامحدود طاقت لامحدود کرپشن کا سبب بنتی ہے، مگر کسی بھی حکومت کے لیے نہایت سادہ اکثریت بھی پریشانی کا سبب بن سکتی ہے، کیوں کہ ایسے وقت میں اس کے عدم تحفظ کے شکار ارکان کا پیسے سے متاثر ہوجانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ عام طور پر الزام لگایا جاتا ہے کہ راجیو گاندھی بوفورز اسکینڈل کی وجہ سے ہارے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جہاں وہ آزاد مارکیٹ پر مبنی معیشت کے حقیقی منصوبہ ساز تھے، لیکن 1985ء میں بمبئی کانگریس کی صد سالہ میٹنگ میں ان کی مکمل توجہ بدعنوان سرمایہ داری پر تھی۔

مزید پڑھیے: بہار تو آسان تھا، کھیل ابھی باقی ہے

انہوں نے ’کانگریسی کارکنوں کی پیٹھ پر سوار دولتمندوں‘ کی سختی سے مخالفت کی۔ دولتمندوں نے جواب میں اپنے اپنے میڈیا اداروں کو ان سے حساب برابر کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔ انہوں نے راجیو کو بوفورز کے کیچڑ میں گندا کرنا چاہا، جبکہ وہ خود اس دھوکے میں ملوث حقیقی سازشیوں کو بچانے میں مصروف رہے، جن میں سے کچھ تو راجیو کے قریبی دوست بھی تھے۔

راہول گاندھی کو صفِ اول کے کچھ بدعنوان کاروباریوں کے نام لیتے دیکھ کر اچھا لگا جنہیں اپنی طاقت مودی سے حاصل ہوتی ہے، چاہے یہ غیر منصفانہ دفاعی معاہدے کے بارے میں ہو یا زمین کی مشتبہ گرانٹ کے بارے میں یا پھر غلط طریقوں سے حاصل کیے گئے مالی فوائد کے بارے میں۔

غیر معقول خوف کا استعمال کرتے ہوئے ووٹ حاصل کرکے چند کاروباری شخصیات کو مینڈیٹ تھما دینا ایک ایسی چال ہے جس سے راہول گاندھی اچھی طرح واقف ہوں گے۔ یہ اتفاق نہیں تھا کہ بابری مسجد ملک کے کاروباری دوست کا دور شروع ہونے پر ڈھائی گئی۔ 2014ء کے انتخابات سے قبل بھی یہ اشرافیہ کا ٹولہ تھا جس نے نریندرا مودی کی وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر حمایت کی۔ کانگریس کو آپشن کے طور پر مسترد کرنے کے ان کے فیصلے نے مودی کو بی جے پی کے اندر لاحق خطرات سے بھی محفوظ کردیا۔ مودی کا انتخاب حقیقت میں ایک کاروباری تجویز تھی جسے ناگپور میں چند بے انتہا خود سر لوگوں نے سیاسی پردہ ڈال کر عملی جامہ پہنایا۔

ہندوستان کا اقتصادی وژن درحقیقت تجارت پر قائم ہے۔ سائنسی تعلیم کی، تخلیق کی یا مہارت کی بلندیاں چھونے کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ ہمارے ملک کے خود ساختہ دیدہ وروں کی توجہ بس چھینی ہوئی زمین سے معدنیات نکالنے، امپورٹڈ موبائل فونز فروخت کرنے اور اپنی بینڈ وڈتھ بچانے کے لیے سیاستدانوں کو رشوتیں دینے پر ہے۔ اگر ایودھیا کا واقعہ ہندوستان کے تجارتی مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ ہے، تو 2014ء میں مظفرنگر کے واقعے نے بھی ملک بھر، خاص طور پر اترپردیش میں لوٹ کا مال محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کیوں کہ بہرحال فاشزم کی بنیاد میں اقتصادی مقاصد ہوتے ہیں اور یہ مقاصد ایک مضبوط جمہوریت سے پورے نہیں ہوسکتے۔

بجائے اس کے کہ کانگریس اس پر خوشیاں منائے کہ کیسے اس نے بی جے پی کو بینگلورو میں ناکوں چنے چبوا دیے (جو کہ ویسے کوئی چھوٹی کامیابی نہیں)، راہول گاندھی اور ان کے کرناٹک میں نئے علاقائی اتحادی کو ایک سیکولر اور صاف، عوامی ایجنڈا ترتیب دینا چاہیے۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ ان انتخابات نے راہول گاندھی کو اگلی جنگ کے بارے میں ایک اہم سبق سکھا دیا ہو۔ وزیرِاعظم بننا اتنا اہم نہیں جتنا کہ پُرعزم اور منکسر مزاج رہنماؤں کا اتحاد تشکیل دینا ہے۔

جیسا کہ ایک پارسی تعلیم ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ’محل جوئی نے جھوپڑی نہ توڑو‘، یعنی دوسروں کا محل دیکھ کر اپنی جھونپڑی مت تباہ کردو۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 22 مئی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں