ایکا کرلو ہوجاؤ کٹھے

بھل جاؤ رانجھے، چیمے، چٹھے

فیض کی چیموں اور چٹھوں سے دھرتی کے سپوتوں کے حقوق کی خاطر مل کر لڑنے کی گئی درخواست ابھی تک وزیرآباد تک نہیں پہنچی، جو نارووال میں واقع کالا کادر سے زیادہ دور نہیں ہے، وہی کالا کادر جہاں تقریباً ایک صدی قبل یہ عظیم شاعر پیدا ہوا تھا۔

جب بھی انتخابات کا انعقاد ہوتا تو چیمے اور چٹھے ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہوجاتے ہیں اور یوں وہ پاکستان میں انتخابی عمل میں برداریوں پر انحصار کے سلسلے کو زندہ و جاوید رکھتے ہیں۔ انتخابات میں جہاں سب سے زیادہ زور ’الیکٹیبل‘ پر ہے وہیں برادریاں بھی ووٹ کا فیصلہ کرنے کے لیے بھرپور انداز میں تیار نظر آتی ہیں۔

سرسری نظر دوڑائیں تو حالیہ وقتوں میں مقامی سیاست کے اندر وزیرآباد کے چٹھے چیموں کو پیچھے چھوڑتا نظر آتے ہیں۔ جنرل ضیاء کے 1980ء کی دہائی سے لے کر 1990ء کی انتقامی جمہوری دور تک ناصر چٹھا کا دورِ عروج قائم رہا جو اپنے ہی طور پر ایک کنگ میکر تھے، اس دور کو گزرے ایک مدت ہوچکی۔

بے نظیر کے لیے اپنی ناگزیر قدر و اہمیت کی وجہ سے نام رکھنے والے حامد ناصر ک نام اب کسی حد تک مدھم پڑگیا ہے۔ تاہم چیمے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کیمپ کے تحفظ کے ساتھ کافی زیادہ نمایاں رہے ہیں، مگر اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کہ کس طرح برادریوں کی سایست پارٹی سیاست پر اثرانداز ہوتی ہے، ہمیں وہ وقت بھی یاد کرنا ہوگا کہ جب چیمے پی پی پی پرچم کے فخریہ علمبردار بنے ہوئے تھے۔ 1988ء میں کرنل غلام سرور چٹھا نے مضبوط امیدوار سمجھے جانے والےحامد ناصر کو شکست سے دوچار کیا تھا۔

بعدازاں بے نظیر نے جب پنجاب کا کنٹرول حاصل کرنے اور ملک میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے لاہور کے شریفوں کا مقابلہ کرنے لائق ’قومی سطح‘ کے مستحکم ساتھیوں کی تلاش شروع کی چنانچہ کرنل کو ترک کردیا گیا۔ ساتھیوں کی یہ تلاش چٹھا کے ساتھ اتحاد کا باعث بنی حالانکہ انہوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے بجائے مسلم لیگ کے ایک دھڑے کے پلیٹ فارم سے اوکاڑہ کے مشہور الیکٹبل منظور ووٹو جیسے شریف مخالف مضبوط مقامی سیاستدانوں کے ساتھ مل کر سیاست کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس اتحاد نے چیموں کو تنہا کردیا اور پیپلزپارٹی کو مقامی سطح پر کمزور کردیا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن خراب پالیسز کی وجہ سے پارٹی کو پنجاب کے مرکزی اور دیگر حصوں میں نقصان پہنچا وہ آصف زرداری کے پارٹی لیڈر بننے سے پہلے کی ہیں۔ چیموں نے جلد ہی پاکستان مسلم لیگ ن کی مزید پائیدار سرپرستی حاصل کرلی جبکہ چٹھوں نے ایک دوسری قومی دھارے کی پارٹی، پاکستان تحریک کی صورت میں ایک ایسی پارٹی تلاش کرلی جس کے ساتھ پی پی طرز کے اتحاد کے برعکس باضابطہ طور پر شمولیت اختیار کی جاسکتی تھی۔ حامد ناصر کے بیٹے احمد چٹھا پی ٹی آئی ٹکٹ پر 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لیں گے جس میں وہ، حسبِ توقع چیما قبیلے کے ہی فرد کا سامنا کریں گے، کیونکہ ڈاکٹر نثار چیمہ وہاں سے پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں۔

پڑھیے: 2018ء کے انتخابات ’الیکٹیبلز‘ کے لیے مشکل ثابت کیوں ہوسکتے ہیں؟

دونوں فریقوں یا برادریوں کے درمیان مقابلے کانٹے کے رہے ہیں، اور فی الوقت ایسے کوئی امکان نہیں کہ ووٹروں کو اپنے ذہنوں پر زیادہ بوجھ ڈالنا ہوگا، کیوں کہ وہ چیمہ اور چٹھہ کی اس سادہ سی بحث سے آگے نہیں سوچیں گے۔

مگر یہ منظور وٹو کے معاملے میں تھوڑا پیچیدہ ہوگا جو کہ پنجاب کی شریف مخالف سیاست میں حامد ناصر چٹھہ اور پی پی پی کے پرانے دوست ہیں۔ وٹو کو ایک طویل عرصے تک برادری کی بنیاد پر کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے جانا جاتا تھا، مگر پھر وہ اس وقت پی پی پی کے نہایت قریب ہوگئے جب پارٹی پنجاب میں ایک بوجھ بن چکی تھی۔ اوکاڑہ میں وساوے والا کا شخص، جو عدم سے بھی کامیاب اتحاد پیدا کر سکتا تھا، وہ الیکٹیبلز پر مشتمل ایک پائیدار اقتداری نظام قائم کرنے کے آصف زرداری کے خواب کی رو میں بہک گیا، مگر یہ کام پارٹی کی قیمت پر ہوا۔ انہوں نے صرف پی پی پی کی باہر سے حمایت نہیں کی، بلکہ اس میں شامل ہی ہوگئے، البتہ غلط وقت پر۔

دونوں افراد نے تقریباً مکمل طور پر برادریوں اور طاقت کے دیگر مقامی سرچشموں مثلاً سرداروں پر اپنی سیاست کا انحصار کر لیا تھا۔ چنانچہ دونوں کی زیرِ سربراہی پی پی پی تباہ ہوئی۔

وٹو کے ایک بیٹے اور بیٹی نے اب پی پی پی کو خیرباد کہہ کر 25 جولائی کے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کا ٹکٹ حاصل کر لیا ہے۔ وٹوؤں نے انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا جس کا مقصد (غیر حقیقی طور پر) یہ اشارہ دینا تھا کہ انہیں مکمل طور پر برادری کے ووٹ کی بناء پر جیتنے کی امید ہے، جبکہ پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ وہ جیتنے کے بعد کر لیں گے۔ جلد بازی کے بعد ان کا پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرنا اس بات کا اعتراف ہے کہ مقابلے میں ان کے لیے کسی بڑی سیاسی جماعت کا حصہ ہونا کس قدر ضروری ہے، یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ عمران خان کس طرح بڑی اور الیکٹیبل برادریوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔

اس طرح کے اتحاد پنجاب بھر میں نہایت عام ہیں، برادری ووٹروں کے لیے اپنی موجودگی کا یقینی احساس دلانے کے لیے ایک اچھا پلیٹ فارم ہوتی ہے۔ اس طرح کے انتظام کا ایک فائدہ ہر گروہ اور لابی کی طرح یہ ہے کہ برادری کا سربراہ جو کسی امیدوار کو اپنے قبیلے کے ووٹوں کی یقین دہانی کرواتا ہے، وہی اپنے ارکان کی جانب سے امیدوار سے بات چیت کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے، جس سے اس کے قبیلے کے افراد کے لیے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔

مزید پڑھیے: برتر اور کمتر کیوں اور کیسے؟ پنجاب میں ذات برادری کا تاریخی پس منظر

برادری ایک بنیادی اکائی ہے جو صرف تب کمزور ہوتی ہے جب دیگر گروہ اس سے ہم خیال افراد کو جوڑے رکھنے کی قوت چھین لیں۔ مثال کے طور پر رحیم یار خان کو دیکھیں، جہاں شہری علاقے اکثریتی طور پر برادری کے اصول کے تحت کام کرتے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں آرائیں آباد کاروں نے چوہدری منیر کی قیادت میں ایک بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کیں۔ خصوصاً وہ صوبائی اسمبلی کی سطح پر غالب تھے۔ مگر جیسے جیسے آپ دیہی علاقوں کی جانب بڑھیں جہاں سردار اور پیر غالب پوزیشنز میں ہیں، وہاں ایک مختلف طرح کا رہنما-پیروکار تعلق انتخابی سیاست کی ساخت متعین کرتا ہے۔

اسی طرح کی صورتحال پنجاب کے دیگر علاقوں میں بھی ہے جہاں کی برداریاں ایک دوسرے کے ساتھ تنازعے کا شکار ہیں تاکہ انہیں نمائندگی اور سیاسی اثر و رسوخ مل سکے۔

جہلم میں راجوں اور جٹوں کا ایک دوسرے سے تنازعہ چل رہا ہے۔ سیالکوٹ میں جہاں آرائیں بڑی تعداد میں موجود ہیں، وہاں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن نے پنجاب اسمبلی کی نشستوں کے لیے آرائیں امیدواروں کو لانے کا فیصلہ کیا۔

لاہور کا ایک حصہ ایسا ہے جو دو قومی نشستوں پر مشتمل ہے اور جہاں 4 سے زائد صوبائی سیٹیں موجود ہیں۔ کھوکھروں کا یہاں پر راج ہے اور وہ انتخابات میں تحریکِ انصاف اور ن لیگ، دونوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی ایسا شخص جس کے نام کے ساتھ کھوکھر نہیں لگتا، وہ ان حلقوں میں لگنے والے بینروں پر جگہ نہیں پا سکتا۔ ان امیدواروں نے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کا امیدوار بننے کے لیے کئی راستوں سے سفر کیا ہوگا مگر بطور امیدوار ان کے انتخاب میں سب سے اہم اور سب سے اولین عنصر ان کی برادری ہے۔ مقابلہ چاہے جس سمت میں بھی جائے، اسمبلیوں میں کھوکھر اور آرائیں برادریوں کے افراد ہی پہنچیں گے۔

مگر قریبی ضلع قصور کے انصاری آپ کو بتائں گے کہ یہ اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ انصاری برادری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے قصور شہر کے حلقے میں 70 ہزار ووٹ ہیں، اس لیے ہر پارٹی انہیں اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے۔ جہاں وہ روایتی طور پر مسلم لیگ ن کے ساتھ وابستہ رہے ہیں، وہاں اس بار انہیں اس قدر پارٹیوں نے اپنے ساتھ ملانا چاہا ہے کہ انصاری ووٹ میں تقسیم کا خوف پیدا ہوگیا ہے۔ قصور شہر میں ماضی کے کئی انتخابات کو قریب سے دیکھنے والے اسکول پرنسپل طفیل بلوچ کہتے ہیں کہ انصاری اس دفعہ تقسیم کا شکار ہیں۔ مسلم لیگ ن نے اس دفعہ ایک انصاری امیدوار کو کھڑا کیا ہے جبکہ پی ٹی آئی اور پی پی پی نے بھی انصاری امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ یہاں تک کہ تحریکِ لبیک نے بھی اس نشست پی پی 174 کے لیے انصاری امیدوار کو کھڑا کیا ہے۔

باوثوق حلقوں کا کہنا ہے کہ باوجود اس کے کہ انصاریوں نے قومی اور صوبائی نشستوں پر اپنی برادری سے امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا تھا، مگر پھر بھی تفریق پیدا ہوگئی ہے۔ اگر ایسا کوئی معاہدہ ہوا بھی تھا، تب بھی یہ زمینی حقائق کی سختی نہیں جھیل سکا ہے۔ کیا یہ پارٹی کا برادری پر حاوی ہونے کا طریقہ ہے؟

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 2 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں