تو بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ پاکستان اور امریکا ایک دوسرے کے دارالحکومتوں میں تعینات سفارتکاروں سے دشمن ممالک کے نمائندوں کے طور پر پیش آ رہے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ہندوستانی اور پاکستانی سفارتکاروں سے نئی دہلی اور اسلام آباد میں پیش آیا جاتا ہے۔

یہ بچکانہ، ادلے کا بدلہ والا رویہ اگر سفارتی حقوق اور ذمہ داریوں کے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی نہیں تو پھر بھی عقل و فہم سے دوری کا نمونہ ضرور ہے۔ کیوں کہ بہرحال دوسرے ممالک میں سفارتی مشن تعلقات میں بہتری، تجارت کے فروغ اور ہاں، انٹیلیجینس کے حصول کے لیے تعینات کیے جاتے ہیں۔ مگر یہ آخری کام سفارت خانوں سے جڑے ہوئے جاسوس کرتے ہیں، جن کی حقیقت مقامی جاسوسوں کو اچھی طرح معلوم ہوتی ہے۔

چنانچہ سفارت کاروں کو ان کے روز مرّہ کے فرائض کی انجام دہی سے روک کر ہم ان ممالک کے ساتھ کیسے تعلقات بہتر بنا رہے ہیں جنہیں ہم اہم سمجھتے ہیں یا ان ممالک کے ساتھ جن کے ساتھ ہم تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں؟ امریکی وزیرِ خارجہ مائک پومپیو اسلام آباد میں امریکی سفارتکاروں سے سلوک پر اپنا احتجاج باقاعدہ ریکارڈ کروا چکے ہیں۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ اسی ہفتے واشنگٹن میں اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے والے ہمارے بندے کو بھی جلد ہی اپنے میزبانوں کے خلاف ایسی ہی شکایات ہوں گی۔

مگر ایک وقت تھا جب سفارتی آداب کو بے حد ملحوظِ خاطر رکھا جاتا تھا اور جیسے آج کل ہراساں کیا جاتا ہے، ایسا نہیں ہوتا تھا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی امریکی ملٹری اتاشی نے سگنل توڑتے ہوئے ایک موٹر سائیکل سوار کو ہلاک اور ایک کو زخمی کیا ہو، مگر مجھے یہ یاد ہے کہ ویتنام جنگ کی شروعات تک امریکا مخالف جذبات بھی کم ہی پائے جاتے تھے۔

امریکا کی میری اولین یادیں یونائیٹڈ اسٹیٹس انفارمیشن سروس (بعد میں امریکن سینٹر) کی لائبریری سے وابستہ ہیں۔ وہاں ادھار لی گئی کتابوں کو دوسری کتابوں سے تبدیل کروانے جایا کرتا تھا۔ میرے ابتدائی مطالعے میں اسٹائن بیک، فاکنر اور نارمن میلر شامل ہیں۔ انفارمیشن سروس مشہور جاز موسیقاروں کے کنسرٹس بھی منعقد کرواتی تھی۔

تو میں انفارمیشن سروس کی لائبریری اور برٹش کونسل میں موجود کتابوں سے بہت متاثر تھا۔ سوفٹ پاور بلاشبہ ملک سے باہر ملک کا تشخص قائم کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔ ہندوستان اس معاملے میں بہت اچھا ہے، اس کے کئی مسائل کے باوجود اس کے سیاحوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی ہے۔ دوسری جانب ہم اس سادہ اور واضح سی پالیسی پر بھی عملدرآمد کرنے میں ناکام ہیں۔ مگر پھر آپ کے پاس بین الاقوامی طور پر دکھانے کے لیے کچھ نفیس سی چیز تو ہونی چاہیے۔ ہمارا تشخص بمشکل ہی سیاحوں کو پاکستان کی فلائٹ بک کروانے پر مجبور کرتا ہے۔

دوسری جانب ہارڈ پاور بالکل مختلف انداز میں کام کرتی ہے۔ زبردست فوجی قوت رکھنے والی ریاستیں اپنی عسکری صلاحیتوں کا استعمال کرکے دوسری ریاستوں کو مخصوص نظریات اپنانے یا پھر رعایتیں دینے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ حکومت کی تبدیلی کبھی بھی ایجنڈا کی فہرست سے ہٹتی نہیں ہے۔

دوسری جنگِ عظیم سے اب تک امریکی ہارڈ پاور اتنی بالادست رہی ہے کہ امریکا دنیا کے زیادہ تر علاقوں کا تھانیدار بن چکا ہے۔ تنہائی پسند ایجنڈا کے پیروکار ٹرمپ کے ہوتے ہوئے بھی اس کی فورسز دنیا بھر میں موجود سیکڑوں فوجی اڈوں کے ذریعے دنیا پر اپنی دھاک بٹھائے ہوئے ہیں۔ اس عددی برتری کی وجہ سے سفارتکاری کی اہمیت میں بھی کمی آئی ہے۔ کسی دشمن سے کیوں بات کی جائے جب آپ انہیں ڈرا دھمکا سکتے ہیں یا ان پر بمباری کرسکتے ہیں؟

مگر ضروری نہیں ہے کہ ہارڈ پاور کے بے انتہا استعمال سے آپ کے دوست بنیں۔ ویتنام جنگ کے آغاز پر امریکا سے میری مایوسی کا آغاز ہوا اور یہ وقت کے ساتھ صرف گہرا ہی ہوا ہے، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں اس کی تباہ کن مداخلتوں کی وجہ سے۔ حالیہ دنوں میں اس کا ایران کے خلاف معاندانہ رویہ ایک اور گنوا دیا گیا سفارتی موقع ہے۔

بلاشبہ پاکستان میں ایک طویل عرصے سے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ہی یہ فیصلہ کرتی آئی ہے کہ اہم ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی۔ دفترِ خارجہ سے کم مشورے لینے کی وجہ سے یہ ایسی مربوط خارجہ پالیسی بنانے اور اس کے نفاذ میں ناکام رہی ہے جو حقیقی طور پر ہمارے بہترین قومی مفاد میں ہو۔

اور جہاں اسرائیل، سعودی عرب اور امریکا جیسے ممالک کو بین الاقوامی رائے عامہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہاں پاکستان کو یہ رعایت حاصل نہیں ہے۔ درحقیقت اسے اس وقت دوستوں کی اشد ضرورت ہے، مگر دوست کہاں بنیں گے، جو ممالک کشمیر پر ہمارے حامی تھے وہ بھی اب ہم سے فاصلہ اختیار کرچکے ہیں۔

امریکا کے ساتھ ہمارے کبھی ہاں کبھی ناں والے اتحاد کی بنیاد میں موجود ہمارا کاروباری طرزِ تعلق کافی ناپختہ ہے۔ درحقیقت تمام اتحاد حقیقی یا مبینہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم میں روس اپنے سخت مخالفین امریکا اور برطانیہ کے ساتھ متحد تھا تاکہ نازی جرمنی کو شکست دی جاسکے۔ مگر ہٹلر کی شکست کے بعد سوویت یونین اور مغرب ایک دوسرے کے خلاف سرد جنگ میں مصروف ہوگئے۔

اس طرح امریکیوں کو اب بھی پاکستان کی ضرورت ہے کیوں کہ ہم افغانستان کے پڑوسی ہیں اور فوجی سپلائی لائن کے لیے مختصر ترین روٹ ہیں۔ ہم امریکی طیاروں کو افغانستان جانے کے لیے اپنے اوپر سے بھی گزرنے دیتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان کو جدید ترین ہتھیاروں کے لیے امریکا کی ضرورت ہے۔ مگر جب امریکا ہمارے پڑوس سے نکل جائے گا تو یہ سوچنا مشکل ہے کہ انہیں ہماری ضرورت کیوں رہے گی۔

نہ ہی ہمیں یہ بھولنا چاہیے کہ ہماری ہمارے 'اچھے بُرے وقت کے دوست' چین کے ساتھ کوئی ثقافتی قربت نہیں ہے اور حقیقت میں ہمارا غیر رسمی اتحاد صرف ہندوستان دشمنی کی وجہ سے جاری و ساری ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 2 جون 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں