لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔

بہت سے لوگوں کو شبہ تھا کہ قومی اسمبلی اپنی مدت پوری نہیں کر پائے گی، مگر اگلے ہفتے قومی اسمبلی اپنی 5 سالہ مدت کرلے گی۔ کئی طوفان آئے جنہوں نے سیاسی عمل کو جنجھوڑا مگر نظام قائم رہا۔ ایک منتخب حکومت کی جانب سے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار کی منتقلی اب ایک حقیقت کا روپ لیتی نظر آ رہی ہے، تاہم پھر بھی کچھ رکاوٹیں ہیں جنہیں پار کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ حقیقتاً ملک کے ناہموار جمہوری سفر میں ایک نازک وقت ہے۔ یہ 5 برس بھی گزشتہ 5 برسوں کی ہی طرح ہنگامہ خیز رہے، جس میں ایک بار پھر ایک منتخب وزیرِاعظم کو عہدے سے فارغ کردیا گیا۔ اس طرح ملک کی سب سے طاقتور منتخب شخصیت کی ناخوشگوار انداز میں عہدے سے فراغت کمزور جمہوری سیاسی عمل پر سیاہ سائے کی طرح منڈلا رہی ہے۔

نواز شریف کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لیے روک دیا گیا ہے، وہ بھی زندگی بھر کے لیے۔ یہ نواز شریف کے طویل مگر مشکل ادوار سے بھرپور سیاسی کریئر کا تو شاید اختتام ہو مگر یہ شریف خاندان کے سلسلے کا خاتمہ نہیں ہے۔ انتخابات کے بعد ملک کا نگران تو ہر صورت تبدیل ہوگا لیکن کیا اس سے نظام میں کوئی معیاری تبدیلی واقع ہوسکتی ہے؟

مزید پڑھیے: جمہوریت ’ایک لاڈلی دلہن‘

یہ دیکھنا باقی ہے کہ جس منتقلی کے بارے میں اتنا شور مچایا گیا ہے وہ موجودہ طاقت کی ڈائینامکس کو تبدیل کرپاتی ہے یا نہیں اور ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرسکتی ہے یا نہیں، یا پھر یہ منتخب باڈیز کو مزید کمزور کرنے کی وجہ بنتی ہے جن کی کمی کو غیر منتخب ادارے پورا کرنے آجائیں گے۔ ایک ایسے ہائبرڈ سیاسی نظام کے قیام کے بارے میں خدشات کو بے بنیاد نہیں کہا جاسکتا کہ جس سیاسی نظام میں فوج اور عدلیہ غیر رسمی طور پر اقتدار پر حاوی ہوں بلکہ ملک پہلے ہی اس عجیب سی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔

یہ صرف ریاست کے اداروں میں طاقت میں عدم توازن کا تنازع ہی نہیں جو اس بے ترتیبی کی وجہ بنی ہے بلکہ سیاسی قیادت بھی اس جمہوری عمل کو کمزور کرنے کی ذمہ دار ہے۔ پارلیمنٹ تو بس ایک تند و تیز بحث و مباحثہ کرنے والی جگہ بننے تک محدود ہوچکی ہے جہاں قیادت منتخب ایوان کا ادب و احترام ہی نہیں کرتی۔

اراکین سے لے کر بڑے سیاسی رہنماؤں تک تمام ہی اسمبلی کی کارروائیوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اجلاس میں اراکین کی شرکت کی شرح 25 فیصد سے بھی ہوگئی ہے جس کے باعث اجلاس کو ملتوی کردیا جاتا ہے۔ جب نواز شریف خود اقتدار میں تھے تب بھی وہ شاذو نادر ہی اجلاسوں میں شرکت کرنے آئے۔ منتخب اداروں کی اس طرح توہین کرنے کے بعد اب ان کا نعرہ ’ووٹ کو عزت دو‘ کھوکھلا سا محسوس ہوتا ہے۔

چند حزبِ اختلاف جماعتیں بھی پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے تقریباً ایک سال تک قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیے رکھا اور عمران خان نے تو منتخب ایوان کے بارے میں تحقیر آمیز بیانات دینے سے کبھی خود کو باز نہیں رکھا۔ جب ان کی پارٹی نے بائیکاٹ ختم بھی کردیا اس کے بعد بھی وہ بہت ہی کم ایوان میں نظر آئے۔

جب انہیں اسمبلی میں حاضری کے حوالے سے متوجہ کیا گیا تب بھی اراکین نے کم ہی بحث میں حصہ لیا، حتیٰ کہ اہم قومی اور خارجہ پالیسی پر بلائے گئے اجلاس میں بھی۔ یوں قانون ساز ادارہ غیر مؤثر بنتا گیا۔ اس طرح قانون ساز سیاسی اور ادارتی بحرانوں کو حل کرنے کے قابل ہی نہیں رہے، اور اس میں کوئی حیرانی نہیں کہ ملک مضبوط جمہوریت کے لیے مستحکم منتقلی میں ناکام رہا ہے۔

یہ سچ ہے کہ پاکستان اپنی تاریخ میں بغیر کسی رکاوٹ کے سویلین حکمرانی کے طویل ترین دور میں داخل ہوچکا ہے مگر اس کے باوجود بھی جمہوریت کمزور ہوتی نظر آ رہی ہے۔ جہاں منتخب حکومتوں اور سیاسی قیادت نے پالیسی حلقوں میں جگہ چھوڑی وہیں فوج نے اپنے پیشہ ورانہ دائرے سے باہر جاکر معاملات میں مداخلت بڑھائی۔

منتخب قیادت کی جانب سے پارلیمنٹ اور سویلین قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیر مؤثر قرار دیے جانے اور کمزور گورننس سے عدلیہ کو اپنا کردار وسیع کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ چند جج صاحبان بھی دورانِ سماعت مقبول عام خیالات کے دباؤ کا شکار نظر آتے ہیں جب وہ دورانِ سماعت اکثر غیر ضروری ریمارکس دیتے ہیں۔

مزید پڑھیے: ہمیں جمہوریت عزیز ترین ہے، مگر ایسی نہیں!

داخلی پالیسی پر ہم آہنگی کی کمی اور قومی مسائل پر عدم توجہی سے جمہوری عمل مزید کمزور ہوا۔ جمہوری کلچر اور اقدار کے نہ پنپنے کی ایک وجہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا نہ ہونا بھی ہے۔ زیادہ تر جماعتیں خاندانی موروثیت یا پھر شخصیت پرستی کا شکار ہیں۔

اہم پالیسی مسائل پر پارٹی کے اندر بحث و مباحثے کی کوئی روایت نہیں اور تمام تر فیصلے بس لیڈران ہی کرتے ہیں۔ نام نہاد پارٹی الیکشنز کرائے جاتے ہیں وہ بھی صرف قانونی رسم کو پورا کرنے کے لیے۔ جس انداز میں مصلحت کے مارے سیاستدان جس پھرتی سے پارٹی تبدیل کرتے ہیں اور جس انداز میں سیاسی جماعتیں الیکٹیبلز کی خوشامد کرتی ہیں، اس سے ہمارے سیاسی کلچر میں اصولوں کی کمی ظاہر ہوجاتی ہے۔

پہلے سے بہتر معیاری جمہوریت کی طرف بڑھنے کے بجائے پاکستان برعکس سمت پر گامزن ہے خاص طور پر 2013ء سے تو بڑی تیزی سے اس سمت میں گامزن ہے جب مسلم لیگ اقتدار میں لوٹی اور نواز شریف ریکارڈ تیسری بار ملک کے وزیرِاعظم بنے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیوپلمنٹ اینڈ ٹرانسپیرینسی کی ایک رپورٹ کے مطابق، جہاں 2013ء میں جمہوریت کا معیار 4 برسوں میں اپنی بلند ترین شرح 54 فیصد پر تھا، وہیں 2014ء میں یہ شرح 10 فیصد تک گرتے ہوئے 44 فیصد رہ گئی۔ پھر 2015ء میں یہ صورتحال تھوڑی بہتر ہوئی اور 50 فیصد ہوئی لیکن 2016ء کے آخر تک یہ شرح ایک بار پھر گر کر 46 فیصد پر آ گئی۔ گزشتہ 2 برسوں میں صورتحال اور بھی خراب ہوچکی ہے۔

پاکستان میں جمہوریت کی صورتحال بد سے بدتر ہونے کی وجہ انتہائی اہم مطلوبہ اصلاحات کی کمی ہے۔ جمہوری اداروں میں اہم کام کرنے کے انداز میں کوئی ٹھوس بہتری نہیں آئی۔ پانامہ اسکینڈل جیسے معاملات کو حل کرنے میں پارلیمنٹ کی ناکامی اور قومی سلامتی اور خارجہ پالیسیوں کو ترتیب دینے کے لیے حکومت کے آگے نہ آنے کی وجہ سے سویلین کنٹرول مزید کمزور ہوا۔

ایک مشاورتی فیصلہ سازی کے عمل کو قائم کرنے میں ناکامی بھی فوج اور عدلیہ جیسے غیر منتخب اداروں کی مداخلت کی ایک وجہ ہے۔ جمہوری طرزِ حکمرانی کی مجموعی ناکامی کا ایک پہلو اس کا اہم معاشی، سماجی اور سیاسی معاملات پر ڈلیور نہ کرنا بھی ہے، جس کے نتیجے میں جمہوریت پر لوگوں کا اعتماد انتہائی کمزور ہوا۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں جمہوریت

یہ وہ اہم مسائل ہیں جو ملک کے سیاسی عمل کے لیے وبالِ جان بنے ہوئے ہیں۔ عنقریب ہونے والے انتخابات ملک میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے کافی اہم ہیں۔ انتخابات کے بعد ایک نئی پارلیمنٹ اور نئی حکومت کو مضبوط حکمرانی کے لیے ان اہم مسائل کو حل کرنا ہوگا اور انہیں منتخب کرنے والوں کو ڈلیور کرنا ہوگا۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے بنیادی ڈھانچے کی سطح پر اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ لیکن آخر میں سوال وہی ہے کہ کیا ہمارے لیڈران اپنی کوتاہیوں سے سبق حاصل کرپائیں گے اور ملک کو جمہوری استحکام کی طرف لے جائیں گے؟


یہ مضمون ڈان اخبار میں 22 مئی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں