لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔

اب یہ صرف صفوں میں اختلافات کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ وفاداریوں کی تازہ ترین تبدیلی چاہے جبری ہو یا بالرضا، اس نے مسلم لیگ (ن) کے جنوبی پنجاب میں جیتنے کے امکانات کو تقریباً ختم کر دیا ہے، جبکہ پارٹی کو جی ٹی روڈ کے ساتھ ساتھ واقع اپنے قلعے کا دفاع مشکل بنا دیا ہے۔ حالات سابقہ حکمراں جماعت کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ سخت ہیں۔ نتیجہ انتخابات سے پہلے ہی واضح ہوتا نظر آ رہا ہے۔

مگر کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔

اب جبکہ ہمارا ملک اقتدار کی دوسری جمہوری منتقلی کی جانب جا رہا ہے، تو امید سے زیادہ مایوسی نظر آتی ہے۔ سیاست ایک گندا کھیل ہے مگر اس کھیل میں 'فرشتوں' کی آمد سے یہ کھیل اور زیادہ گندا ہو گیا ہے۔ یقیناً مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی جانب سے آخری منٹ پر ٹکٹ واپس کرنا صرف ڈوبتی کشتی سے باہر نکلنا نہیں ہے۔ یہ ایک نہایت عرق ریزی سے بچھائی گئی چال تھی تاکہ مسلم لیگ (ن) کو متبادل امیدوار کھڑے کرنے کا موقع نہ ملے۔

کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو یہ سمجھتا ہو کہ انتخابات کے قریب آتے ہی اتنے بڑے پیمانے پر وفاداریوں کی تبدیلی کی حقیقی وجہ اصل میں ان سیاستدانوں کا ضمیر جاگنے کی وجہ سے ہے۔ اس بغاوت کی انجینیئرنگ میں سیکیورٹی اداروں کے کردار کے الزامات مکمل طور پر بے بنیاد نہیں ہیں، بھلے ہی اس سب کے پیچھے دوسری وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ الیکٹیبل آزاد امیدواروں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے 'کنٹرولڈ' انتخابات کے سازشی مفروضوں کو مزید تقویت دی ہے۔

آزاد کھڑے ہونے والوں میں صرف مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں سے علیحدگی اختیار کرنے والے نہیں، بلکہ کچھ مذہبی تنظیموں کے ارکان بھی ہیں، مثلاً کالعدم جماعت الدعوۃ کی ذیلی تنظیم ملّی مسلم لیگ، جسے الیکشن کمیشن نے رجسٹر کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ امیدواروں کا یہ بلاک مرکزی میدانِ جنگ پنجاب کے کچھ حصوں میں انتخابی منظرنامے پر اثر انداز ہوگا۔

اس دباؤ کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کمزور تو ہوئی ہے مگر اس سے پھر بھی پارٹی مقابلے سے باہر نہیں ہوئی۔ انتخابات میں اب بس 3 ہفتے رہ گئے ہیں، مگر انتخابی منظرنامہ اب بھی دھندلاہٹ کا شکار ہے۔

یقیناً مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے اخراج کی وجہ سے تحریکِ انصاف کو بھی کافی تقویت ملی ہے جس نے اپنے پاس آنے والے باغی امیدواروں پر اپنا پورا انحصار کر لیا ہے۔ 2013 کے برعکس جب پارٹی کی بنیادی قوت نوجوان طبقے میں تھی، عمران خان اب پیروں کی جانب دیکھ رہے ہیں۔

پی ٹی آئی نے یقیناً مسلم لیگ (ن) سے امیدواروں کے 'انجینیئرڈ' اخراج کا فائدہ اٹھایا ہے مگر اب بھی پارٹی کے جادوئی نمبر یا اس کے قریب پہنچنے پر اب بھی ایک سوالیہ نشان ہے جو کہ عمران خان کے اقتدار میں آنے کا خواب پورا کرنے کے لیے ضروری ہے۔

یہ واضح ہے کہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم کی ملک سے طویل غیر حاضری نے مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم پر سنگین اثر ڈالا ہے۔ ٹکٹوں کے اجراء پر اندرونی رسہ کشی اور امیدواروں کے پارٹی بدلنے کی وجہ سے حامیوں میں کم ہمتی پھیلتی جا رہی ہے۔ نواز شریف کے حق میں پنجاب میں ہمدردی کی کسی بھی ایسی لہر کا کوئی ثبوت موجود نہیں جو کہ پارٹی کی انتخابی قسمت بہتر بنا سکے۔

اپنے بڑے بھائی کی عدم موجودگی میں شہباز شریف نے مؤثر انداز میں پارٹی اور اس کی انتخابی مہم کا چارج سنبھال لیا ہے۔ مگر وہ پارٹی کے حامیوں کو بھی جوش دلانے میں شدید ناکام رہے ہیں، ووٹروں کو متاثر کرنا تو دور کی بات ہے۔

ایک اچھے منتظم کی شہرت رکھنے کے باوجود ان کی غیر متاثر کن شخصیت پارٹی کو اوپر نہیں اٹھا سکتی۔ کراچی کے حالیہ دورے میں ان کے سیاسی نوآموزوں جیسے بیانات کی وجہ سے پارٹی کو نہایت شرمندگی اٹھانی پڑی۔

اس کے علاوہ، شریف برادران کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج نے بھی پارٹی کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا تضاد دو متضاد بیانیوں کی وجہ سے آشکار ہوا ہے جو کہ دونوں بھائی اپنائے ہوئے ہیں۔ جہاں بڑے شریف اور ان کی بیٹی نے تصادم پر مائل اپنا سخت گیر مؤقف تبدیل نہیں کیا ہے، وہاں چھوٹے بھائی نے حد سے زیادہ مفاہمتی راستہ اختیار کر لیا ہ۔ے حقیقتاً شہباز شریف نے عوامی طور پر خلائی مخلوق کے نواز شریف کی برطرفی اور پارٹی کی مشکلات کے پیچھے ہونے کے نواز شریف کے دعوے کو چیلنج کیا ہے۔

پارٹی سربراہ کے طور پر شہباز شریف پنجاب میں اپنی حکومت کی کارکردگی کی بناء پر ووٹ مانگ رہے ہیں، بجائے بڑے شریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنانے کے۔ جہاں زیادہ تر لیگی امیدوار نواز شریف کو واپس آ کر انتخابی مہم چلاتا دیکھنا چاہتے ہیں، وہاں ان کے سخت گیر مؤقف کے حامی کم ہی رہ گئے ہیں۔

یہی وہ نکتہ ہے جہاں شہباز شریف کے مؤقف کو سینیئر پارٹی ارکان کی تائید بھی حاصل ہے جن کی دلچسپی صرف انتخابات جیتنے مین ہے۔ ان کے نزدیک تصادم کی پالیسی صرف پارٹی کو تقسیم کرے گی جس سے اس کے اقتدار میں واپس آنے کے امکانات برباد ہوں گے۔

امیدواروں کے پارٹی سے حالیہ اخراج نے اس دلیل کو تقویت دی ہے۔ پالیسی کے معاملے پر بڑھتا ہوا خلیج شہباز شریف کے حالیہ ٹی وی انٹرویوز سے بھی واضح ہے جس میں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے انتخابات جیتنے کی صورت میں بھی قومی حکومت بنانے، اور تمام شراکت داروں بشمول سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر ایک نیا سیاسی چارٹر بنانے کی اہمیت پر زور دیا ہے تاکہ ملک کو لاحق اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کیا جا سکے۔ یہ مؤقف نواز شریف کے نہ جھکنے والے مؤقف سے متضاد ہے۔

جہاں نواز شریف کے لیے جلد از جلد واپس آ کر خود کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کے علاوہ اور کوئی آپشن باقی نہیں بچا ہے، وہاں ان کی موجودگی کی وجہ سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دو متضاد مؤقف رکھنے والوں کے درمیان پارٹی کے اندر خلیج بڑھ جائے۔ بلاشبہ، ان کی زیرِ قیادت انتخابی مہم سے ووٹر ضرور متاثر ہوں گے، مگر اس سے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ تصادم میں بھی شدت آئے گی۔ چنانچہ سینیئر پارٹی ممبران اور امیدواروں پر منحصر ہوگا کہ وہ دو متضاد بیانیوں میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت کو الیکشنز سے قبل جو ایک اور مشکل لاحق ہے، وہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور مریم نواز کی کرپشن مقدمات میں ممکنہ سزا کا خطرہ ہے۔ احتساب عدالت مقدمہ نمٹا رہی ہے۔ فیصلہ انتخابات سے پہلے سنایا جائے گا اور پورا سیاسی منظرنامہ یقینی طور پر تبدیل ہوگا۔ اس صورتحال سے مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ، دونوں کے لیے سخت چیلنجز پیدا ہوں گے۔

کچھ لیگی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ شہباز شریف کی مفاہمت کی پیشکش اس صورتحال سے نکال سکتی ہے۔ مگر یہ محفوظ راستہ کیا ہوگا؟ ایسا راستہ جو نواز شریف اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ دونوں ہی کے لیے قابلِ قبول ہو؟ یہ واضح ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کی سیاست سے بے دخلی سے کم کسی بھی چیز پر راضی نہیں ہوگی۔ اس کا امکان نہایت کم ہے کہ نواز شریف ایسا کوئی بھی معاہدہ قبول کریں گے۔

حالیہ بحران کا کوئی بھی حل نظر نہیں آ رہا ہے، جس کی وجہ سے اقتدار کی دوسری جمہوری منتقلی شدید متنازع بن چکی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 3 جولائی 2018 کو شائع ہوا.

تبصرے (0) بند ہیں