ہم بھی آج کیسے وقت میں جی رہے ہیں، ایک ایسا وقت جہاں ایک طرف میاں نواز شریف لوگوں کو کہتے ہیں کہ انہیں نظریے کے واسطے دوبارہ ووٹ دو اور دوسری طرف عمران خان کو بغیر ذہن لڑائے نہ صرف مقبول بلکہ خالص ترقی پسند لیڈر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ ایک ایسا وقت جہاں بلاول بھٹو اپنے والد آصف علی زرداری سے دگنے امیر ہونے کا دعوی کرتے ہیں، اور حیران کن طور پر آصف علی زرداری اپنے ہی بیٹے کے مقابلے میں پیچھے نظر آتے ہیں جنہوں نے بس ابھی ابھی اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا ہے، اور ایک ایسا وقت جب پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ٹکٹ کے خواہشمندوں کی تلاش بھی ممکن نہیں ہوسکی۔

وقت نے زبردست کروٹ بدلی ہے، کہ ایک طرف فاروق ستار مہاجر ووٹ کی التجا کر رہے ہیں تو دوسری طرف شہباز شریف کی جانب سے کراچی میں چند نشستوں پر انتخاب لڑنے کے نصف ارادے کی خبریں پورٹ سٹی میں مثبت جوش اور ولولے کا سبب بنتی ہیں، وہی شہر جو جدید ٹرانسپورٹ کی سہولیات دیکھنے کا منتظر ہے۔

یہ تمام تر صورتحال صاف طور پر ماضی کی واضح اور طے شدہ پاکستانی سیاست سے اس قدر برعکس ہے کہ اب بالکل ویسی ہی طلب پیدا ہو رہی ہے جیسی طلب ایک نئی متحد ہوچکی دنیا میں رہنے والوں کو سرد جنگ کے لوٹنے کی تمنا پیدا ہوئی، اور یہ طلب بدترین حد تک پہنچ سکتی تھی اگر چوہدری نثار علی خان کی نہایت اہم اور انتہائی محسوس ہونے والی مہربان موجودگی نہ ہوتی۔

چوہدری نثار آپ کو اپنی پسندیدہ حیثیت یاد دلاتے ہیں جس میں وہ آپ کو وہ زمانہ اور جگہ دوبارہ تشکیل دینے میں مدد کرتے ہیں جس میں آپ رہنے کو بے قرار ہیں۔ اس مرحلے میں وہ ان رجحانات، شخصیات اور موجودات کی یاد دہانی کرواتے ہیں جو غالباً اپنا وقت مکمل کرچکے ہیں۔ مثلاً پی پی پی، جس نے بارہا خود میں نئی روح پھونکنا چاہا ہے، یا پھر ناکامی پر دوبارہ خود کو ازسرِ نو بنانے یا نئے انداز میں ایجاد کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ جماعت ابھی مری نہیں، کم از کم محترم چوہدری کے راگ میں تو زندہ ہے اور چوہدری صاحب یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ حالات کی زبردست تبدیلی کے باوجود تنازع کو برقرار کیسے رکھنا ہے۔

پڑھیے: نواز شریف کا سیاسی مستقبل اب کیا موڑ اختیار کرنے جارہا ہے؟

جب وہ مسلم لیگ (ن) کے اس اندرونی اختلافات کی نذر نہیں ہوتے تو وہ خود ہی، چوہدری نثار کی پرانی، محفوظ دنیا کے بانی ہیں اور اس کا اکثر، بلکہ تقریباً ہمیشہ ہی، پی پی پی پر اثر پڑتا ہے۔ عمران خان؟ عمران خان کون؟ وہ تو اس حساب میں برابر ہی نہیں بیٹھتے۔ مخالف تو دور کی بات، عمران خان کو تو اس حریف کے طور پر بھی نہیں سمجھا جاتا جو پنڈی کی سرزمین کے سب سے قابلِ بھروسہ فرد کو ایک تجربہ کار لیگی سے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ چوہدری نثار کو واضح طور پر غیر موافق ہونے کی بے عزتی ناگوار گزری۔

درحقیقت سارا معاملہ، دائیں اور بائیں کا ہے۔ چوہدری نثار کی کتاب میں مسلم لیگ (ن) مرکز میں دائیں طرف ہے، پیپلز پارٹی کے بالکل مخالف جو ہمیشہ گمراہ مگر نظریاتی طور پر مرکز میں بائیں جانب رہی ہے۔ عام سا حساب جو پرانے، بے خلال سے نظر آنے والے ملک کے سیاسی نقشے کو بحال کردیتا ہے جسے ہر قسم کے نئے آنے والے، نئی تحریکیں اور وہ متفرق ہجوم تباہ کرنا چاہتا ہے جو چوہدری نثار کی اس بات سے ناواقف ہے کہ قوم کو بیرونی خطرات لاحق ہیں۔

اب تو اس فارمولا میں کسی دوسرے فریق کو شامل کرنے کی جگہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ عمران خان کے لیے بھی جگہ نہیں۔ پی ٹی آئی کے لیڈر مسلم لیگ (ن) کے تجربہ کار رہنما کو اپنے ساتھ بٹھانے کی کوششیں بھلے کر رہے ہوں، مگر چوہدری نثار، بلکہ شاقی چوہدری نثار، وہ آخری شخص ہوں گے جو اپنی پرانی دنیا کے آرام کا سودا کسی دوسری پارٹی کے اہم عہدے سے کریں گے اور خصوصاً ایسی پارٹی جو شاید ان کو فائدے دینے کے بجائے ان سے مفادات حاصل کرنا چاہے گی۔

حقدار اور ناحقدار کی اس جنگ میں وہ اپنے پرانے ٹیگ کو خود پر چسپاں رکھتے ہیں اور جہاں ماضی کے کسی مخصوص حصے پر پچھتاوا ہوتا ہے وہاں اپنی ہمدردی اور خلوص کو شکوک کی زد میں لائے بغیر یہ ناممکن سا عمل بھی کر گزرتے ہیں۔ ان کے تازہ بیان میں وہ میاں نواز شریف کو یاد دہانی کرواتے ہیں کہ وہ پارٹی (اور ملک) چلانے کی صلاحیت سے کس قدر عاری ہیں۔ چوہدری نثار کہتے ہیں کہ، ’ہم نے انہیں پارٹی لیڈر بنایا‘۔ یہ بات پرانے وقتوں کا حساب رکھنے والوں کے لیے زبردست اطمینان کا باعث بنی ہے، اس اطمینان کا سبب اس سے نہیں جو انہوں نے کہا ہے بلکہ اطمینان کا تعلق تو اس سے ہے کہ کتنی مدت کے بعد یہ سب کہا گیا ہے۔ اس طرح ان کے بارے میں خالص پاکستانی سیاستدان ہونے کے حوالے سے جو بھی خدشات ہیں وہ دور ہوجانے چاہئیں اور یہ کہ وہ یوٹرن مائل جدید دور کا عام مسافر نہیں۔

پڑھیے: ’وزیرِِاعظم زرداری سننے میں عجیب ضرور، مگر ناممکن نہیں!‘

چوہدری نثار کہتے ہیں کہ اس وقت پارٹی میں شامل 15 یا 20 ممبران میں سے نواز شریف سینئر ممبر (نہیں) تھے اور نہ ہی وہ ’پارٹی کی قیادت کرنے کے قابل تھے مگر ہمارے پاس اور کوئی انتخاب نہیں تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ، ’میں ان کا قرضی نہیں ہوں بلکہ وہ (نواز) میرے مقروض ہیں‘۔

جیسا کہ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے 34 برس کا بوجھ اپنے اوپر سنبھالا ہے؛ یہ طویل کڑا امتحان کہ جس سے انہوں نے خود کو گزارا ہے، ظاہر کرتا ہے کہ کیوں بطورِ وزیر داخلہ چوہدری نثار ہمشیہ سوچے سمجھے ہی جواب دیتے تھے۔ جو کچھ بھی ان کے ارد گرد ہو رہا تھا اس پر وہ بنا سوچے سمجھے اپنا ردِعمل نہیں دیتے۔ ان کے چند ناقد انہیں پچھاڑنے کی بھرپور کوشش میں رہے، وہ ناقد ان پر الزام دھرتے تھے کہ ہر اہم واقعے کے بعد جب جب وزیرِ داخلہ کا ردِعمل انتہائی ضروری ہوتا تھا تو وہ غائب ہوجاتے تھے۔ شاید تنقید کرنے والوں نے یہ محسوس کرنا ہی نہیں چاہا کہ وہ تین اور نصف دہائیوں کا بوجھ اپنے اوپر لے کر چل رہے ہیں اور اس بات نے انہیں محتاط کیا کہ وہ کس قدر سست روی سے ردِ عمل دیں۔

لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کیونکہ لوگ پرانے اسٹائل اور پرانے سیاستدانوں کی عادات سے زیادہ واقف نہیں ہیں جو انہیں ایک بڑے اور تجربہ کار سیاستدان کو محبوب والد کی لیگیسی پر اپنا حق جتلانے والے نئے نئے سیاستدانوں سے منفرد بناتی ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ سابق وزیرِ داخلہ معاملات کو چلانے کے لیے بڑوں کی موجودگی کے باجود بچوں کی سربراہی میں چلنے والے نئے طریقہ کاروں اور نظام پر کیوں غصہ ہیں۔

آخر میں وہ کہتے ہیں کہ، ’میں مسلم لیگ نواز کی اندرونی سیاست اور نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے بارے میں لوگوں کو بہت کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ مگر بیگم کلثوم نواز کی تشویشناک صحت کے پیش نظر میں اس حوالے سے عوامی سطح پر بات نہیں کروں گا‘۔

بیگم کلثوم کے بارے میں یہ آخری سطر ان کے بالکل ہی مختلف کائنات کے باسی ہونے کو ظاہر کرتی ہے جسے ہم پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ اس متبادل کو زندہ رکھنے اور چلائے رکھنے کے لیے شاباس چوہدری نثار علی خان۔


یہ مضمون 22 جون 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگریزی میں پڑھیں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں